نمازِ تراویح کی حقیقت

🌹تراویح..... حافظ محمد عارف باروی.. کراچی🌹
📚 نمازِ تراویح کی حقیقت📚
 
🖊حافظ محمد عارف باروی قادری
     عفی عنہ
    المتخصص فی الفقہ والافتاء
   دار العلوم نعیمیہ کراچی

🖊قرآن وسنت کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نمازِ تراویح فرض نہیں، بلکہ سنت موٴکّدہ ہے۔ جیسا کہ احناف کے معتبر متن "تنوير الابصار" اور اس کی شرح " الدر المختار" میں ہے:
" (التراويح سنة) موكدة لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعا (ووقتها بعد صلاة العشاء) إلي الفجر (قبل الوتر و بعده) في الأصح........
(وهي عشرون ركعة بعشر تسليمات)" 
یعنی تراویح بالاتفاق مرد وعورت کے لیے سنت مؤکدہ ہے خلفاء راشدین نے ہمیشگی فرمائی، اور اس کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک صحیح ترین قول میں، (آگے متن میں ہی ہے): اور اس کی بیس رکعات ہیں دس سلاموں کے ساتھ۔
"عشرون رکعۃ" تحت علامہ شامی فرماتے ہیں: بیس رکعات کا قول جمہور( علماء ومحدثین و فقہاء) کا ہے اور اس پر مشرق ومغرب کے لوگوں کا عمل ہے اور امام مالک سے چھتیس رکعات تراویح مروی ہیں۔
(رد المحتار علی الدر المختار مع تنویر الابصار ج02 صفحہ493 -494)
🖊سنت کی تعریف:
علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
سنت کا معنی ہے: طریقہ، اور سنت النبی کا معنی ہے: نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کا طریقہ۔
(المفردات صفحہ 245)
علامہ میر سید شریف جرجانی لکھتے ہیں:
سنت کا شرعی معنی ہے:
بغیر فرضیت اور وجوب کے جو طریقہ دین میں رائج کیا گیا ہو، جس کام کو نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے دائما کیا ہو اور کبھی کبھی ترک بھی کیا ہو وہ سنت ہے، اگر یہ دوام بہ طور عبادت ہو تو یہ سنن الھدٰی ہیں اور اگر یہ دوام بہ طور عادت ہو تو یہ سنن الزوائد ہیں، سنت الھدٰی وہ ہے جس کو قائم کرنا دین کی تکمیل کے لیے ہو اور اس کا ترک کرنا کراہت یا اساءت ہے اور سنن الزوائد وہ ہیں جن پر عمل کرنا مستحسن ہے اور ان کا ترک کراہت نہیں ہے اور نہ اساءت ہے جیسے اٹھنے، بیٹھنے،کھانے، پینے اور لباس میں نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی سیرت، سنن ھدٰی کو سنن مؤکدہ کہتے ہیں جیسے اذان و اقامت، سنت مؤکدہ کا مطالبہ واجب کی طرح ہے مگر واجب کے ترک پر سزا کا استحقاق ہے اور اس ( سنت مؤکدہ) کے احیاناً ترک پر عقاب نہیں ہے۔
(کتاب التعریفات صفحہ 54-53)
علامہ ابن نجیم حنفی کہتے ہیں:
بغیر لزوم کے جو طریقہ دین میں رائج کیا گیا ہو وہ سنت ہے اور اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اس کے کرنے میں ثواب ہے اور اس کے احیاناً ترک کرنے پر عتاب و ملامت ہے لیکن سزا نہیں ہے۔
(البحر الرائق ج01 صفحہ 17)
علامہ سید طحطاوی لکھتے ہیں:
شیخ زین نے" شرح المنار" میں لکھا ہے کہ سنت مؤکدہ کے ترک سے گناہ گار ہوگا لیکن یہ گناہ ترکِ واجب کے گناہ سے کم ہوگا۔
(حاشیۃ مراقی الفلاح صفحہ 39)
علامہ شامی نے ابن الحاج کی" شرح التحریر" کے حوالے سے لکھا ہے: جو شخص بلاعذر سنت مؤکدہ کو بہ طور اصرار ترک کرے وہ ملامت کئے جانے اور عذاب کا مستحق ہوگا لیکن سنت مؤکدہ کے ترک کا گناہ ترکِ واجب کے گناہ سے کم ہے۔(اور اگر کبھی کبھی سنت مؤکدہ کو ترک کرے تو وہ صرف ملامت کا مستحق ہے)۔
(رد المحتار ج01 صفحہ 71-452) 
خلاصہ یہ ہے کہ سنت مؤکدہ سے مراد وہ فعل ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بہ طور عبادت کے مواظبت فرمائی ہو نہ کہ بہ طور عادت، لیکن نہ کہ اس طور پر کہ اس کی جانب ترک کو بالکل مسدود قرار دیا ہو یا اس کے ساتھ واجب کا معاملہ کیا ہو۔
یہ تعریف، نمازِ تراویح پر مکمل صادق آ رہی ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے تراویح کو بہ طور عبادت کے کیا ہے لیکن اس کے ساتھ وجوب کا معاملہ نہیں فرمایا کہ آپ نے کہیں وعید بیان فرمائی ہو یا اس کی بھرپور تاکید فرمائی ہو کہ چھوڑنے کی جہت بالکل ختم ہوجائے، لیکن آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس پر مواظبت فرمائی پھر بعد میں آنے والے خلفاء راشدین نے اس پر مواظبت فرمائی، یہ تراویح کے سنت مؤکدہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔
 🖊 البتہ1400 سال سے جاری عمل کے خلاف بعض حضرات 20 رکعت نمازِ تراویح کو بدعت یا خلافِ سنت قرار دینے میں ہر سال رمضانُ المبارک اور رمضانُ المبارک سے قبل اپنی صلاحیتوں کا بیشتر حصہ صرف کرتے ہیں، جس سے امت مسلمہ کے عام طبقہ میں انتشار پیدا ہوتا ہے، حالانکہ اگر کوئی شخص 8 کی جگہ20 رکعت پڑھ رہا ہے تو یہ اس کے لیے بہتر ہی تو ہے، کیونکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ساری امت مسلمہ متفق ہے کہ رمضان کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے، نیز حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت سے امت مسلمہ جماعت کے ساتھ 20 رکعات ہی تراویح پڑھتی آئی ہے، حرمین شریفین(مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں آج تک کبھی بھی 8رکعات تراویح نہیں پڑھی گئی۔
  🖊اس موضوع سے متعلق احادیث کا جتنا بھی ذخیرہ موجود ہے، کسی بھی ایک صحیح ،معتبر ،اور غیرقابل نقد وجرح حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے تراویح کی تعداد رکعات کا واضح ثبوت نہیں ملتا

، اگرچہ بعض احادیث میں جن کی سند میں یقیناً کچھ ضعف موجود ہے 20 رکعات کا ذکرملتاہے۔
     🖊خلیفہٴ ثانی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں بیس رکعات تراویح اورتین رکعات وتر جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام ہوا،جیساکہ محدثین،فقہاء ، موٴرخین اور علماء کرام نے تسلیم کیا ہے۔
🖊 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلفاء راشدین میں سے ہیں، جن کی بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ایک حدیث میں فرمایا:
 "علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین عضوا علیھا بالنواجذ"
تم پر میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت لازم ہے اس کو داڑھوں سے مضبوط پکڑو۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر 4607
جامع الترمذی حدیث نمبر 2676)
🖊اس حدیث کو دیکھ لیجیے "سنۃ الخلفاء الراشدین" کے الفاظ صاف موجود ہیں، بلکہ "راشدین" کے بعد ایک لفظ "مہدیین" کا اضافہ بھی ہے۔ اس میں نہایت واضح الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کے ساتھ خلفائے راشدین کی سنت کا بھی ذکر فرمایا ہے اور اپنی سنت ہی کی طرح اس پر قائم رہنے کی وصیت بھی فرمائی ہے۔
 علامہ ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ڈاڑھوں کا ذکر اس لیے کیا کہ ڈاڑھوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے، لہٰذا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام عینِ سنت ہے۔(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ج02 صفحہ 401)
    🖊ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات 57 یا58 ہجری میں ہوئی اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے 15 ہجری میں تراویح کی جماعت حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں باقاعدہ شروع فرمائی، اگر بیس رکعات تروایح کا عمل بدعت ہوتا تو 42سال کے طویل عرصہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا آٹھ رکعات والی حدیث کو بیس رکعات پڑھنے والوں کے خلاف پیش کرنا ثابت ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔
🖊تراویح کے معنی:
          بخاری شریف کی مشہور ومعروف شرح لکھنے والے حافظ ابن حجر العسقلانی متوفی۔۔۔۔ نے تحریر کیا ہے کہ تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ 
آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا، رمضانُ المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے بعد باجماعت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اتفاق اس امر پر ہوگیا کہ ہر دوسلاموں (یعنی چار رکعت ) کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب صلاۃ التراویح جلد.4 ص. 294)
غیر مقلدوں کے مشہور فتاوی فتاوی علمائے حدیث میں ہے:-
نماز تراویح کی تعریف علماء نی یہ لکھی ہے کہ نماز تراویح وہ نماز ہے جو ماہ رمضان کی راتوں میں عشاء کے بعد باجماعت پڑھی جائے اور اس نماز کا نام نماز تراویح اس لئے کہا گیا کہ لوگ اس میں ہر چار رکعت کے بعد استراحت کرنے لگے کیونکہ تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی ایک بار آرام کرنے کے ہیں اور اس نماز کا وقت عشاء کے بعد ساری رات ہے طلوع فجر تک-
(فتاوی علمائے حدیث جلد.6 ص. 241)
🖊نماز تراویح کی فضیلت:
          حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو ، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔(سنن النسائی کتاب الصیام حدیث نمبر 2208)
 ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لیے نہیں؛ بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عبادت کی جائے۔ 
 🖊 نمازِ تراویح کی رکعات:
           تراویح کی تعدادِرکعات کے سلسلہ میں علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ تراویح پڑھنے کی اگرچہ بہت فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے؛ لیکن فرض نہ ہونے کی وجہ سے تراویح کی تعدادِ رکعات میں یقینا گنجائش ہے، جمہور محدثین اور فقہاء کے ساتھ ائمہ اربعہ( امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل اور امام شافعی) رحمہمُ اللہ تعالیٰ کی تحقیق یہ ہے کہ تراویح 20رکعات پڑھنی چاہئیے۔
 تراویح کی تعدادِرکعات میں علماءکرام کے درمیان اختلاف کی اصل بنیاد یہ ہے کہ تراویح اور تہجد ایک نماز ہے یا دو الگ الگ نمازیں ہیں؟۔
 جمہور محدثین،فقہائے کرام نے اِن دونوں نمازوں کو الگ الگ نماز قرار دیا ہے، اُن کے نقطہٴ نظر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعات سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے۔(صحیح البخاری، باب فضل من قام رمضان، حدیث نمبر 1883)
 جس کے انہوں نے مختلف دلائل دیے ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں:
      🖊 (01) امام بخاری نے اپنی مشہور کتاب (صحیح البخاری) میں نمازِ تہجد کا ذکر (کتاب التہجد) میں، جبکہ نماز تراویح کو(کتاب صلاة التراویح) میں ذکر کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں، جیساکہ جمہور علماء اور ائمہٴ اربعہ رضی

اللہ عنہم اجمعین نے فرمایا ہے، اگر دونوں ایک ہی نماز ہوتیں تو امام بخاری کو دو الگ الگ باب باندھنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوتی؟۔
 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی حدیث "کتاب التہجد" میں 
ذکر فرماکر امام بخاری نے ثابت کردیا کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے۔
    🖊(02) تراویح صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے، اور اِس حدیث میں ایسی نماز کا ذکر ہے جو رمضان کے علاوہ بھی پڑھی جاتی ہے۔
     🖊(03) اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کا تعلق تراویح کی نماز سے ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب باضابطہ جماعت کے ساتھ 20 رکعات تراویح کا اہتمام ہوا تو کسی بھی صحابی نے اِس پر کوئی تنقید کیوں نہیں کی؟ (دنیا کی 
کسی کتاب میں ، کسی زبان میں بھی، کسی ایک صحابی کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں 20 رکعات تراویح کے شروع ہونے پر کوئی اعتراض مذکور نہیں ہے) اگر ایسی واضح حدیث تراویح کی تعداد کے متعلق ہوتی تو حضرت عمر فاروق اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کیسے ہمت ہوتی کہ وہ 8 رکعات تراویح کی جگہ 20 رکعات تراویح شروع کردیتے؟۔
 صحابہ کرام تو ایک ذرا سی چیز میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تعلیمات کی مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے،اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے کا جذبہ یقینا صحابہ کرام میں ہم سے بہت زیادہ تھا، بلکہ ہم (یعنی آج کے مسلمان) صحابہ کرام کے سنتو ں پر عمل کرنے کے جذبہ سے اپنا کوئی موازنہ بھی نہیں کرسکتے۔
  🖊(04) اگر اس حدیث کا تعلق واقعی تراویح کی نماز سے ہے (اور تہجد و تراویح ایک نماز ہے جیسا کہ غامدی صاحب کہتے ہیں) تو رمضانُ المبارک میں نمازِ تراویح پڑھنے کے بعد تہجد کی نماز کیوں پڑھی جاتی ہے؟
   🖊(05) اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جیساکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔ملاحظہ ہو (صحیح المسلم ج01 صفحہ 154، سنن ابو داؤد ج01 صفحہ 196 ، جامع الترمذی ج01 صفحہ 58، سنن النسائی ج01 صفحہ 154، مؤطا امام مالک صفحہ 42 )
    🖊 علامہ شمس الدین کرمانی (شارح بخاری) تحریر فرماتے ہیں: کہ یہ حدیث تہجد کے بارے میں ہے اور حضرت ابوسلمہ کا مذکورہ بالا سوال اور حضرت عائشہ کا جواب تہجد کے متعلق تھا۔(الکوکب الدراری شرح صحیح البخاری ج01 صفحہ 155)
🖊 حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
 کہ یہ حدیث تہجد کی نماز پر محمول ہے جو رمضان اور غیر رمضان میں برابر تھی۔
(مجموعہ فتاوی عزیزی صفحہ 125)
🖊نمازِ تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے زمانے میں:
    حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی لوگوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھردوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ علیہ الصلاۃ والسلام نماز تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا: کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔(صحیح البخاری، کتاب صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان،ج02 صفحہ 708)
اِن دو یا تین رات کی تراویح کی رکعات کے متعلق کوئی تعداد احادیثِ صحیحہ میں مذکور نہیں ہے۔
🖊حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم قیام رمضان کی ترغیب تو دیتے تھے لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے تھے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے کہ جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرما دے گا۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی وفات تک یہی عمل رہا، دورِ صدیقی اور ابتداء عہد فاروقی میں بھی یہی عمل رہا۔(صحیح المسلم ج01 صفحہ 524)
     🖊 صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی حیات میں اورحضرت ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت اور حضرت عمرفاروق کے ابتدائی دورِخلافت میں نمازِ تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، صرف ترغیب دی جاتی تھی، البتہ حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں یقیناً تبدیلی ہوئی ہے، اس تبدیلی کی وضاحت محدثین اور فقہاء کرام کی تحریروں کی روشنی میں آرہی ہے۔
 🖊 حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت "جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعات سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے"میں لفظ ِتراویح کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے،کیونکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔( جیسا کہ گزرا ہے)
 اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان محدثین کے نزدیک یہ حدیث تہجد کی نماز سے متعلق ہے نہ کہ تراویح سے۔
   🖊امام محمد بن نصر مروزی نے اپنے مشہور کتاب"قیام اللیل" میں قیام رمض

ان کا باب باندھ کر بہت سی حدیثیں اور روایتیں نقل فرمائی ہیں، مگر مذکورہ بالا حدیث ِعائشہ نقل نہیں فرمائی، اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث تراویح کے متعلق ہے ہی نہیں۔(قیام اللیل صفحہ 92)
   🖊علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور ومعروف کتاب "زاد المعاد" میں قیام اللیل (تہجد) کے بیان میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے۔( زاد المعاد صفحہ 86)
 علاوہ ازیں اس روایت کے متعلق حافظُ الحدیث امام قرطبی کا یہ قول بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ بہت سے اہل علم حضرات اس روایت کو مضطرب مانتے ہیں۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج07،صفحہ187)
🖊نمازِ تراویح خلفاء راشدین کے زمانے میں:
    🖊حضرت ابو بکر صدیق کے عہد میں کتنی تراویح پڑھی جاتی تھیں، احادیث صحیحہ میں صحابہ کرام کا کوئی واضح عمل مذکور نہیں ہے۔ گویا اس دور کا معمول حسب سابق رہا اور لوگ اپنے طور پر نماز تراویح پڑھتے رہے، غرضیکہ حضرت ابوبکر صدیق کے عہدِ خلافت میں نماز تراویح باقاعدہ جماعت کے ساتھ ایک مرتبہ بھی ادا نہیں ہوئی ۔
    🖊حضرت عمر فاروق نے جب اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو دیکھا کہ تنہا تنہا تراویح کی نماز پڑھ رہے ہیں تو حضرت عمر فاروق نے سب صحابہ کرام کو حضرت ابی بن کعب کی امامت میں جمع کیا، اور عشاء کے فرائض کے بعد وتروں سے پہلے باجماعت20 رکعات نمازِتراویح میں قرآن کریم مکمل کرنے کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا۔
  🖊 حضرت عبد الرحمن قاری فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر فاروق ہمراہ رمضان میں مسجد میں گیا تو دیکھا کہ لوگ مختلف گروپوں میں علیحدہ علیحدہ نماز تراویح پڑھ رہے ہیں، کوئی اکیلا پڑھ رہا ہے اور کسی کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں، اس پر حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ واللہ! میرا خیال ہے کہ اگر ان سب کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کردیا جائے تو بہت اچھا ہے اور سب کو حضرت ابی بن کعب کی اقتداء میں جمع کردیا۔۔۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ پھر جب ہم دوسری رات نکلے اور دیکھا کہ سب لوگ ایک ہی امام کی اقتداء میں نمازِ تراویح ادا کررہے ہیں تو حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ یہ بڑا اچھا طریقہ ہے اور مزید فرمایا کہ ابھی تم رات کے جس آخری حصہ (تہجد) میں سوجاتے ہو ،وہ اس (تراویح) سے بھی بہتر ہے جس کو تم نماز میں کھڑے ہوکر گزارتے ہو۔(مؤطا امام مالک باب ما جاء فی قیام رمضان صفحہ 98)
  🖊حضرت یزید بن رومان فرماتے ہیں کہ لوگ (صحابہ کرام)حضرت عمر فاروق کے دورِ خلافت میں 23 رکعت (20 تراویح اور3وتر) ادا فرماتے تھے۔
(مؤطا امام مالک صفحہ 98)
   🖊 امام بیہقی نے "کتاب المعرفہ" میں نقل کیا ہے کہ حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کے دور حکومت میں ہم 20 رکعات تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔ امام زیلعی نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔(نصب الرایہ ج02 صفحہ 154)
    🖊 حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق نے انہیں حکم دیا کہ رمضان کی راتوں میں نماز پڑھائیں، چنانچہ فرمایا کہ لوگ سارا دن روزہ رکھتے ہیں اور قراء ت اچھی طرح نہیں کرسکتے، اگر آپ رات کو انہیں (نماز میں) قرآن سنائیں تو بہت اچھا ہوگا، پس حضرت ابی بن کعب نے انہیں20 رکعتیں پڑھائیں۔
(مسند احمد بن منیع بحوالہ اتحاف الخیرۃ المہرۃ للبوصیری ج02 صفحہ 424)
   🖊 مؤطا امام مالک میں یزید بن خصیفہ کے طریق سے سائب بن یزید کی روایت ہے کہ عہد فاروقی میں بیس رکعات تراویح تھیں۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری ج04 صفحہ 321، نیل الاوطار للشوکانی ج02 صفحہ 514)
  🖊حضرت محمد بن کعب القرظی (جو جلیل القدر تابعی ہیں) فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر فاروق کے دور میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے۔(قیام اللیل للمروزی صفحہ 157)
🖊حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب کی امامت پر جمع فرمایا، وہ لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھاتے تھے۔
(سنن ابو داؤد باب القنوت والوتر ج01 صفحہ 211)
  🖊حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کے دور میں تین رکعات (وتر) اور بیس رکعات (تراویح) پڑھی جاتی تھیں۔(مصنف عبد الرزاق ج04 صفحہ 201)
  🖊 حضرت سائب بن یزیدفرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں ہم 20 رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے، اور قاری صاحب سو سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان غنی کے دور میں لاٹھیوں کا سہارا لیتے تھے۔(السنن الکبری للبیہقی ج02 صفحہ 496)
🖊 حضرت ابو الحسناء سے روایت ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھائے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج02 صفحہ 285)
   🖊حضرت ابو عبدالرحمن السلمی سے روایت ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ نے رمضان میں قاریوں کو بلایا، پھر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس 
رکعات تراویح پڑھائے اور حضرت علی المرتضیٰ خود انہیں وتر پڑھاتے تھے۔(السنن الکبری للبیہقی ج02 صفحہ 496)
🖊نمازِتراویح سے متعلق صحابہ وتابعین کا عمل:
  🖊حضرت اعمش فرماتے ہیں کہ

حضرت عبد اللہ بن مسعود کا معمول بھی بیس رکعات تروایح اور تین رکعات وتر پڑھنے کا تھا۔
(قیام اللیل للمروزی صفحہ 157)
  🖊حضرت عطا بن ابی رباح (جلیل القدر تابعی ہیں) فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں (صحابہ ) کو بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھتے پایا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج02 صفحہ 285)
   🖊حضرت ابراہیم نخعی (جلیل القدر تابعی، کوفہ کے مشہور ومعروف مفتی) فرماتے ہیں کہ لوگ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعت پڑھتے تھے۔(کتاب الآثار بروایت ابو یوسف، صفحہ 61)
    🖊حضرت شتیر بن شکل (نامور تابعی، حضرت علی المرتضیٰ کے شاگرد) لوگوں کو رمضان میں بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج02 صفحہ 285)
  🖊 حضرت ابو البختری (اہل کوفہ میں اپنا علمی مقام رکھتے تھے، حضرت عبد اللہ بن عباس ،حضرت عمرفاروق، حضرت ابو سعید کے شاگرد) آپ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔(ایضاً)
   🖊حضرت ابن ابی ملیکہ (جلیل القدر تابعی، تقریباً تیس صحابہ کرام کی زیارت سے مشرف ہوئے) آپ کے متعلق حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن ابی ملیکہ ہمیں رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔(ایضاً)
📝نمازِ تراویح سے متعلق اکابرینِ اُمت کے اقوال:
🖊امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ:
علامہ ابن رشد لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے ہاں قیام رمضان بیس رکعت ہے۔
(بدایۃ المجتہد ج01 صفحہ 152)
   🖊 امام فخر الدین قاضی خان لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہر رات بیس یعنی پانچ ترویحہ وتر کے علاوہ پڑھنا سنت ہے (فتاوی قاضی خان ج01 صفحہ 112)  
🖊امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ:
 امام مالک کے مشہور قول کے مطابق تراویح کی 36 رکعات ہیں، جبکہ ان کے ایک قول کے مطابق بیس رکعات سنت ہیں، علامہ ابن رشدقرطبی مالکی فرماتے ہیں کہ امام مالک نے ایک قول میں بیس رکعات تراویح کو پسند فرمایا ہے۔(بدایۃ المجتہد ج01 صفحہ 152)
  🖊مسجد حرام میں تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد ترویحہ کے طور پر مکہ کے لوگ ایک طواف کرلیا کرتے تھے، اور مدینہ منورہ والوں نے ہر ترویحہ پر چار چار رکعت نفل پڑھنی شروع کردیں تو اس طرح امام مالک کی ایک رائے میں 36 رکعت (20 رکعات تراویح اور 16 رکعات نفل) ہوگئیں۔
🖊امام محمد بن ادریس شافعی رحمۃ اللہ علیہ:
امام شافعی فرماتے ہیں کہ مجھے بیس رکعات تراویح پسند ہیں، مکہ مکرمہ میں بیس رکعات ہی پڑھتے ہیں۔(قیام اللیل للمروزی صفحہ 159)
 ایک دوسرے مقام پر امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات نماز تراویح پڑھتے پایا ہے۔ 
(جامع الترمذی ج01 صفحہ 166)
 🖊علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) مسلک وتر کے علاوہ دس سلاموں کے ساتھ بیس رکعات کا ہے، اور بیس رکعات پانچ ترویحہ ہیں اور ایک ترویحہ چار رکعات کا دوسلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل اور امام داوٴد ظاہری کا مسلک ہے اور قاضی عیاض مالکی نے بیس رکعات تراویح کو جمہور علماءکرام سے نقل کیا 
ہے۔(المجموع شرح المہذب للنووی
جلد.3 ص. 527)
🖊امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ: فقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں :
 امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کا پسندیدہ قول بیس رکعات کا ہے اور حضرت سفیان ثوری بھی یہی کہتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عمر فاروق نے صحابہ کرام کو حضرت ابی بن کعب کی اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعات پڑھتے تھے، نیز حضرت امام احمد ابن حنبل کا استدلال حضرت علی المرتضیٰ ودیگر کی روایات سے بھی ہے، ابن قدامہ کہتے ہیں کہ یہ بمنزلہ اجماع کے ہے، نیز فرماتے ہیں کہ جس چیز پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام عمل پیرا رہے ہوں، وہی اتباع کے لائق ہے۔
(المغنی لابن قدامہ ج02 صفحہ 139)
   🖊امام ترمذی فرماتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک وہی ہے جو حضرت علی، حضرت عمر ودیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے کہ تراویح میں بیس رکعات ہیں، حضرت سفیان ثوری، ابن مبارک اور امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے۔
(جامع الترمذی ج01 صفحہ 166)
🖊 امام ترمذی نے اس موقع پر یہ تو تحریر فرمایا ہے کہ بعض حضرات مدینہ منورہ میں 41 رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے، لیکن امام ترمذی نے اہل مکہ یا اہل مدینہ میں سے 8 تراویح پر کسی کا عمل نقل نہیں کیا۔
 🖊 علامہ نووی(شارح صحیح المسلم) فرماتے ہیں کہ قیام رمضان سے مراد تراویح ہے اور تمام علماء متفق ہیں کہ یہ نماز اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، البتہ اس میں کچھ اختلاف ہے کہ گھر میں اکیلا پڑھنا بہتر ہے یا مسجد میں باجماعت؟ تو امام شافعی ، امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن حنبل ، بعض مالکی اور دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ باجماعت پڑھنا بہتر ہے، چونکہ حضرت عمر فاروق اور حضرات صحابہ کرام نے ایسا ہی کیا اور اس پر

مسلسل عمل جاری ہے حتی کہ یہ مسلمانوں کی ظاہری علامات میں سے ایک علامت ہے۔(شرح مسلم للنووی، الترغیب فی قیام رمضان)
  نیز علامہ نووی فرماتے ہیں کہ جان لو کہ نماز تراویح کے سنت ہونے پر تمام علماء کا اجماع ہے اور یہ بیس رکعات ہیں، جن میں ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ (الاذکار للنووی صفحہ 83)
🖊علامہ عینی(شارح صحیح البخاری) تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ،حضرت عثمان ،حضرت علی کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعات پڑھی جاتی تھیں۔
 (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج07 ص178)
    🖊 امام غزالی فرماتے ہیں کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں جن کا طریقہ معروف ومشہور ہے اور یہ سنت مؤکدہ ہے۔ 
(احیاء العلوم ج01 صفحہ 132)
 🖊حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں:
 صحابہ کرام اور تابعین کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعات مقرر ہوئی تھیں۔
 (حجة اللہ البالغہ ج02 ص 67)
 🖊مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خاں بھوپالی نےتحریرکیا ہے کہ حضرت عمرفاروق کے دور میں جو طریقہ بیس رکعات پڑھانے کا ہوا ، اس کو علماء نے اجماع کے مثل شمار کیا ہے۔
 (عون الباری ج04 ص 317)
🖊حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کی حدیث کی مکمل عبارت اور اس کا صحیح مفہوم:
          عَنْ اَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّہ اَخْبَرَہ اَنَّہ سَألَ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَیْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا کَان رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِہ عَلَی اِحْدَی عَشَرَةَ رَکْعَةً یُصَلِّیْ اَرْبَعاً فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ اَرْبَعاً فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ ثَلَاثاً․ قَالَتْ یَارَسُولَ اللّٰہِ اَتَنَامُ قَبْلَ اَنْ تُوتِرَ فَقَالَ: یَا عَائِشَةُ! اِنَّ عَیْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ․․ (بخاری، کتاب التہجد)
          حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کی کیا کیفیت ہوا کرتی تھی؟ تو حضرت عائشہ  نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھاکرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے چار رکعت ادا کرتے تھے اوران کی خوبی اور ان کی لمبائی کے بارے میں مت پوچھو (کہ وہ کتنی خوب اور کتنی لمبی ہوا کرتی تھیں) پھر آپ چار رکعت اسی طرح پڑھا کرتے تھے۔ پھر تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں، میرا دل نہیں سوتا۔
    🖊﴿وضاحت﴾
 یاد رکھیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا اصل تعلق تہجد کی نماز سے ہے اور تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں، یہی جمہور علماء کا مسلک ہے۔
    🖊اس حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خوب لمبے قیام ورکوع وسجدہ والی چار رکعات ادا کرتے تھے پھر خوب لمبے قیام ورکوع وسجدہ والی چار رکعات ادا کرتے تھے، اور پھر تین رکعات وتر پڑھا کرتے تھے۔ حدیث کے الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ سوال اور جواب کا اصل مقصد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت کو بیان کرنا ہے، نہ کہ تعداد رکعت کو۔ بعض حضرات نے تہجد اور تراویح کی نماز کو ایک سمجھ کر حدیث میں وارد گیارہ میں سے آٹھ کے لفظ کو تراویح کے لیے لے لیا، لیکن گیارہ رکعات پڑھنے کی کیفیت اور تین رکعات وتر کو نظرانداز کردیا۔
  🖊 اگر نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح ایک ہی نماز ہے( جیسے غامدی ودیگرکہتے ہیں) اور تراویح کے آٹھ رکعات ہونے کی دلیل یہی حدیث ہے، تو چاہیے کہ اس حدیث کے تمام اجزاء پر عمل کیا جائے اور اس میں بیان کردہ پوری کیفیت کے ساتھ نمازِ تراویح ادا کی جائے یا کم از کم اس کے مسنون ہونے کو بیان کیا جائے، مگر اس حدیث سے صرف آٹھ کا لفظ تو لے لیا، مگر آٹھ رکعات نماز کی کیفیت کو چھوڑ دیا، کیونکہ اس میں لمبی لمبی چار چار رکعات پڑھنے کاذکر ہے اور تین رکعات وتر کا ذکر ہے، نیز وتر کے لیے تین کے لفظ کو چھوڑ کر صرف ایک ہی رکعت وتر کو اپنی سہولت کے لیے اختیار کرلیا۔
 اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعات پڑھنے کے بعد سوجاتے پھر وتر پڑھتے تھے، حالانکہ ماہِ رمضان میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت سے سارے حضرات نماز عشاء کے ساتھ تراویح پڑھنے کے فوراً بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھتے۔ 
بخاری شریف کی اس حدیث کے صرف آٹھ کے لفظ کو لے کر باقی تمام امور کو چھوڑ نا، یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر عمل کرنا نہ ہوا بلکہ اپنے اسلاف کی قرآن وحدیث فہمی پر قناعت کرنا ہے اور یہی تقلید ہے، حالانکہ بخاری میں ہی حض

رت عائشہ صدیقہ کی دوسری حدیث ہے:
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّی بِاللَّیْلِ ثَلَاثَ عَشَرَةَ رَکْعَةً ثُمَّ یُصَلِّیْ اِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصُّبْحِ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ (باب ما یقرأ فی رکعتی الفجر) یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز تیرہ رکعات پڑھتے تھے اور جب فجر کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعات ادا فرماتے (یعنی فجرکی دو سنتیں)۔
غور فرمائیں کہ گیارہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں ہے اور تیرہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں اور دونوں حدیثیں حضرت عائشہ صدیقہ سے ہی مروی ہیں تو 
سمجھ میں نہیں آتا کہ گیارہ رکعات والی حدیث میں سے لفظ آٹھ کو تو لے لیا اور تیرہ رکعات والی حدیث کو بالکل ہی چھوڑدیا،حالانکہ تیرہ رکعات والی حدیث میں ”کَانَ“ کالفظ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں ماضی استمرار کے لیے ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیرہ رکعات پڑھنے کا معمول تھا۔
 نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح کو ایک کہنے والے حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں احادیث میں تطبیق دینے سے قاصر ہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ کی آٹھ رکعات والی حدیث 
میں تو چار چار رکعات پڑھنے کا ذکر ہے،لیکن عمل دو دو رکعات پڑھنے کا ہے تو جواب میں دوسری حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے، جس میں نمازِ تہجد کو دو دو رکعات پڑھنے کا ذکرہے، اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث ہے جو بخاری ہی (کتاب الوتر) میں ہے:
 ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ اَوْتَرَ"۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر نمازِ تہجد پہلے دو رکعات ادا کی، پھر دو رکعات ادا کی،پھر دو رکعات ادا کی،پھر دو رکعات ادا کی،پھر دو رکعات ادا کی،پھر دو رکعات ادا کی،پھر وتر پڑھے۔
 بخاری کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ وتر کے علاوہ دو دو رکعات کرکے تہجّد کی کل بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ آٹھ رکعات تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات کے نزدیک تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو ان احادیث میں تطبیق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
 غرضیکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پہلی حدیث سے آٹھ کا لفظ لیا اور حضرت عبد اللہ بن عباس کی اس حدیث سے دو دو رکعات پڑھنے کو لیا، تو نہ تو حضرت عائشہ کی حدیث پر عمل ہوا اور نہ ہی حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث پرعمل ہوا، بلکہ اپنے اسلاف کی تقلید ہوئی، حالانکہ یہ تینوں احادیث صحیح بخاری کی ہی ہیں۔
 معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح اور نمازِ تہجّد کو ایک قرار دینا ہی غلط ہے، کیونکہ اس کا ثبوت دلائل شرعیہ سے نہیں دیا جاسکتا۔
 چاروں اماموں میں سے کوئی بھی دونوں نمازوں کو ایک قرار دینے کا قائل نہیں ہے۔
🖊امام بخاری کا عمل:
 امام بخاری خود تراویح کے بعد تہجّد بھی پڑھا کرتے تھے، امام بخاری تراویح باجماعت پڑھا کرتے تھے اور ہر رکعت میں بیس آیات پڑھا کرتے تھے اور پورے رمضان میں تراویح میں صرف ایک ختم کرتے تھے، جب کہ تہجّد کی نماز امام بخاری تنہا پڑھا کرتے تھے اور تہجّد میں ہر تین رات میں ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ (امام بخاری کے اس عمل کی تفصیلات پڑھنے کے لیے صحیح بخاری کی سب سے مشہورومعروف شرح "فتح الباری" کے مقدمہ کا مطالعہ فرمائیں)۔
   🖊بس صحیح یہی ہےکہ نمازِتراویح اور نمازِ تہجّد دو الگ الگ نمازیں ہیں، تہجّد کی نماز تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے متعین ہوئی ہے جیسا کہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 79 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے" وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ" ، 
جبکہ تراویح کا عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مشروع ہوا ہے، جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
 "سَنَنْتُ لَہ قِیَامَہٗ"
 "تراویح کا عمل میں نے مسنون قرار دیا ہے"۔
( سنن النسائی وابن ماجہ)
 حضرت عمر فاروق کے عہد میں جماعت کے ساتھ بیس رکعات کا باقاعدہ اہتمام کے ساتھ شروع ہونا، روز روشن کی طرح واضح ہے، جیساکہ محدثین وفقہاء کے اقوال، حوالوں کے ساتھ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس حقیقت کا انکار کرنا صرف اور صرف ہٹ دھرمی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کا تعلق تہجّد کی نماز سے ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کم کبھی زیادہ پڑھا کرتے تھے۔
🖊ایک شبہ کا ازالہ:
          بعض حضرات نے ابن خزیمہ وابن حبان میں وارد حضرت جابر کی روایت سے ثابت کیا ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے رمضان میں آٹھ رکعات تراویح پڑھیں۔
حالانکہ یہ روایت اس قدر ضعیف ومنکر ہے کہ اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ اس میں ایک راوی عیسیٰ بن جاریہ ہے، جس کی بابت محدثین نے تحریر کیا ہے کہ اس کے پاس منکر روایات ہیں، جیساکہ 8 رکعات تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات نے دوسرے مسائل میں اس طرح کے راویوں کی روایات کو تسلیم کرنے سے منع کیا ہے۔
🖊دوسرے شبہ کا ازالہ:

بعض حضرات نے ایک روایت کی بنیا د پر تحریر کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق نے گیارہ رکعات تراویح کا حکم دیاتھا۔
 حالانکہ یہ حدیث تین طرح سے منقول ہے اور حدیث کی سند میں شدید ضعف بھی ہے، نیز حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں بیس رکعات تراویح پڑھی گئیں، یہ بات سورج کی روشنی کی طرح محدثین واکابرِ اُمت نے تسلیم کی ہے۔
 لہٰذا اس حقیقت کا انکار کرنا صرف ہٹ دھرمی ہے۔ امام ترمذی ، علامہ نووی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، علامہ ابن قدامہ ، علامہ ابن تیمیہ اور مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خاں بھوپالی نے بھی وضاحت کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ مشہور غیر مقلد عالم مفتی محمد حسین بٹالوی نے جب پہلی دفعہ 1284ھ میں باضابطہ طور پر فتویٰ جاری کیا کہ آٹھ رکعات تراویح سنت اور بیس رکعات بدعت ہے تو اس انوکھے فتوے کی ہر طرف سے مخالفت کی گئی۔ حتیٰ کہ مشہور غیر مقلد عالم غلام رسول صاحب نے خود اس فتویٰ کی سخت کلمات میں مذمت کی، اور اس کو سینہ زوری قرار دیا۔ 
(رسالہ تراویح ص 28، 56)
🖊تیسرے شبہ کا ازالہ:
   کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال میں اگر کوئی تضاد ہو تو صحابہ کے اقوال کو چھوڑکر نبی اکرم کے قول کو لیا جائے گا۔
 اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ اگر کوئی اِس میں شک بھی کرے ، تو اُسے اپنے ایمان کی تجدید کرنی ہوگی، لیکن یہاں کوئی تضاد نہیں ہے،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے اقوال وافعال میں کہیں بھی تراویح کی کوئی تعداد مذکور نہیں ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں سے صحابہ کرام کو ہم سے زیادہ محبت تھی۔ 
اور دین میں نئی بات پیدا کرنے سے صحابہ کرام ہم سے زیادہ ڈرنے والے تھے۔
🖊اعتراض کا جواب:
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ" احناف کے نزدیک تراویح کی رکعات آٹھ ہیں" تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ احناف کے معتبر متون کے خلاف ہے اور حوالے کے ساتھ احناف کا مذہب گزرا ہے کہ" بیس رکعات ہیں دس سلاموں کے ساتھ"
یہ بات مسلم ہے کہ متون کے خلاف کوئی روایت قابل عمل نہیں ہے، اور اوپر متون کے حوالے سے وضاحت کر دی گئی ہے۔ باقی علامہ شامی علیہ الرحمہ نے فتاوی شامی میں فرمایا ہے کہ میں نے اس عبارت کا جواب دیا ہے۔
( رد المحتار ج02 صفحہ 494)
 لہٰذا یہ پروپیگنڈہ کرنے کی کوشش فضول ہے۔
🖊 ایک نظر ادھر بھی:
سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق قاضی) الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی 1999ء) نے نمازِ تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے "التراویحُ أکْثَرُ مِنْ ألْفِ عَامٍ فِی الْمَسْجِدِ النَّبَوِیِّ" کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا 
سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کہ مسجد نبوی میں نمازِ تراویح ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعات پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجدِ نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے،لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں، تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعات تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے․․․․ اس کتاب میں 1400 سالہ تاریخ پر مدلل ومفصل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم لکھتے ہیں: 
اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قرآء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجدِ نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ 8 رکعات سے زائد تراویح جائز نہیں ہے اور اس نے حضرت عائشہ صدیقہ کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو ؟
ایسا کبھی بھی نہیں ہوا ہے۔
 اللہ تعالیٰ مخالفین کو ہدایت نصیب عطا فرمائے اور امت مسلمہ کو انتشار و افتراق سے بچائے۔ آمین ثم آمین
وَمَا عَلَیَّ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْن
ُ ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب 📝 نوٹ:
یہ مضمون حضرت علامہ مولانا سید عتیق الرحمان شاہ صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ (جج آف بلوچستان کورٹ) کے حکم پر لکھا گیا ہے، دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ کو اور ہم سب کو دین ودنیا کی کامیابیاں عطا فرمائے اور دین متین کی خدمت میں استقامت عطا فرمائے۔
 آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم تسلیما کثیرا وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔
17 رمضانُ المبارک 1439ھ/2 جون 2018ء
طالب دعا:
حافظ محمد عارف باروی قادری 
غفر اللہ لہ ولوالدیہ
 المتخصص فی الفقہ والافتاء 
دار العلوم نعیمیہ کراچی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے