-----------------------------------------------------------
*🕯زنا کی مذمت🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 زنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ قرآنِ مجید میں اس کی بہت شدید مذمت کی گئی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا‘‘
*(بنی اسراءیل:۳۲)*
ترجمہ: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُرا راستہ ہے۔
*اور ارشاد فرمایا:*
’’وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ(۶۸) یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًا‘‘ (فرقان:۶۸ ،۶۹)
ترجمہ: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام فرمایا ہے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے گاوہ سزا پائے گا۔ اس کے لئے قیامت کے دن عذاب بڑھا دیا جائے گا اور ہمیشہ اس میں ذلت سے رہے گا۔
نیز کثیر اَحادیث میں بھی زنا کی بڑی سخت مذمت و برائی بیان کی گئی ہے، یہاں ان میں کچھ اَحادیث ملاحظہ ہوں۔
*(1)* حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’جب بندہ زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے اور جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔
*(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء لا یزنی الزانی وہو مؤمن، ۴ / ۲۸۳، الحدیث: ۲۶۳۴)*
*(2)* حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا، وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا، وہ رعب میں گرفتار ہوگی۔
*(مشکوۃ المصابیح، کتاب الحدود، الفصل الثالث، ۲ / ۶۵۶، الحدیث: ۳۵۸۲)*
*(3)* حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا:
’’جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو حلال کر لیا۔
*(مستدرک، کتاب البیوع، اذا ظہر الزنا والربا فی قریۃ فقد احلّوا بانفسہم عذاب اللّٰہ، ۲ / ۳۳۹، الحدیث: ۲۳۰۸)*
*(4)* حضرت عثمان بن ابو العاص رَضِی اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’ آدھی رات کے وقت آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ،پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے،ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کی جائے۔ اس وقت پیسے لے کر زنا کروانے والی عورت اور ظالمانہ ٹیکس لینے والے شخص کے علاوہ ہر دعا کرنے والے مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔
*(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ ابراہیم، ۲ / ۱۳۳، الحدیث: ۲۷۶۹)*
*(5)* حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو شخص اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر ِرحمت نہ فرمائے گا اور نہ ہی اسے پاک کرے گا اور اس سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں داخل ہو جاؤ۔ *(مسند الفردوس، باب الزای، ۲ / ۳۰۱، الحدیث: ۳۳۷۱)*
*غیر مُحْصَنْ زانی کی سزا:*
حد ایک قسم کی سزا ہے جس کی مقدار شریعت کی جانب سے مقرر ہے کہ اُس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی اور اس سے مقصود لوگوں کو اس کام سے باز رکھنا ہے جس کی یہ سزا ہے۔ *(درمختار مع ردالمحتار، کتاب الحدود، ۶ / ۵)*
زنا کی حد آزاد غیر مُحْصَنْ کی ہے کیونکہ آزاد مُحْصَنْ کا حکم یہ ہے کہ اسے رَجم کیا جائے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ حضرت ماعِز رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے رجم کیا گیا۔ *(بخاری ، کتاب المحاربین من اہل الکفر والردۃ ، باب ہل یقول الامام للمقرّ : لعلّک لمست او غمزت ، ۴ / ۳۴۲ ، الحدیث: ۶۸۲۴)*
مُحْصَنْ وہ آزاد مسلمان ہے جو مُکَلّف ہو اور نکاحِ صحیح کے ساتھ خواہ ایک ہی مرتبہ اپنی بیوی سے صحبت کرچکا ہو۔ ایسے شخص سے زنا ثابت ہو تو اسے رجم کیا جائے گا اور اگر ان میں سے ایک بات بھی نہ ہو مثلاً آزاد نہ ہو یا مسلمان نہ ہو یا عاقل بالغ نہ ہو یا اس نے کبھی اپنی بیوی کے ساتھ صحبت نہ کی ہو یا جس کے ساتھ صحبت کی ہو اس کے ساتھ نکاح فاسد ہوا ہو تو یہ سب غیر مُحْصَنْ میں داخل ہیں اور زنا کرنے کی صورت میں ان سب کا حکم یہ ہے کہ انہیں سو کوڑے مارے جائیں۔
*زنا کی حد سے متعلق 3 شرعی مسائل:*
(1) زنا کا ثبوت یا تو چار مَردوں کی گواہیوں سے ہوتا ہے یا زنا کرنے والے کے چار مرتبہ اقرار کرلینے سے۔ پھر بھی حاکم یا قاضی بار بار سوال کرے گا اور دریافت کرے گا کہ زنا سے کیا مراد ہے؟ کہاں کیا؟ کس سے کیا؟ کب کیا؟ اگر ان سب کو بیان کردیا تو زنا ثابت ہوگا ورنہ نہیں اور گواہوں کو صَراحتاً اپنا معائنہ بیان کرنا ہوگا، اس کے بغیر ثبوت نہ ہوگا۔
(2) مرد کو کوڑے لگانے کے وقت کھڑا کیا جائے اور تہبند کے سوا اس کے تمام کپڑے اتار دیئے جائیں اور مُتَوَسَّط درجے کے کوڑے سے اس کے سر، چہرے اور شرم گاہ کے علاوہ تمام بدن پر کوڑے لگائے جائیں اور کوڑے اس طرح لگائے جائیں کہ اَلَم یعنی درد گوشت تک نہ پہنچے۔ عورت کو کوڑے لگانے کے وقت نہ اسے کھڑا کیا جائے، نہ اس کے کپڑے اتارے جائیں البتہ اگر پوستین یا روئی دار کپڑے پہنے ہوئے ہو تو وہ اتار دیئے جائیں۔ یہ حکم آزاد مرد اور عورت کا ہے جبکہ باندی غلام کی حد اس سے نصف یعنی پچاس کوڑے ہیں۔
(3) لِواطَت زنا میں داخل نہیں لہٰذا اس فعل سے حد واجب نہیں ہوتی لیکن تعزیر واجب ہوتی ہے اور اس تعزیر میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے چند قول مروی ہیں۔ (1) آگ میں جلا دینا۔
(2) غرق کر دینا۔
(3) بلندی سے گرانا اور اوپر سے پتھر برسانا۔
فاعل و مفعول یعنی لواطت کا فعل کرنے اور کروانے والے دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ *(تفسیرات احمدیہ، النور، تحت الآیۃ: ۲، ص۵۴۲-۵۴۳)*
نوٹ: زنا کی حد سے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے بہارِ شریعت جلد 2 حصہ 9 سے ’’حدود کا بیان‘‘ مطالعہ فرمائیں۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں