معاشرے سے ظلم کا خاتمہ کرنے میں دینِ اسلام کا کردار

معاشرے سے ظلم کا خاتمہ کرنے میں دینِ اسلام کا کردار🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📬 ظلم ایک ایسا بدترین فعل ہے جس سے انسان اپنے بنیادی حق سے محروم ہو کر اَذِیَّت اور کَرب کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ وہ عمل ہے جس سے جھگڑے اور فسادات جنم لیتے، لوگ بغاوت اور سرکشی پر اتر آتے اور اصول و قوانین ماننے سے انکار کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انسانی حقوق تَلف ہوتے اور معاشرے کا امن و سکون تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔
دینِ اسلام چونکہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ اور معاشرتی امن کو برقرار رکھنے کا سب سے زیادہ حامی ہے اسی لئے اس دین نے انسانی حقوق تَلف کرنے اور معاشرتی امن میں بگاڑ پیدا کرنے والے ہر فعل سے روکا ہے اور ان چیزوں میں ظلم کا کردار دوسرے افعال کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اس لئے اسلام نے ظلم کے خاتمے کیلئے بھی انتہائی احسن اِقدامات کئے ہیں تاکہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور وہ امن و سکون کی زندگی بسر کریں۔
ان میں سے ایک اِقدام لوگوں کو یہ حکم دینا ہے کہ وہ ظالم کو روکیں اور دوسرا اِقدام ظالم کو وعیدیں سنانا ہے تاکہ وہ خود اپنے ظلم سے باز آجائے۔ 

جیسا کہ درج ذیل تین اَحادیث سے واضح ہے ،چنانچہ
*(1)* حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: 
’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ کسی نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر وہ مظلوم ہو تو مدد کروں گا لیکن ظالم ہو تو کیسے مدد کروں ؟ 
ارشاد فرمایا ’’اس کو ظلم کرنے سے روک دے یہی (اس کی) مدد کرنا ہے۔
*( بخاری، کتاب الاکراہ، باب یمین الرجل لصاحبہ... الخ، ۴ / ۳۸۹، الحدیث: ۶۹۵۲)*

*(2)* حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’مظلوم کی بددعا سے بچو، وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حق والے کا حق اس سے نہیں روکتا۔
*(شعب الایمان،التاسع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فی ذکر ماورد من التشدید... الخ، ۶ / ۴۹، الحدیث: ۷۴۶۴)*

*(3)* حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’جس کا اپنے مسلمان بھائی پر اس کی آبرو یا کسی اور چیز کا کوئی ظلم ہو تو وہ آج ہی اس سے معافی لے لے، اس سے پہلے کہ (وہ دن آجائے جب) اس کے پاس نہ دینار ہو نہ درہم، (اس دن) اگر اس ظالم کے پاس نیک عمل ہوں گے تو ظلم کے مطابق اس سے چھین لیے جائیں گے اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس مظلوم کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے۔
*(بخاری ، کتاب المظالم و الغصب ، باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل... الخ، ۲ / ۱۲۸، الحدیث: ۲۴۴۹، مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب الظّلم، الفصل الاول، ۲ / ۲۳۵، الحدیث: ۵۱۲۶)*

معلوم ہوا کہ معاشرتی امن کو قائم کرنے اور اس کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ’’ظلم‘‘ کو ختم کرنے میں اسلام کا کردار سب سے زیادہ ہے اور اس کی کوششیں دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کارگَر ہیں۔ کیونکہ جب لوگ ظالم کو ظلم کرنے سے روک دیں گے تو وہ ظلم نہ کر سکے گا اور ظالم جب اتنی ہَولْناک وعیدیں سنے گا تو اس کے دل میں خوف پیدا ہوگا اور یہی خوف ظلم سے باز آنے میں اس کی مدد کرے گا، یوں معاشرے سے ظلم کا جڑ سے خاتمہ ہو گا اور معاشرہ امن و سکون کا پُرلُطف باغ بن جائے گا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دینِ اسلام کے احکامات اور تعلیمات کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے