*📚 « امجــــدی مضــــامین » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯رسول ﷺ کی فرماں برداری میں نماز قضاء کرنا گناہ نہیں🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
غزوہِ بنو قریظہ کے مختصر احوال احادیث نبوی کی روشنی میں۔۔۔۔۔
*(1)* حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :
جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنگ ِخندق سے واپس لوٹے تو آپ نے ہتھیار اتار دئیے اور غسل فرما لیا۔ فوراً حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور ان کا سر گرد و غبار سے اٹا ہوا تھا، انہوں نے عرض کی:
آپ نے ہتھیار اتار دئیے حالانکہ میں نے ابھی نہیں اتارے۔
رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’اب کدھر کا ارادہ ہے؟ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: ادھر کا، اور بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں: رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فوراً ہی بنو قریظہ کی طرف تشریف لے گئے۔
*( بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب الغسل بعد الحرب والغبار، ۲ / ۲۵۸، الحدیث: ۲۸۱۳)*
*(2)* حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں:
نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جنگ ِاَحزاب کے دن ارشاد فرمایا:
’’کوئی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں جا کر۔ چنانچہ بعض حضرات کو راستے میں عصر کا وقت ہوگیا مگر وہ کہنے لگے کہ ہم منزلِ مقصود پر پہنچ کر ہی نماز پڑھیں گے اور بعض حضرات نے راستے میں ہی نماز پڑھ لی اور فرمایا کہ ہمیں نماز پڑھنے سے تو منع نہیں فرمایا گیا۔ جب نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے اس صورت ِحال کا ذکر کیا گیا تو آپ نے کسی فریق پر بھی ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا۔
*( بخاری، کتاب المغازی، باب مرجع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الاحزاب۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۶، الحدیث: ۴۱۱۹)*
*(3)* اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :
جب ہم غزوہِ احزاب سے واپس لوٹے تو رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں یہ ندا فرمائی: بنو قریظہ میں پہنچنے سے پہلے کوئی شخص ظہر کی نماز نہ پڑھے۔ بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے وقت ختم ہونے کے خوف سے بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے نماز پڑھ لی اور دوسرے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے کہا: ہم اسی جگہ نماز پڑھیں گے جہاں نماز پڑھنے کا حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں حکم دیا ہے اگرچہ نماز قضا ہو جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فریقَین میں کسی کو ملامت نہیں کی۔
*( مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب المبادرۃ بالغزو۔۔۔ الخ، ص۹۷۴، الحدیث: ۶۹(۱۷۷۰)*
مذکورہ بالا دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح ہے کہ یہ واقعہ ظہر کی نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد پیش آیا تھا، بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے مدینہ منورہ میں ظہر کی نماز پڑھ لی تھی اور بعض نے ظہر کی نماز نہیں پڑھی تھی، تو جنہوں نے ظہر کی نماز نہیں پڑھی تھی ان سے آپ نے فرمایا: تم بنو قریظہ میں جا کر ظہر کی نما زپڑھنا اور جنہوں نے ظہر کی نماز پڑھ لی تھی، ان سے آپ نے فرمایا: تم بنو قریظہ میں پہنچ کر عصر کی نماز پڑھنا۔
*( شرح نووی علی المسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب المبادرۃ بالغزو۔۔۔ الخ،۶ / ۹۸، الجزء الثانی عشر)*
*(4)* حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں:
بنو قریظہ حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو مُنصف بنائے جانے پر قلعے سے نیچے اتر آئے کیونکہ فریقین نے حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو منصف تسلیم کر لیا تھا۔حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ان کا یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جو مرد لڑنے کے قابل ہیں انہیں قتل کر دیا جائے، ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنا لیا جائے اور ان کے مال کو مسلمانوں پر تقسیم کر دیا جائے۔
*( بخاری، کتاب المغازی، باب مرجع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الاحزاب۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۶، الحدیث: ۴۱۲۲)*
حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے فیصلہ فرمانے کے بعد مدینہ منورہ کے بازار میں خندق کھودی گئی اور وہاں لاکر اُن سب یہودیوں کی گردنیں ماری گئیں۔ ان لوگوں میں قبیلہ بنو نَضِیر کا سردار حُیَیْ بن اخطب اور بنو قریظہ کا سردار کعب بن اسد بھی تھا اور یہ لوگ چھ سو یا سات سو جو ان تھے جو گردنیں کاٹ کر خندق میں ڈال دیئے گئے۔
*( جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۲۶، ۶ / ۱۶۴-۱۶۵، ملخصاً)*
*مجتہدین میں اختلاف ہونے کے باوجود وہ گناہگار نہیں :*
مذکورہ بالا حدیث پاک نمبر 2 اور 3 میں نماز کے مسئلے پر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں ہونے والے جس اختلاف کا ذکر ہوا اس کی وجہ شارحین نے یہ بیان کی ہے کہ بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اس ممانعت کو حقیقت پر محمول کیا اور اسے اس ممانعت پر ترجیح دی جس میں نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنے سے منع کیا گیا تھااسی لئے انہوں نے وقت نکل جانے کی پرواہ نہ کی اور بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے اس ممانعت کو حقیقت پر محمول نہیں کیا بلکہ مقصود پر نظر کی کہ اس کا مقصد بنو قریظہ میں جلد پہنچنا ہے اس لئے انہوں نے راستے میں نماز ادا کر لی۔ اس سے جمہور علماءِ کرام نے یہ اِستدلال کیا ہے کہ مُجتہد گناہگار نہیں ہوگا اور اگر کسی ایک مسئلے میں دو مجتہدین کا اختلاف ہو تو دونوں میں سے کسی کو بھی ملامت نہیں کی جائے گی (کیونکہ یہاں گناہ کا پہلو نہیں اور) اگر گناہ کا پہلو ہوتا تو پھر گناہ کی وجہ سے ضرور ملامت کی جاتی۔
*( فتح الباری،کتاب المغازی، باب مرجع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الاحزاب۔۔۔الخ، ۸ / ۳۴۹، تحت الحدیث: ۴۱۱۹)*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں