✍️شاداب امجدی برکاتی
گھوسی ، مئو
ام المؤمنين حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ بنت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما کی ذات ستودہ صفات جامع فضائل و کمالات ہے، اللہ تعالیٰ نے جن کی پاکی میں سورۂ نور کی گیارہ آیتیں ( آیت 11 تا 20) نازل فرمائی، وہ عفیفہ سیدہ کہ جن کی طہارت کی تلاوت صبح قیامت تک ہوتی رہے گی، نبی کریم ﷺ کی کثیر احادیث، صحابہ کرام و تابعین عظام رضی اللہ عنہم کے بیشمار اقوال سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عظمت شان بیان کر رہے ہیں، تفصیل کے لیے سیرت کا کتابوں کا مطالعہ کریں، یہاں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی قابل اتباع زندگی سے ان کی انکساری و خاکساری اور پردے کے التزام کے چند دل افروز واقعات و روایات پیش ہیں جنہوں پڑھ کر اس ماڈرن دور میں اسلامی مائیں اور بہنیں سبق حاصل کریں اور والدین اپنی بچیوں کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ان واقعات کا مظہر بنانے کی کوشش کریں ۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے کثرت صیام و قیام اور کثرت جود و سخا کے باوجود اپنی مدح و ثنا سے نفرت کرتی تھیں، اور رِیا ( دکھاوے) کے خوف سے اگر کسی موقع پر اپنی مدح ہوتے ہوئے سن لیتیں تو کہتیں : " کاش میں بھولی بسری بن جاتی، کاش میں بھلا دی جاتی" ( حلیۃ الاولیاء ج 2 ص 45)
اکثر مواقع پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مشہور شاعر لبید بن ربیعہ عامری رضی اللہ عنہ کا یہ شعر پڑھا کرتیں :
ذهبَ الذينَ يعاشُ في أكنافهمْ
وبَقيتُ في خَلْفٍ كجِلدِ الأجرَبِ
ترجمہ: انسانیت کے ہمدرد و غم گسار تو یکے بعد دیگرے چلے گئے اور میں خارش زدہ (کھجلی والی) جلد کی طرح بدنام لوگوں میں پیچھے رہ گیا ۔
نیز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں کہ : " اللہ تعالیٰ لبید پر رحم فرمائے اگر وہ ہمارا زمانہ دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا" ۔ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہا کرتے : " اللہ تعالیٰ ام المؤمنين پر رحم فرمائے اگر وہ ہمارا زمانہ دیکھ لیتیں تو ان کا کیا حل ہوتا" ( التاريخ الاوسط للبخاری ج1 ص 56)
ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سیدہ عائشہ اور آپ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر پر رحم فرمائے اگر یہ پاکباز ہستیاں ہمارا زمانہ دیکھ لیتیں تو ان کا کیا حال ہوتا ۔ 😢
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی مدح و ثنا کو سخت ناپسند کرتی تھیں اور کسی کو اپنی تعریف نہیں کرنے دیتی تھیں ۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ کے مرض الموت میں تیمار داری کی اجازت طلب کی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فوراً بھانپ لیا کہ وہ آئیں گے اور میری تعریف کریں گے اس لیے اجازت نہیں دی ۔ پھر جب کسی نے ان کی سفارش کی تو انہیں اجازت دے دی، ابن عباس رضی اللہ عنہما جب اندر آئے تو ام المؤمنين کی مدح سرائی بیان کرنے لگے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے کرب کا اظہار ان الفاظ میں کیا " میرا دل چاہتا ہے کہ میں لوگوں کی یادوں سے محو ہوجاؤں" ( صحیح البخاری رقم الحدیث 4753)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حد درجہ خاکسار اور متواضع تھیں، اس کا اندازہ اس وصیت سے ہوتا ہے جو انہوں نے اپنے مرض الموت میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو کی تھی کہ :" تم مجھے ان کے ساتھ ( میرے کمرے میں یعنی موجودہ گنبد خضرا میں) نہ دفنانا، بلکہ میری بہنوں ( دیگر ازواج مطہرات) کے ساتھ مجھے بقیع والے قبرستان میں دفن کرنا، میں نہیں چاہتی کہ (یہاں دفن ہوکر) ہمیشہ میری مدح و ثنا کی جائے" ( سیر اعلام النبلاء ج2 ص 193)
شارح بخاری علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کا یہ مفہوم ہے کہ یہاں دفن ہونے کے سبب میری ثنا اور تعریف بیان ہوگی اور اس وجہ سے اسے میری خوبی و فضیلت سمجھا جائے گا، حالاں کہ اس کا احتمال ہے کہ میں فی الواقع ایسی نہیں ہوں ۔ اور یہ الفاظ سیدہ نے از راہ تواضع کہے اور اپنے نفس کو حقیر گردانا ۔( فتح الباری ج3 ص 258)
ایسا تواضع اور ایسی خاکساری سیدہ کی ذات میں کیوں نہ آتی کہ آپ یار غار سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آغوش تربیت کی پروردہ تھیں، امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی میں آتا ہے کہ آپ اپنی اولاد کی تربیت میں بہت سخت تھے، ہرچیز کا دھیان دیتے کہ شرع مطہر کی رو سے غلط تو نہیں؟ ۔
چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ : ایک بار میں نے اپنی نئی قمیص زیب تن کی، اور میں خود اسے دیکھنے لگی اور وہ مجھے بہت اچھی لگی، میرے ابا جان سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے : " تم کیا دیکھ رہی ہو؟ کیا بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں دیکھ رہا؟"۔ میں نے عرض کیا : اس کا کیا مطلب؟ انہوں نے فرمایا : " کیا تمہیں علم نہیں، جب بندے میں خود پسندی آجاتی ہے تو اس کا رب اس پر ناراض ہوتا ہے، حتی کہ وہ زینت ترک کردے" ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے فوراََ اسے اتار کر صدقہ کردیا، چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : " امید ہے کہ تمہارا یہ عمل اس فعل کا کفارہ بن جائے گا"۔ ( حلیۃ الاولیاء ج 1 ص 37)
ام المؤمنين سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی صفات میں ایک اہم صفت یہ بھی تھی کہ آپ پردے کا سخت التزام کرتی تھیں ۔
چنانچہ وہ خود بیان کرتی ہیں کہ " ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں میں نے اپنے رضاعی چچا کو اپنے گھر میں نہیں آنے دیا، یہاں تک کہ انہوں نے اس بارے میں نبی کریم ﷺ سے استفسار نہ کرلیا، پھر بھی میں نے قطعاََ انہیں اجازت نہ دی جب تک کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے یہ نہ فرمایا کہ :" تمہارے چچا کے تمہارے گھر میں آنے میں کوئی حرج نہیں" اس کے باوجود میں نے اپنے دل کے مزید اطمینان کے لیے عرض کیا : " مجھے عورت نے دودھ پلایا تھا مرد نے تو نہیں"، حضور ﷺ نے اپنی بات کی تاکید کے لیے دوبارہ وہی فرمایا : " بے شک وہ تمہارے چچا ہیں اور تمہارے پاس آسکتے ہیں " ( صحیح البخاری 5239)
یوں ہی ایک نابینا شخص سیدہ سے کچھ پوچھنے آیا تو انہوں نے حجاب کے پیچھے رہ کر جواب دیا، وہ کہنے لگا :" میں تو نابینا ہوں، آپ مجھ سے کیوں پردہ کرتی ہیں؟" سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :" اگر تم مجھے نہیں دیکھ سکتے تو میں تو تمہیں دیکھ سکتی ہوں" ( الطبقات الکبریٰ ج 8 ص 69)۔
آج ہماری اسلامی ماؤں اور بہنوں کو ضرورت ہے کہ حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس مبارک سیرت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں، خصوصاً پردے کے معاملے میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے یہ مذکورہ دونوں واقعات سبق آموز ہیں، ان کو اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش کریں ۔
اور 17 / رمضان المبارک کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے یوم وصال کی مناسبت سے فاتحہ دلائیں اور ان کے وسیلے سے دعائیں کریں ۔
16 / رمضان المبارک 1441 ھ
10 / مئی 2020 ء
بروز یک شنبہ
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں