عاشقِ اہلِ بیتِ اطہار امام احمد رضاعلیہ الرحمہ ‏

مولانا کاشف وحیدی مصباحی کی وال سے :

"عاشقِ اہلِ بیتِ اطہار امام احمد رضاعلیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ تعزیہ داری کا کیا حکم ہے؟ 
ارشاد فرمایا:
’’تعزیہ کی اصل اس قدر تھی کہ روضۂ پر نور شہزادۂ گلگوں قبا حسین شہید ظلم وجفا صلوٰت اﷲ تعالیٰ و سلامہ علی جدہ الکریم و علیہ کی صحیح نقل بنا کر بہ نیت تبرک ’’مکان‘‘میں رکھنا اس میں شرعاً کوئی حرج نہ تھا۔ کہ تصویرِ مکانات وغیرہا غیر جان دار کی بنانا، رکھنا، سب جائز ہے اور ایسی چیزیں کہ معظمان دین کی طرف منسوب ہو کر عظمت پیدا کریں ان کی تمثال بہ نیت تبرک پاس رکھنا قطعاً جائز جیسے صدہا سال سے طبقۃً فطبقۃً ائمۂ دین و علماے متقدمین نعلین حضور سیدالکونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے نقشے بناتے اور ان کے فوائد جلیلہ و منافع جزیلہ میں مستقل رسالے تصنیف فرماتے ہیں.. جسے اشباہ ہو وہ امام علامہ تلمسانی کی فتح المتال وغیرہ مطالعہ کرسکتے ہیں۔

مگر جہال بے خرد نے اس اصل جائز کو بالکل نیست و نابود کرکے صد ہا خرافات وہ تراشیں کہ شریعت مطہرہ سے الاماں الاماں کی صدائیں آئیں، اول تو نفس تعزیہ میں روضہ مبارک کی نقل ملحوظ نہ رہی، ہر جگہ نئی تراش نئی گھڑت جسے اس نقل سے کچھ علاقہ نہ نسبت، پھر کسی میں پریاں، کسی میں براق، کسی میں بے ہودہ طمطراق، پھر کوچہ بہ کوچہ و دشت بہ دشت، اشاعت غم کے لیے ان کا گشت، اور ان کے گرد سینہ زنی، اور ماتم سازشی کی سور افگنی کوئی ان تصویروں کو جھک جھک کر سلام کر رہا ہے، کوئی مشغول طواف، کوئی سجدہ میں گرا ہے،کوئی ان مایہ بدعات کو معاذاﷲ معاذاﷲ جلوہ گاہِ امام علیٰ جدہ و علیہ الصلوٰۃ والسلام سمجھ کر اس ابرک پٹّی سے مرادیں مانگتا، منتیں مانتا ہے، حاجت روا جانتا ہے ، پھر باقی تماشے، باجے، تاشے مردوں عورتوں کا راتوں کا میل، اور طرح طرح کے بے ہودہ کھیل ان سب پر طرہ ہیں۔ 
غرض عشرۂ محرم الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت و محل عبادت ٹھہرا ہوا تھا، ان بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کردیا پھر وبال ابتداع کا جوش ہوا کہ خیرات کو بھی بہ طورِ خیرات نہ رکھا، ریا، و تفاخر علانیہ ہوتا ہے پھر وہ بھی یہ نہیں کہ سیدھی طرح محتاجوں کو دیں بلکہ چھتوں پر بیٹھ کر پھینکیں گے روٹیاں زمین پر گر رہی ہیں رزقِ الٰہی کی بے ادبی ہوتی ہے پیسے ریتے میں گر کر غائب ہوتے ہیں، مال کی اضاعت ہو رہی ہے۔ مگر نام تو ہو گیا کہ فلاں صاحب لنگر لُٹا رہے ہیں،
اب بہارِ عشرہ کے پھول کھلے، تاشے باجے بجتے چلے، طرح طرح کے کھیلوں کی دھوم، بازاری عورتوں کا ہر طرف ہجوم، شہوانی میلوں کی پوری رسوم، جشن یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا یہ ساختہ تصویریں بعینہاحضرات شہدارضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کے جنازے ہیں، کچھ نوچ اتار باقی توڑ تاڑ دفن کر دیے۔ 
یہ ہر سال اضاعتِ مال کے جرم و وبال جدا گانہ رہے۔ ﷲ تعالیٰ صدقہ حضرات شہداے کربلا علیہم الرضوان والثناء کا ہمارے بھائیوں کو نیکیوں کی توفیق بخشے اور بُری باتوں سے توبہ عطا فرمائے، آمین۔ 
اب کہ تعزیہ داری اس طریقۂ نا مرضیہ کا نام ہے قطعاً بدعت و ناجائز و حرام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اگر اہلِ اسلام جائز طور پر حضرات شہداے کرام علیہم الرضوان کی ارواح کو ایصال ثواب کی سعادت پر اقتصار کرتے ہیں تو کس قدر خوب و محبوب تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر نظر شوق و محبت میں نقل روضہ انور کی حاجت تھی تو اسی قدر جائز قناعت کرتے کہ صحیح نقل بغرض تبرک و زیارت اپنے مکانوں میں رکھتے اور اشاعت غم و تصنع الم و نوحہ زنی و ماتم کنی و دیگر امور شنیعہ و بدعات قطعیہ سے بچتے ۔۔۔۔۔اس قدر میں بھی حرج نہ تھا مگر اب اس میں نقل بھی اہلِ بدعت سے ایک مشابہت اور تعزیہ داری کی تہمت کا خدشہ اور آئندہ اپنی اولاد یا اہلِ اعتقاد کے لیے ابتلاے بدعات کا اندیشہ ہے۔۔۔۔۔ اور حدیث پاک میں
اتقوا مواضع التھم
(تہمت کے مواقع سے بچو۔) 
اور وارد ہوا۔
من کان مؤمن باللّٰہِ والیوم الآخر فلایقفن موافق التھم۔
(جو شخص اﷲ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ ہر گز تہمت کے مواقع میں ٹھہرے۔

لہٰذا روضۂ اقدس حضور سیدالشہدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ایسی تصویر بھی نہ بنائے بلکہ صرف کاغذ کے صحیح نقشے پر قناعت کرے اور اسے بقصد تبرک بے آمیزش منہیات اپنے پاس رکھے جس طرح حرمین محترمین سے کعبہ معظمہ اور روضۂ عالیہ کے نقشے آتے ہیں یا دلائل الخیرات شریف میں قبور پر نور کے نقشے لکھے ہیں۔
(فتاویٰ رضویہ: امام احمدرضاقادری،ج:24،ص511-514، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

بعض افراد اس فتوے کے کچھ حصے سے استدلال کرکے امام اہلِ سنّت کی طرف تعزیہ داری کی حمایت کا بہتان لگاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جو جھوٹ اور بے بنیاد ہے۔ انہیں چاہیے کہ امام احمد رضا کے پورے فتوے کا بہ غور مطالعہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر فیصلہ کریں کہ امام احمد رضا نے تعزیہ بناکر نمائش میں لگانے کا حکم دیا ہے یا طغرے (کی بات لکھی ہے) جیسے خانۂ کعبہ، مدینۂ منورہ، بغدادِ معلی، اجمیر مقدس، کلیر شریف و کچھوچھہ شریف کے فریم بناکر بہ طورِ برکت و تبرک گھروں میں رکھے جاتے ہیں."

- مولانا Kashif Wahidi Misbahi

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے