*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯امام ابو عبد اللہ محمد ابن ماجہ قزوینی ربعی علیہ الرحمۃ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*اسم گرامی:* محمد۔
*کنیت:* ابو عبداللہ۔
*لقب:* حافظ۔
*سلسلۂ نسب یہ ہے:* محمد بن یزید بن عبداللہ بن ماجہ ربعی قزوینی۔ علیہم الرحمہ۔
ماجہ آپ کے والد کا لقب تھا جس کی تائید علامہ نووی نے تہذیب الاسماء و اللغات میں علامہ مجدد الدین فیروز آبادی نے قاموس میں علامہ ابو الحسن سندھی نے ابن ماجہ کی شرح میں شاہ عبدالعزیز نے عجالہ میں قزوین کے مشہور مورخ حافظ خلیلی نے اور محدث رافعی نے تاریخ قزوین میں اور امام ابن ماجہ کے شاگرد خاص حافظ ابو الحسن بن قطان نے کی ہے۔
شاہ عبدالعزیز عجالہ نافعہ میں لکھتے ہیں ‘‘ماجہ لقب پدر ابو عبداللہ است نہ لقب جداو نہ نام مادر او’’ (عجالۂ نافعہ، ص۲۳)
*ولادت:* آپ کی ولادت عراق عجم کے مشہور شہر قزوین میں ۲۰۹ میں ہوئی۔ آپ نسلاً عجمی تھے قبیلہ ربیعہ کی طرف نسب ولاء کرتے ہوئے ربعی کہلاتے ہیں۔
*تحصیل علم:*
ابن ماجہ کا زمانہ علم حدیث کی ترقی و اشاعت کا زریں عہد تھا اس علم میں کمال پیدا کرنا ہی علمی حلقوں میں فضیلت کا معیار تھا چناں چہ امام صاحب نے ابتدائی تعلیم کے بعد دیگر بلاد و امصار کی سیاحت و سفر بغرض سماع حدیث شروع کی۔ ابن خلکان کا بیان ہے ‘‘ارتحل الی العراق والبصرۃ والکوفۃ و بغداد و مکۃ والشام و مصر لکتب الحدیث’’ ابن ماجہ نے کتاب حدیث کے لیے عراق، بصرہ، کوفہ، بغداد، مکہ، شام، مصر اور رے کا سفر کیا۔ (وفیات، ج۲، ص۳۶۳)
شاہ عبدالعزیز کے مطابق ابن ماجہ کو عراق، بصرہ، بغداد،مکہ، مدینہ، شام، مصر، واسط رے اور دوسرے اسلامی شہروں میں سفر کا اتفاق ہوا۔
(بستان المحدثین، ص۱۹۱)
آپ نے کثیر شیوخ حدیث سے سماع کیا چند اساتذہ کے نام یہ ہیں:
محمد بن عبداللہ بن نمیر، حیارہ بن مفلس، ابراہیم بن منذر الخرمی، عبداللہ بن معاویہ، ہشام بن عمار، محمدبن رمح، داؤد بن رشید۔
(تذکرہ، ج۲، ص۱۸۹)
ابو بکر بن ابی شیبہ، احمد بن عبدہ، نصرہ بن علی، ابو مروان محمد بن عباد، عباس بن عبدالعظیم، عبداللہ بن عامر، ابو خثیمہ، زبیر بن حرب، عثمان بن ابی شیبہ، عبداللہ بن احمد، اسماعیل بن بشر، یحییٰ بن حکیم۔
(تذکرۃ المحدثین سعیدی، ص۳۱۵)
*حلقۂ درس اور تلامذہ:*
ان اہم ترین شیوخ سے کسب فیض کے بعد ابن ماجہ نے علم حدیث میں وہ رتبہ بلند پالیا تھا جس کا تقاضا تھا کہ آپ کی بارگاہ طالبان حدیث کا مرجع بن جائ چناں چہ ایسا ہی ہوا آپ سے بے شمار لوگوں نے حدیثیں سنیں اور روایت کیں جن میں اکابر، معاصر، اصاغر، سبھی شامل ہیں۔ چند اہم نام یہ ہیں:
علی بن سعید بن عبداللہ غذانی، ابراہیم بن دینار جرشی، احمد بن ابراہیم قزوینی، ابو طیب احمد بن روح شعرانی، اسحاق بن محمد قزوینی، جعفر بن ادریس، حسین بن علی بن برانیاد، سلیمان بن یزید قزوینی محمد بن عیسیٰ صغار، ابو الحسن علی بن ابراہیم بن سلمہ قزوینی، ابو عمر واحمد بن حکیم مدنی۔
(تہذیب، ج۹، ص۴۶۸)
محمد بن عیسیٰ ابہری، احمد بن مدح بغدادی، ابو بکر حامدی۔
(تذکرۃ المحدثین سعیدی، ص۳۱۵)
*فضل و کمال:*
امام ابن ماجہ نے حدیث، علوم حدیث، تاریخ و تفسیر میں جو کمال پیدا کرلیا تھا اس کا اعتراف علماء اور ارباب سیر نے کیا ہے۔
*ابن خلکان:* ‘‘کان اماماً فی الحدیث عارفا بعلومہ وجمیع مایتعلق بہ’’
ابن ماجہ حدیث کے امام تھے اور علوم حدیث کے جاننے والے اور تمام فنون کا ادراک رکھتے تھے جو حدیث سے متعلق ہیں۔
*ابو یعلیٰ خلیلی:* ‘‘ثقۃ کبیر متفق علیہ محتج بہ لہ معرفۃ بالحدیث و حفظ و لہ مصنفات فی السنن والتفسیر والتاریخ’’ وہ ثقہ کبیر ہیں ان کی جلالت علم پر سب کا اتفاق ہے وہ حجت ہیں اور علم حدیث میں انہیں گہری معرفت ہے اور وہ حافظ حدیث ہیں۔ سنن، تفسیر اور تاریخ میں ان کی متعدد کتابیں ہیں۔
(تہذیب، ج۹، ص۴۶۸)
*حافظ ذہبی:* ‘‘الحافظ الکبیر المفسر صاحب السنن والتفسیر والتاریخ و محدث تلک الدیار’’ الحافظ الکبیر امام، سنن، تفسیر اور تاریخ کے مصنف اور ملک خراسان کے محدث ہیں۔
(تذکرہ، ج۲، ص۱۸۹)
*ابن جوزی:* وہ حدیث و تاریخ اور تفسیر کے ممتاز ماہر تھے۔
*ابو القاسم رافعی:* ائمہ مسلمین میں ابن ماجہ بھی ایک بڑے معتبر امام ہیں۔ ان کی مقبولیت پر سب کا اتفاق ہے۔
*ابن اثیر:* وہ ذی عقل، صاحب علم اور امام حدیث تھے۔
*جلال الدین: تغری:* ابن جامہ امام حجت اور ناقدحدیث تھے۔
*ابن ناصر الدین:* مشہور علماء اسلام میں ایک ابن ماجہ بھی ہیں وہ حدیثوں کے حافظ اور اس میں نہایت معتبر اور بلند پایہ شخص تھے۔
*تصانیف:*
امام ابن ماجہ بلند پایہ مصنف بھی تھے۔ آپ کی تین اہم کتابیں مشہور ہیں۔ سنن ابن ماجہ، تفسیر ابن ماجہ، تاریخ ابن ماجہ عہد رسالت سے لے کر مصف کے زمانے تک کی مبسوط تاریخ ہے حافظ ابن طاہر مقدسی کہتے ہیں میں نے قزوین میں اس کا ایک نسخہ دیکھا تھا لیکن اب یہ کتاب ناپید ہوچکی ہے۔ یہ کتاب امام ابن ماجہ کے درک فی التاریخ کی دلیل ہے تفسیر قرآن میں ان کی ایک نادر کتاب تھی ابن کثیر لکھتے ہیں ‘‘ولا بن ماجہ تفسیر حافل’’ اب یہ کتاب ناپید ہے ا س کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن ماجہ کو تفسیر اور علوم قرآنیہ میں دستگاہ حاصل تھی۔ مگر ان کا خاص میدان علم حدیث تھا اور اسی فن میں انہیں شہر دوام حاصل ہوئی آپ کی سنن کے سامنے بہت سی حدیثی مجموعے پھیکے پڑگئے، سنن ابن ماجہ میں ایک ہزار پانچ سو ابواب ہیں جس میں چار ہزار احادیث ہیں جب امام ابن ماجہ کتاب کی تصنیف میں ایک ہزار پانچ سو ابواب ہیں جس میں چار ہزار احادیث ہیں جب امام ابن ماجہ اس کتاب کی تصنیف سے فارغ ہوئے تو اسے حافظ ابو زرعہ کے سامنے پیش کیا وہ اسے دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھے کہ اگر یہ کتاب لوگوں کے ہاتھ میں پہونچ گئی تو اس دور کی اکثر جوامع مصنفات بے کارو معطل ہوکر رہ جائیں گی۔ ابن ماجہ فرماتے ہیں:
عرضت ھذہ السنن علی ابی زرعۃ فنظر فیہ وقال اظن ان وقع ھذا فی ایدی الناس تعطلت ھذہ الجوامع اواکثرھا۔
(تذکرہ، ج۲، ص۱۸۹)
*حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:* ‘‘کتابہ فی ؛ السنن جامع جید کثیر الابواب والغرائب وفیہ احادیث ضعیفۃ جدا’’ ابن ماجہ کی کتاب سنن میں جامع، عمدہ، کثیر الابواب ولغرائب ہے اور اس میں بہت سی ضعیف حدیثیں ہیں۔
(تہذیب، ج۹، ص۴۶۸)
*ابن کثیر کہتے ہیں:* صاحب کتاب السنن المشہورۃ ‘‘وھی دالۃ علی عملہ و تبحر واطلاعہ واتباعہ للسنۃ فی الاصول والفروع’’ ابن ماجہ مشہور کتاب سنن کے مصنف ہیں اور یہ کتاب ان کے عمل، علم، تبحر اور اطلاع اور اصول و فروغ میں ان کے اتباع سنت کی دلیل ہے۔
(ابن کثیر، ج۱۱، ص۵۲)
سنن ابن ماجہ کی قبولیت کا بنیادی سبب روایات کا حسن انتخاب ہے۔
ابواب کی فقہی رعایت سے اور ترتیب احادیث سے مسائل کو واضح کرتے ہیں استنباط اور تراجم ابواب کی احادیث سے بغیر کسی پیچیدگی کے مطابقت نے بھی سنن ابن ماجہ کے حسن کو نکھارا ہے۔
سنن ابن ماجہ کی بعض اہم خصوصیات حسب ذیل ہیں۔
سنن ابن ماجہ میں بہت سی ایسی حدیثیں ہیں جو دیگر کتب صحاح میں موجود ہیں ہیں۔
حسن ترتیب میں وہ تمام کتب صحاح پر فائز ہے۔
عدم تکرار اور اختصار کے باوصف وہ انتہائی جامع کتا ہے اور دوسری کتابوں کے مقابل زیادہ مسائل و معلومات پر مشتمل ہے بعض مقامات پر حدیث کی فنی حدیثیت پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔
اس کی مرویات مسائل و احکام سے متعلق ہیں فضائل و مناقب سے متعلق احادیث نہیں سنن ابن ماجہ کا شمار صحاح ستہ میں ہیں یا نہیں؟ اس باب میں علماء اسلام کے درمیان اختلاف رہا ہے پانچویں صدی کے اخرت تک صحاح کی بنیادی کتابوں میں صرف پانچ کتابیں، بخاری، مسلم، ترمذی، ابو داؤد، نسائی کا شمار ہوتا تھا۔ شیخ بن صلاح اور علامہ نووی نے بھی انہیں پانچوں کا شمار صحاح میں کیا ہے۔ سب سے پہلے۔ حافظ ابو الفضل محمد بن ماجہ کی شروط سے بھی بحث کی اور ان کی سنن کو بھی بنیادی کتابو کے ساتھ ملا کر صحاح کی اصل چھ کتابیں قرار دیں اسیدور میں حافظ طاہر کے معاصرے محدث رزین بن معاویہ مالکی نے اپنی کتاب التحرید الصحاح والسنن میں کتب خمسہ کے ساتھ سنن ابن ماجہ اور مؤطا امام مالک کو لاحق کردیا اس کے بعد اختلاف رہا کہ صحاح ستہ کی چھٹی کتاب سنن ابن ماجہ ہے یا مؤطا امام مالک۔ اہل مغرب مؤطا کو ترجیح دیتے تھے اور اہل مشرق سنن ابن ماجہ کو لیکن متاخرین نے سنن ابن ماجہ کے حق میں اتفاق کرلیا اور اب علماء ملت کی غالب اکثریت صحاح ستہ کی چھٹی کتاب سنن ابن ماجہ ہی قرار دیتی ہے۔
(تذکرۃ المحدثین سعیدی، ص۳۲۴)
علامہ ابو الحسن سندھی لکھتے ہے اور متاخرین کی غالب اکثریت اس بات پر ہے کہ سنن ابن ماجہ صحاح ستہ کی چھٹی کتاب ہے۔
سنن ابن ماجہ پر دیگر صحاح کی طرح پر دور میں شروح و حواشی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کا کتام ہوتا رہا ہے جو اس کتاب کی مقبولیت و اہمیت اور افادیت کا واضح ثبوت ہے شرح سنن ابن ماجہ حافظ علاء الدین مغلطائی۔ شرح ابن ماجہ حافظ برہان الدین حلبی، الدیباچہ علی سنن ابن ماجہ شیخ کمال بن محمد بن موسیٰ، مصباح الجاجہ حافظ جلال الدین سیوطی۔ شرح سنن ابن ماجہ، حافظ ابو الحسن محمد بن عبدالباری، شرح ابن ماجہ شیخ سراج احمد فاروقی سرہندی بالخصوص قابل ذکر ہیں۔
*اخلاق و کردار:*
امام ابن ماجہ فضل وکمال کی طرح تدین و تقویٰ اور زہد و صلاح کے بھی جامع تھے احکام شریعت کی شدت کے ساتھ پابندی کرتے تھے اور اصول و فروغ میں پورے طور پر متبع سنت تھے اس پر خود ان کی سنن شاہد ہے۔
*وفات:*
ابن ماجہ نے دوشنبہ ٢٧ رمضان المبارک ۲۷۳ھ کو ۶۴ سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا دوسرے دن سہ شنبہ کو تجہیز و تکفین ہوئی آپ کے بھائی ابوبکر نے نماز جنازہ پڑھائی بیٹے عبداللہ اور آپ کے دو بھائیوں نے لحد میں اتارا۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں