-----------------------------------------------------------
*🕯حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:
’’حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بیٹے سے کہا میں نے بڑے پتھر، لوہا اور ہر وزنی چیز اٹھائی ہے لیکن میں نے برے پڑوسی سے بھاری چیز کوئی نہیں اٹھائی۔ میں نے ہر کڑواہٹ دیکھی ہے مگر فقر سے زیادہ کڑوی چیز نہیں دیکھی۔
اے میرے بیٹے جاہل کو قاصد بنا کر نہ بھیج، اگر تو کسی صاحب ِ حکمت کو نہ پائے تو اپنا قاصد خود بن جا۔
اے میرے بیٹے جنازوں میں حاضر ہوا کر اور شادیوں میں نہ جایا کر کیونکہ جنازے تجھے آخرت کی یاد دلاتے ہیں اور شادی تجھے دنیا کی خواہش دلاتی ہے۔
اے میرے بیٹے سیر پر سیر ہو کر نہ کھا اگر تو اس کھانے کو کتے کے سامنے پھینک دے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تو خود اسے کھائے۔
اے میرے بیٹے اتنا میٹھا بھی نہ بن کہ تجھے نگل لیا جائے اور نہ اتنا کڑوا ہوجا کہ تجھے باہر پھینک دیا جائے۔
*( شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، آثار وحکایات فی فضل الصدق۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۳۱، روایت نمبر: ۴۸۹۱)*
*اولاد کی تربیت میں قابلِ لحاظ اُمور:*
حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی جو نصیحتیں ذکر ہوئیں، ان سے معلوم ہوا کہ اولاد کی تربیت کرنے کے معاملے میں والدین کو درج ذیل 4 اُمور کا بطورِ خاص لحاظ کرنا چاہئے۔
*(1)* ان کے عقائدکی اصلاح پر توجہ دینی چاہئے۔
*(2)* ان کے ظاہری اعمال درست کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔
*(3)* ان کے باطن کی اصلاح اور درستی کی جانب توجہ کرنی چاہئے۔
*(4)* ان کی اخلاقیات بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
یہ چاروں چیزیں دنیا اور آخرت کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں، جیسے عقائد کی درستی دنیا میں بلاؤں اور مصیبتوں سے نجات کا سبب ہے اور عقائد کا بگاڑ آفتوں، مصیبتوں اور بلاؤں کے نازل ہونے کا ذریعہ ہے اور عقائد کی درستی آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہونے جنت میں داخلہ نصیب ہونے کا مضبوط ذریعہ ہے اور جس کے عقائد درست نہ ہوئے اور گمراہی کی حالت میں مر گیا تو وہ جہنم میں جانے کا مستحق ہوگیا اور جو کفر کی حالت میں مر گیا وہ تو ضرور ہمیشہ کے لئے جہنم کی سزا پائے گا۔ اسی طرح ظاہری اور باطنی اعمال صحیح ہوں گے تو دنیا میں نیک نامی اور عزت و شہرت کا ذریعہ ہیں اور آخرت میں جنت میں جانے کا وسیلہ ہیں اور اگر درست نہ ہوں گے تو دنیا میں ذلت و رسوائی کا سامان ہیں اور آخرت میں جہنم میں جانے کا ذریعہ ہیں۔
یونہی اخلاق اچھے ہوں گے تو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور لوگ اس کی عزت کریں گے جبکہ برے اخلاق ہونے کی صورت میں معاشرے میں اس کا جو وقار گرے گا اور بے عزتی ہوگی وہ تو اپنی جگہ الٹا والدین کی بدنامی اور رسوائی کا سبب ہوگا اور اچھے اخلاق آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہیں جبکہ برے اخلاق اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور لوگوں کی طرف سے اپنے حقوق کے مطالبات کا سامان ہیں۔
افسوس! ہمارے معاشرے میں والدین اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں یہ تو دیکھتے ہیں کہ ان کا بچہ دُنْیَوی تعلیم اور دنیا داری میں کتنا اچھا اور چالاک، ہوشیار ہے لیکن اس طرف توجہ بہت ہی کم کرتے ہیں کہ اس کے عقائد و نظرِیّات کیا ہیں اور اس کے ظاہری اور باطنی اعمال کس رخ کی طرف جا رہے ہیں۔
والدین کی یہ انتہائی دلی خواہش تو ہوتی ہے کہ ان کا بچہ دنیا کی زندگی میں کامیاب انسان بنے، اس کے پاس عہدے اور منصب ہوں۔ عزت، دولت اور شہرت اس کے گھر کی کنیز بنے۔ لیکن یہ تمنا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کہ ان کی اولاد دینی اعتبار سے بھی کامیابی کی راہ پر چلے، مسلمان ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے اپنے دین و مذہب اور اس کی تعلیمات سے اچھی طرح آشنا ہو، اس کے عقائد اور اعمال درست ہوں اور اس کا طرزِ زندگی اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔
والدین کی یہ آرزو تو ہوتی ہے کہ ان کی اولاد دنیا میں خوب ترقی کرے تاکہ اولاد کے ساتھ ساتھ ان کی دنیا بھی سَنْوَر جائے اور انہیں بھی عیش و آرام نصیب ہو لیکن اس طرف توجہ نہیں کرتے کہ ان کی اولاد قبر کی زندگی میں ان کے چین کا باعث بنے اور آخرت میں ان کے لئے شفاعت و مغفرت کا ذریعہ بنے۔ جو لوگ صرف اپنی دنیا سنوارنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد صرف دنیا کی زیب و زینت اور اس کی آسائشوں کا حصول ہے، ان کے لئے درج ذیل آیات میں بڑی عبرت اور نصیحت موجود ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ" (ہود: ۱۵، ۱۶)
*ترجمہ:* جو دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتا ہو تو ہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اور انہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال باطل ہیں۔
*اور ارشاد فرماتا ہے:*
’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا (۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘
(بنی اسرائیل:۱۸، ۱۹)
*ترجمہ:* جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم، مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اور اس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اولاد کی ایسی تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ان کے لئے دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کا ذریعہ بنے اور والدین کے دُنْیَوی سکون اور اُخروی نجات کاسامان ہو۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰه علیہ وسلم
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں