تقسیم بھارت کے بنیادی اسباب
حق تلفی،گھرواپسی اور برہمن راشٹر کے خواب
بھارت کی تقسیم کا سبب آزادی کے بعد بھارت کو”برہمن راشٹر“بنانے کا عزم،مسلمانوں کو بالجبر ہندو بنانے کا پروگرام اور قوم مسلم کو حکومتی محکموں سے بے دخل رکھنے کا نظریہ تھا۔ برطانوی حکومت بھارت کوجمہوری اور سیکولر ملک بنانا چاہتی تھی،اسی لیے برطانیہ نے گول میز کانفرنس میں ہرقوم اورہرطبقہ کو دعوت دی تھی۔
یہ سب کچھ دیکھ کر کانگریس نے بھارت کوجمہوری اورسیکولر اسٹیٹ بنانے کا نظر یہ اختیار کیا، لیکن ہندو مہا سبھا کے دباؤ پر مسلمانوں کو حکومتی حقوق دینے پرراضی نہیں ہوئی۔ ایک طرف سیکولر اسٹیٹ کا نظریہ، اور دوسری طرف اقلیتوں کے حقوق کی حق تلفی۔اس کا مفہوم تھا بظاہر سیکولر اسٹیٹ اورحقیقت میں برہمن راشٹر۔انجام کار بھارت تقسیم ہو گیا۔
بھارت کے مشہور مؤرخ تاراچند (1888-1973)نے ان حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:
”ہندو مہاسبھا اس بات کو مانتی تھی کہ ہندوستان میں صرف ایک قوم ہے جس میں وحدانی طرزکی حکومت ہو، اور اکثریت کی حکومت ہونا چاہئے۔اس کے خیال میں اقلیتوں کے صرف مذہبی گروہ تھے،اس لیے ان کے مذہبی حقوق کا تحفظ توکیا جاسکتا ہے،لیکن سیاسی یا انتظامی حقوق کی ضمانت کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے برخلاف مسلمان اپنے کوایک قوم سمجھتے تھے جن کا مذہب،کلچر اور روایات جدا گانہ تھیں،اس لیے ان کا ایک مخصوص وجود تھا، جس کا دستوری اور انتظامی معاملات میں تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔اس کا مطلب یہ نکلاکہ ہندوستان میں وفاقی طرز کی حکومت ہونا چاہئے،اور حکومت کے قانون سازی،عاملہ اور انتظامیہ شعبوں میں ان کا حصہ کتنا ہو، اس کی وضاحت صاف طورسے دستور میں کردی جائے۔ساتھ ساتھ ان کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کا تحفظ ہو۔
اپنی اپنی بات پر ضد اور اصرار دونوں کواس لیے تھا کہ دونوں ایک دوسرے سے خوفزدہ تھے،اوراعتماد نہ کرتے تھے۔ ہندو لیڈروں کی تقریر وں اور تحریروں میں خوف کا اظہار کیا جاتا تھا،مثلاً لاجپت رائے جو کہ بڑے روشن دماغ، جہاں دید ہ،وسیع الخیال اورجری لیڈر تھے،اور جوہندو مسلم اتحاد کے بڑے خواہش مند تھے،اور اچھی طرح سمجھتے تھے کہ بغیر اتحاد کے سوراج ناممکن ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات سے اس قدر بدل ہوئے،اور چند مسلمان لیڈروں کے احمقانہ اعلانات سے اس قدر ڈرگئے کہ نہ صرف انہوں نے سوراج پارٹی کو خیرآباد کہا اور گاندھی جی کی تحریکات کو نا پسند کرنے لگے،بلکہ مکمل طورپر ہندو مہا سبھا کے ہم خیال ہوگئے،اور اس کے شدھی اور سنگھٹن کے جارحانہ پروگرام کو ترقی دینے میں لگ گئے“۔((تاریخ تحریک آزادی ہند (تارا چند): جلد 4 ص204، 205 - قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان:دہلی-ترجمہ:از،ڈاکٹر ایم ہاشم قدوائی:علی گڑھ)
نوٹ:بھارتی ہسٹری کے متعدد اسکول ہیں۔مؤرخ تاراچند کا تعلق کانگریسی اسکول سے ہے۔ کانگریسی اسکول کانظریہ ہے کہ مسلمانوں کوبد نام کیاجائے اور آرین قوم کو ہرجرم سے پاک وصاف ثابت کیا جائے۔ زعفرانی اسکول تو کذب وافتراکی فیکٹری ہے۔
آریہ سماجی لیڈر،سابق صدرکانگریس،پنجابی برہمن،لا لہ لاجپت رائے (1865-1928)ہندو مہا سبھا کا فاؤنڈر ممبر ہے۔ مسلمانوں کے احمقانہ اعلان سے وہ ہندومہا سبھا میں شامل نہیں ہوا،بلکہ ایکٹ: 1909میں برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو جدا گانہ انتخابی حق دیا،اورہرشہری کوووٹ کا حق دیاتو آرین قوم بوکھلا کر1909میں ہی ہندو مہا سبھا کی تشکیل کی، اور شودر اقوام کوہندوبناکر اپنی اکثریت ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگی،حالاں کہ آرین قوم آج تک شودروں کوحیوانوں سے بدتر سمجھتی ہے۔
آریہ سماجی لیڈر،بنارس ہندو یونیورسٹی کا فاؤنڈر، کانگریس کا سابق صدر، ہندو مہا سبھا کا لیڈر، پنڈت مدن موہن مالویہ (1861-1946)ہندوسگھٹن کا فاؤنڈر تھا۔ہندوسنگھٹن اورشدھی تحریک1923میں شروع ہوئی۔شدھی تحریک مسلمانوں کو ہندو بناتی تھی،اورسنگھٹن کا کام یہ تھا کہ جومسلمان ہندونہ بنے،اسے قتل کر دیا جائے۔ (سنگھٹن ویکی پیڈیا:آزاد دائرۃ المعارف)
انگریزوں کا منشا دیکھ کرکانگریس نے ملک کو برہمن راشٹر بنانے کی مخالفت کی،اس لیے بہت سے برہمن، راجپوت وبنیا ہندو مہا سبھا اور آرایس ایس میں چلے گئے۔
آج جو پوزیشن آرایس ایس کی ہے،وہی پوزیشن ہندومہا سبھا کی تھی۔ہندو مہا سبھا کے ممبر ناتھورام گوڈسے کے ذریعہ گاندھی جی کی ہلاکت کے سبب ہندومہا سبھا نے اپنا وجود کھودیا۔آج ہندو مہاسبھا برائے نام ہے۔گاندھی جی کی ہلاکت کا حادثہ30:جنوری 1948کو ہوا۔
طارق انور مصباحی (کیرلا)
جاری کردہ:15:مئی 2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں