Header Ads

بِر یعنی نیکی کرنا، حُسنِ سلوک کرنا کیا ہے؟

*📚 « امجــــدی مضــــامین » 📚*
-----------------------------------------------------------
 *🕯بِر یعنی نیکی کرنا، حُسنِ سلوک کرنا کیا ہے؟🕯* 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کفار کے ساتھ بِر و صِلہ کی تین صورتیں بیان فرمائی ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے ساتھ بر و صلہ کی تین صورتیں ہیں:

*(1) اعلیٰ صورت:* اپنی کسی صحیح غرض کے بغیر بالقصد محض کافر کو نفع دینا اور بھلائی پہنچانا مقصود ہو۔یہ صورت مُستامِن یعنی امان لے کر اسلامی سلطنت میں آنے والے کافر اور مُعاہِد یعنی اس کافر سے بھی حرام ہے جس کے ساتھ معاہدہ ہے کیونکہ امان اور معاہدہ ضَرَر کو روکنے کے لئے ہیں نہ کہ اللّٰہ تعالیٰ کے دشمنوں کو جان بوجھ کر نفع پہنچانے کے لئے۔

*(2) درمیانی صورت:* اپنی ذاتی مصلحت جیسے کافر نے کچھ دیا تو اس کے بدلے میں اسے دینا یا رشتہ داری کا لحاظ کرتے ہوئے کچھ مالی سلوک کرنا۔ یہ اس کافر کے ساتھ جائز ہے جس سے مسلمانوں کا معاہدہ ہے اور جس سے معاہدہ نہیں اس سے ممنوع ہے۔

*(3) ادنیٰ صورت:* اسلام اور مسلمانوں کی مَصلحت کے لئے جنگی چال کے طور پر کچھ دیا جائے۔ یہ حربی کافر یعنی جس سے معاہدہ نہیں اس کے ساتھ بھی جائز ہے۔

آیت ِکریمہ ’’لَا یَنْهٰىكُمْ‘‘ میں ’’بِر‘‘ یعنی احسان کی درمیانی صورت مراد ہے کیونکہ اعلیٰ اس کافر سے بھی حرام ہے جس سے معاہدہ ہے اور ادنیٰ اس کافر کے ساتھ بھی جائز ہے جس سے معاہدہ نہیں۔
*( فتاوی رضویہ، رسالہ: المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ، ۱۴ / ۴۶۵،۴۶۸، ۴۶۹، ملخصاً)* 

 *اقساط کا مفہوم:* 
اِقساط یعنی انصاف کرنے کے مفسرین نے تین معانی بیان کئے ہیں :
ایک معنی یہ ہے کہ ان پر ظلم نہ کرو۔ اس معنی کے اعتبار سے یہ حکم حربی و معاہد ہر طرح کے کافر کیلئے عام ہے کہ حربی پر بھی ظلم کرنے کی اجازت نہیں اور اِس معنی کے اعتبار سے یہ حکم رخصت نہیں بلکہ واجب ہے۔ 
دوسرا معنی یہ ہے کہ کافروں سے کیا ہوا معاہدہ پورا کرو اور اس صورت میں بھی یہ حکم واجب ہے نہ کہ صرف رخصت، البتہ معاہدے کی مدت پوری کرنا واجب نہیں، کوئی مصلحت ہو تو مدت سے پہلے بتا کر معاہدہ توڑ دینا جائز ہے۔
تیسرا معنی یہ کہ اِقساط سے مراد اپنے مال سے کچھ حصہ دیدینا ہے اور یہ وہی بریعنی نیکی کرنا ہی ہے، گویا اِس صورت میں برو اِقساط ایک ہی چیز ہوگئے۔
اس پر اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہاں یہاں بر (نیکی کرنے) اور اِقساط (انصاف کرنے) دونوں لفظوں میں یوں فرق ہوسکتا ہے کہ اِقساط کا مطلب ہے کہ جتنا کافر نے دیا اتنا ہی دیا جائے جیسے کافر نے ہزار روپے کی چیز دی تو جواب میں ہزار روپے کی چیز ہی دیدی جائے تو یہ اقساط یعنی برابری کرنا ہوگیا جبکہ اگر وہ کچھ نہ دے اور مسلمان اپنی رشتے داری یا کسی مصلحت کی وجہ سے اسے ہزار روپے کی چیز دیدے یا کافر نے ہزار روپے کی چیز دی لیکن مسلمان ہزار سے زائد کی شے دیدے تو یہ بِر یعنی احسان کرنا، نیکی کرنا، سلوک کرنا کہلائے گا۔ 
*( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ، ۱۴ / ۴۷۱، ملخصاً)*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے