حضرت مولانا حکیم سید سخاوت حسین سہسوانی انصاری رحمۃ اللہ علیہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯حضرت مولانا حکیم سید سخاوت حسین سہسوانی انصاری رحمۃ اللہ علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:* 
*اسم گرامی:* مولانا حکیم سید سخاوت حسین انصاری۔
*تاریخی نام:* فضل الرحمن۔
آپ کا تعلق خاندانِ ساداتِ کرام سے ہے۔ خاندان میں عظیم اولیاء اللہ گزرے ہیں۔ حضرت خواجہ سید ابو یوسف مودود چشتی رحمۃ اللّٰه علیہ سلسلہ عالیہ چشتیہ کے ایک نامور شیخ تھے۔
*(تذکرہ علمائے اہل سنت:83)*

*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت 1240ھ مطابق 1825ء کو سہسوان ضلع بدایوں (انڈیا) میں ہوئی۔
*(تذکرہ علمائے اہل سنت:95)*

*تحصیلِ علم:* آپ تمام علوم عقلیہ و نقلیہ کے جامع تھے۔بالخصوص اپنے عصر میں فن صرف و نحو اور مناظرہ کے امام تھے۔ جب کسی وہابی سے مناظرہ ہوتا تو حسنِ تدبیر سے مسائل صرف و نحو میں لاکر زِیر فرما لیا کرتے تھے۔ اسی طرح فن طبابت میں خاص ادراک حاصل تھا۔ آدمی کا چہرہ دیکھ کر صحیح کیفیت منکشف ہوجاتی تھی۔
ایک مرتبہ اپنے مطب میں تشریف فرما تھے کہ سامنے سے ایک شخص سر پر بوری رکھے ہوئے گزرا۔ حاضرین سے فرمایا: دیکھو مردہ جا رہا ہے۔ تھوڑی دور جاکر وہ گرا اور فوت ہوگیا۔
*(مقدمہ بشیرالقاری :14)*

*بیعت و خلافت:* قدوۃ الاولیاء زبدۃ الاصفیاء شیخ الاسلام حضرت خواجہ سید حافظ محمد علی شاہ خیرآبادی رحمہ اللّٰه (مرید وخلیفہ غوث زماں حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمہ اللّٰه) کے دستِ حق پرست پر سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے۔

*سیرت و خصائص:* زبدۃ الکاملین، قدوۃ العارفین، عارف اسرار قاب قوسین، استاذالعلماء، امام العرفاء، جامع شریعت و طریقت، حامیِ سنت، ماحیِ بدعت، قاطعِ وہابیت، حضرت علامہ مولانا حکیم سید سخاوت حسین سہسوانی انصاری رحمۃ اللّٰه علیہ۔
آپ اپنے وقت کے عالم متبحر اور عارف ِ کامل تھے۔ درس و تدریس اور وعظ و نصیحت سے خاص شغف تھا۔ فنِ صرف و نحو کے تو گویا امام تھے۔ باقی تمام علوم پر کامل دسترس حاصل تھی۔ مناظرے میں مد مقابل کو عربی عبارات کی صرفی و نحوی اصطلاحات میں ہی شکست دیدیتے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے وہابی آپ کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے۔

اعلیٰ حضرت مجدد اسلام مولانا امام احمد رضاخان فاضل بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی آپ سے عقیدت:

آپ رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق ان علمائے شریعت سے تھا جن کی زیارت کو حدیث شریف میں عبادت قرار دیا گیا ہے۔ اسی لئے مجدد اسلام امام احمد رضا خاں قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مجلس مبارکہ میں جب آپ کا ذکرِ خیر ہوتا تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ آپ کا نام مبارک سن کر تعظیماً سینے پر ہاتھ رکھ لیا کرتے تھے۔
*(مقدمہ بشیر القاری شرح صحیح البخاری:14)*

*تحریکِ آزادی میں کردار:* مجاہدینِ تحریکِ آزادی میں آپ کا نام سرِ فہرست تھا۔ آپ ہر لحاظ سے مجاہدین کی معاونت کرتے تھے۔ اسی جرم کی پاداش میں 1857ءکے غدر میں آپ کا نام بھی باغیوں کی فہرست میں درج کیا گیا تھا۔ اسی بناء پر آپ کی جائیداد ظبط کی گئی۔گرفتار کرنے کےلیے جب انگریز فوج آئی تو آپ مسجد خطیب واقع محلہ قاضی سہسوان میں تشریف فرما تھے۔ آپ کو دیکھ کر فوج کا انگریز افسر کہنے لگا یہ پادری (مذہبی آدمی) ہے۔ بغیر گرفتار کیے چلے گئے۔ آپ کے بھائی اور دیگر اعزا کو گرفتار کرکے شہید کر دیا گیا۔ (ایضا:14)

*فنا فی الشیخ:* آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ فنا فی الشیخ کے مرتبے پر فائز تھے۔ اپنے پیر و مرشد سے عقیدت کی ایسی مثال کم ہی ملے گی۔ آپ کو حضرت سید محمد علی شاہ خیرآبادی رحمہ اللّٰه سے خلافت حاصل تھی، اور ان کے سجادہ نشین راہنمائے کاملین، سید العارفین حضرت سید محمد اسلم خیرآبادی رحمہ اللّٰه صاحبِ سجادہ اور زینتِ مسند تھے۔ لوگ آپ کے پاس مرید ہونے کےلئے حاضر ہوتے آپ ادباً مرید نہ فرماتے، بلکہ اُنہیں کی جانب رجوع کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ایک بھینس ضرور رکھتے۔ جس کا گھی اپنے مرشد کے عرس کےلئے تھوڑا تھوڑا جمع فرماتے رہتے یہاں تک کہ ایک کنستر مکمل ہو جاتا۔ اس زمانے میں سیتاپور تک ریلوے لائن تھی، اور وہاں سے خیرآباد شریف تک یکوں، وغیرہ سواری سےسفر طے ہوتا تھا یا پیدل۔ مگر آپ سیتاپور سے خیرآباد تک گھی کا کنستر سر پر رکھ کر پا پیادہ حاضر ہوتے، اور جب تک وہاں قیام رہتا ادباً برہنہ سر، اور برہنہ پا رہتےتھے، اور جب کبھی مرشد کے حلاق (حجام) سے خط بنوانےکا اتفاق ہوتا تو ادباً اس کو سرہانے اور خود پائنتی کی جانب بیٹھتے۔(ایضا:15)

عادتِ کریمہ یہ تھی کہ بزرگانِ دین کےآستانوں کی حاضری کےلئے پاپیادہ سفر فرماتے تھے۔ جس زمانے میں دارالخیر اجمیر شریف تک ریلوےلائن نہ تھی، سواری ہونے کے باوجود پیدل سفر فرمایا۔ تلامذہ کی جماعت ہمراہ تھی۔ راستے میں سلسلۂ تدریس بھی جاری تھا۔ ان تلامذہ میں آپ کے حقیقی خالہ زاد بھائی فخرالعلماء، سندالفضلاء واقفِ اسرار حقیقت، دانائے رموز طریقت، حافظ ِ کلام الہی و حافظِ بخاری مولانا سید عبدالصمد پھپھوندی رحمۃ اللّٰه علیہ بھی تھے۔ آپ نے اس سفر کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ جب چلتے چلتے ریاست کشن گڑھ کے علاقے میں پہنچے تو استاذ مکرم کو ٹھوکر لگی جس سے پیر کا انگوٹھا پھٹ گیا، اور آپ عالم کیف و مستی میں آگئے، کافی دیر تک وجد فرماتے رہے، اور زبان پر یہ شعر جاری تھا۔
؏: آرزو یہ ہے کہ تیری راہ میں ٹھوکریں کھاتا ہوا یہ سر چلے۔۔

آپ کے اس عمل یہ ثابت ہوا کہ زخم لگنے سے بھی راحت حاصل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ عالم کیف و مستی میں رقص اسی وقت ہوتا ہے کہ جب فرط، سرو، کثرتِ راحت سے قلب مملو ہوجائے۔(ایضا:)

*واقعۂ وفات:* خیرآباد شریف میں آپ کی وفات اس طرح ہوئی کہ وقتِ قل شریف فرمایا کہ میری چارپائی درگاہ شریف میں لے جاکر مرشد برحق کے مواجہ شریف میں بچھادو، اور بموجبِ ارشاد امیر خسرو رحمہ اللّٰه 
؏: ہرقوم راست ملت ہر ملتے پناہے۔
من قبلہ راست کردم ہرسمت کج کلاہے۔
وہاں پہنچ کر مزار شریف کی رخ کرکے لیٹ گئے۔ ادھر قل شریف ختم ہوا، ادھر داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے واصل بحق ہوگئے، 
اور یہ تمنا پوری ہوگئی۔
بقول۔؏: آرزو یہ ہےکہ نکلے دم تمھارے سامنے۔
تم ہمارے سامنے ہو ہم تمھارے سامنے۔
(ایضا:15)

*تاریخِ وصال:* آپ کا وصال 9/ذی القعدہ 1299ھ مطابق آخر ماہ ستمبر/1882ء کو ہوا۔خیرآباد (انڈیا) میں مزار شریف حضرت خواجہ محمد علی خیرآبادی رحمہ اللّٰه کے برابر باغ میں مدفون ہیں۔

*ماخذ و مراجع:* تذکرہ علمائے اہل سنت۔ مقدمہ بشیر القاری شرح صحیح البخاری۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے