-----------------------------------------------------------
*🕯مفتی محمد سعد اللہ مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:*
*اسم گرامی:* مولانا مفتی محمد سعدا للہ مراد آبادی/رام پوری۔
*تلخص:* آشفتہ۔
*لقب:* جامع العلوم، امام العلماء، مرجع الفضلاء، قاضی الوقت۔
*والد کا اسم گرامی:* مولانا نظام الدین علیہ الرحمہ۔
شیخ قوم سے تعلق تھا۔ آپ کے والد گرامی اپنے وقت کے جید عالم و عارف تھے۔
*(تذکرہ کاملان رام پور:151)*
*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت 17/رجب المرجب 1219ھ،مطابق اکتوبر/1804ء کو’’محلہ کسرول، مولسری والی مسجد کے عقب میں اپنے موروثی مکان، مرادآباد (انڈیا) میں ہوئی‘‘۔(ایضا :151)۔
تاریخِ پیدائش لفظ ِ ’’ظہورِ حق‘‘اور ’’بیدار بخت‘‘ سے نکلتی ہے۔
*(تذکرہ علمائے ہند:197)*
*تحصیلِ علم:* آپ کے والد گرامی مولانا نظام الدین کا بچپن میں انتقال ہوگیا، بڑے بھائی نے تربیت و تعلیم دی، بھاوج کی معمولی شکایت پر بھائی نے ایسی سختی کی کہ گھر سے چلے گئے، اور حصول ِعلم کے لئے مختلف شہروں کی خاک چھانی، نجیب آباد میں مولانا عبدالرحمن قہستانی سے شرح جامی پڑھی،اخوند شیر محمد ولائتی، مولانا محمد حیات پنجابی، سے مختلف علوم حاصل کیے۔
ان کے اساتذہ میں بڑے بڑے نام ہیں: مولانا شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی،مولانا شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی، مولانا مفتی صدر الدین آزردہ، مولانا ظہور اللہ فرنگی محلی، مرزا محمد ہاشم محدث لکھنوی، مولانا حسن لکھنوی۔=(تلمیذ شاہ ولی اللہ دہلوی) وغیرہ بزرگوں سے تعلیم پائی۔ 1243ھ میں فارغ التحصیل ہوئے۔
فراغت کے بعد گھر والوں کو خبر کی، 1250ھ میں گھر آئے۔آپ نے تحصیل علم میں ایسا کمال حاصل کیا کہ اس وقت کے جید علماء و فضلاء میں شامل ہونے لگے۔
*بیعت و خلافت:* عارف باللہ حضرت شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے۔
*سیرت و خصائص:* امام العلماء، مرجع الفضلاء، جامع علوم ِعقلیہ و نقلیہ، مرج البحرین، مرجع الفریقین، عارف اسرار ربانی حضرت علامہ مولانا مفتی محمد سعد اللہ مرادآبادی ثم رام پوری علیہ الرحمہ۔
مفتی صاحب علیہ الرحمہ تیرہویں صدی ہجری کے جید اور عظیم عالم ِدین و فقیہ تھے۔ عالمِ اجل، شیخِ فاضل، ادیب اریب، منطقی، اصولی منقول و معقول کے امام تھے۔ فقہ، عربی و فارسی ادب میں فرید العصر تھے۔
تحصیل علم کے بعد مدرسہ شاہی لکھنؤ میں مدرس ہوئے، تاج اللغات ترجمہ قاموس کی بعض جلدوں کی تالیف کی،اور اس کےبعد کچہری لکھنؤ میں مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے۔اسی عہدے پر 29سال خدمات انجام دیں، اسی عرصے میں حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہاں شیخ جمال مکی علیہ الرحمہ سے سند حدیث حاصل کی، نواب یوسف علی خان کی التجاء پر رام پور تشریف لے گئے وہاں عہدۂ قضاء و افتاء پر فائز ہوئے۔ نواب کلب علی کے زمانے تک اسی عہدے پر مقرر رہے۔
حضرت مفتی سعداللہ علیہ الرحمہ دن کو تدریس اور ساری ساری رات مطالعے میں گزار دیتے تھے۔ آپ کی زوجہ محترمہ مرحومہ کے بقول چھت میں ایک رسی لٹکا رکھی تھی، شب کو وہ رسی اپنے بالوں میں باندھ لیتے تھے تاکہ رات کو نیند نہ آئے۔
*(تذکرہ کاملان رام پور:153)*
آپ علیہ الرحمہ کو تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف میں بھی مہارتِ تامہ حاصل تھی، مختلف علوم و فنون پر کتب، رسائل، حاشیے ایک سو سے زائد تحریر فرمائے ہیں۔ اسی طرح عربی و فارسی ،نظم و نثر میں ایسی مہارت اس وقت ان کی جامعیت کا کوئی شخص نہیں تھا۔ فارسی میں ’’آشفتہ‘‘ تخلص رکھتے تھے۔
آپ کے شاگردوں میں نامی گرامی علماء کے نام آتے ہیں۔مولانا مفتی لطف اللہ رام پوری(صاحبزادہ)،مولانا رحمت اللہ مہاجر مکی،مولانا ہادی علی خان لکھنوی، مولانا شاہ عبد الحق کانپوری، وغیرہ شامل ہیں۔مولانا کےکتب خانہ میں 800 کتب کا ذخیرہ موجود تھا۔
*تاریخِ وصال:* آپ کا وصال 14/ رمضان المبارک 1294ھ، مطابق 23/ستمبر1877ء، بروز اتوار، داعی اجل کو لبیک کہا۔رام پور میں مزار حضرت سید عبداللہ بغدادی علیہ الرحمہ میں مدفون ہیں۔
*ماخذ و مراجع:* تذکرہ علمائے اہل سنت۔ تذکرہ کاملان رام پور۔ تذکرہ علمائے ہند۔ حدائق الحنفیہ۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں