حضرت سیدنا امام محمد باقر رضی اللّٰه عنہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯حضرت سیدنا امام محمد باقر رضی اللّٰه عنہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:*
*اسمِ گرامی:* سید امام محمد۔
(آپ کا نام جد امجد سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے نامِ نامی اسمِ گرامی پر رکھا گیا)
*کنیت:* ابوجعفر۔
*لقب:* باقر، شاکر، ہادی۔
*سلسلہ نسب اسطرح ہے:* حضرت امام محمد باقر بن علی زین العابدین بن سیدنا امام حسین بن علی المرتضی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی سیدہ فاطمہ بنت سیدنا امام حسن تھا۔ یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہیں کہ آپ کا سلسلہ نسب دونوں طرف سے سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تک پہنچتا ہے۔
(رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)

*باقر کی وجہ تسمیہ:* باقر، بقرہ سے مشتق ہے اور اسی کا اسم فاعل بھی ہے۔ اس کے معنی شق کرنے اور وسعت دینے کے ہیں (المنجد)۔ 
حضرت امام محمد باقر کو اس لقب سے اس لیے ملقب کیا گیا تھا کہ آپ نے علوم و معارف کو نمایاں فرمایا اور حقائق احکام و حکمت و لطائف کے وہ سربستہ خزانے ظاہر فرما دئیے جو لوگوں پر ظاہر و ہویدا نہ تھے۔
*(صواعق محرقہ، شواہدالنبوت)*

*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت بروز جمعہ 3/ صفرالمظفر 57ھ، بمطابق 15/دسمبر676ء کو اپنے دادا سیدنا امام حسین رضی ﷲ عنہ کی شہادت سے تین سال پہلے مدینہ منورہ میں ہوئی۔

*تحصیلِ علم:* اپنے والدِ گرامی اور فقہاء مدینۃ المنورہ سے علم حاصل کیا۔ طبقات الحفاظ میں ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد، اور جد امجد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ایک طائفہ صحابہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، اور اِن سے اِن کے صاحبزادے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ و عطاء رضی اللہ عنہ و ابن جریج رضی اللہ عنہ و امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ و اوزاعی رضی اللہ عنہ و زُہری رضی اللہ عنہ وغیرہ نے حدیث کو لیا ہے، اور ابن شہاب زہری رضی اللہ عنہ جنہوں نے سب سے پہلے حدیث کی تدوین کی ہے اِن کو حدیث میں ثقہ لکھا ہے، اور امام نسائی رضی اللہ عنہ نے اہلِ مدینہ کے فقہائے تابعین میں اِن کا ذکر کیا ہے۔ علم احادیث، علم سنن اور تفسیر قرآن و علم السیرت و دیگر علوم و فنون کے ذخیرے جس قدر امام محمد باقر رضی اللہ عنہ سے ظاہر ہوئے اتنے حسنین کریمین کی اولاد میں سے کسی سے ظاہر نہیں ہوئے۔

*بیعت و خلافت:* آپ اپنے والدِ گرامی کےجانشین ہوئے، اور آئمہ اہل بیت میں سے پانچویں امام ہیں۔

*سیرت و خصائص:* کاشفِ اسرار، مطلعِ انوار، آثارِ سید المرسلین ﷺ وارثِ حسن و حسین حضرت سیدنا امام محمد باقر رضی اللہ عنہ۔ 
یہ مسلمہ حقیقت ہے اور اس کی شہرت عامہ ہے کہ آپ علم و زہد اور شرف و فضیلت میں بے مثال شخصیت کے مالک تھے۔ آپ علم القرآن، علم الآثار، علم السنن اور ہر قسم کے علوم ، حکم، آداب وغیرہ کے جامع تھے۔بڑے بڑے تابعین، اور عظیم القدر فقہاء آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے۔ 
*عطاء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:* کہ میں نے علمائے کرام کو از روئے علم کے کسی کے پاس اس قدر اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتے ہوئے نہیں دیکھا جیسا کہ اِن کے رو برو دیکھا۔

*علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں:* کہ حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے علمی فیوض و برکات اور کمالات و احسانات سے اس شخص کے علاوہ جس کی بصیرت زائل ہوگئی ہو، جس کا دماغ خراب ہو گیا ہو اور جس کی طینت و طبیعت فاسد ہوگئی ہو، کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا، اسی وجہ سے آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ "باقرالعلوم" علم کے پھیلانے والے اور جامع العلوم ہیں۔ آپ کا دل صاف، علم و عمل روشن و تابندہ، اور خلقت شریف تھی۔ آپ کے کل اوقات اطاعت خداوندی میں بسر ہوتے تھے۔ عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثار راسخ اور گہرے نشانات نمایاں ہو گئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اور عاجز و ماندہ ہیں۔ آپ کے ہدایات و کلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کا احصاء اس کتاب میں ناممکن ہے۔
*(صواعق محرقہ ص ۱۲۰)*

*علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں:* کہ امام محمد باقر علامہ زمان اور سردار کبیر الشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحر اور وسیع الاطلاق تھے۔ 
*(وفیات الاعیان)*

*علامہ ذہبی لکھتے ہیں:* کہ آپ بنی ہاشم کے سردار اور متبحر علمی کی وجہ سے باقر مشہور تھے۔ آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اور آپ نے اس کے وقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔
*(تذکرةالحفاظ جلد ۱ ص ۱۱۱)*

آپ اپنے آباؤ اجداد کی طرح بے پناہ عبادت کرتے تھے۔ ساری رات نماز پڑھنا، اور سارا دن روزہ سے گزارنا آپ کی عادت تھی۔ آپ کی زندگی زاہدانہ تھی۔ آپ بڑے عابد، زاہد، خاشعِ، خاضع، پاک طینت اور بزرگ نفس تھے، تمام اوقات کو عبادت و طاعتِ الٰہی سے معمور رکھتے، آدھی رات کو رویا کرتے، اور بارگاہِ الٰہی میں نہایت عاجزی سے مناجات کیا کرتے تھے۔ ہدایا جو آتے تھے اسے فقراء و مساکین پر تقسیم کر دیتے تھے غریبوں پر بے حد شفقت فرماتے تھے تواضع اور فروتنی ،صبر و شکر غلام نوازی صلہ رحمی وغیرہ میں اپنی نظیر آپ تھے۔ آپ فقیروں کی بڑی عزت کرتے تھے اور انہیں اچھے نام سے یاد کرتے تھے۔
*(کشف الغمہ )*

*سیدالمرسلین ﷺ کا سلام بھیجنا:*
حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک دن میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو سلام کیا۔ اس وقت وہ نابینا ہو چکے تھے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں۔ میں نےکہا محمد بن علی بن حسین ہوں۔ یہ سنتے ہی فرمایا: اے میرے بیٹے آگے آؤ! جب میں آگے ہوا تو آپ نے میرے ہاتھ پر بوسہ دیا، اس کے بعد میرے پاؤں پر بوسہ دینا چاہا کہ میں دور ہوگیا۔ آپ نے کہا: "رسول اللہ ﷺ نے آپ کو سلام بھیجا ہے"۔
میں نے جواب دیا: اللہ کے حبیب ﷺ پر بھی صلوۃ وسلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ 
میں نے پوچھا کہ حضرت یہ واقعہ کس طرح ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: کہ ایک دن رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا تھا کہ اے جابر! شاید تم میرے ایک فرزند کے آنے تک زندہ رہوگے۔ اور اس سے ملاقات کروگے۔ اس کا نام محمد بن علی بن حسین ہوگا۔ خدا تعالیٰ ان کو نور و حکمت عطا کرے گا میرا اس کو سلام پہنچادینا۔ 
*(بارہ امام :مولانا جامی)*

*وصال:* آپ کا وصال 7/ ذوالحجہ بروز پیر 114ھ، بمطابق جنوری/733ء کو 57 سال کی عمر میں ہوا۔ 
بعض کے نزدیک آپ کا وصال 8 ذی الحجہ بروز پیر 112ھ کو ہوا۔ 
آپ کی قبرِ انور امام حسن مجتبیٰ اور حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہما کے ساتھ (جنت البقیع، مدینۃ المنورہ) میں ہے۔

*ماخذ و مراجع:* خزینۃ الاصفیا۔ الصواعق المحرقہ۔ اقتباس الانوار۔ بارہ امام۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے