Header Ads

عالمی مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمۃ

عالمی مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمۃ
"آپ کے داعیانہ نقوش سے یورپ و افریقہ سمیت کثیر علاقے اسلامی کرنوں سے منوّر ہوئے" 
[یومِ وصال۲۲؍ذی الحجہ پر عقیدت کی نذریں]

غلام مصطفیٰ رضوی*

  عالمی مبلغِ اسلام خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمۃ نے دینِ متین کی اشاعت کے لیے ایسے دور میں جب کہ اس قدر وسائل و ذرائع آمد و رفت موجود نہیں تھے؛ دُنیا کے بیشتر خطوں میں نہایت کامیابی کے ساتھ اشاعتِ اسلام اور تبلیغِ دین کا فریضہ انجام دیا۔ مثالی داعی کا کردار ادا کیا۔ آپ کے داعیانہ نقوش رہبر و رہنما ہیں۔آپ نے مغربی مفکر برنارڈشا سے ’’اسلام و عیسائیت‘‘ کے عنوان پر مکالمہ کیا۔ برنارڈشا جو پہلے سے اسلام کے بارے میں منفی فکر و ذہنیت رکھتا تھا، آپ کے نہایت مدلل، معقول، ٹھوس جوابات سے ایسا مطمئن ہوا کہ وہ اسلام کی عظمتوں کا قائل ہو گیا۔ اِسی موقع پر برنارڈشا نے کہا تھا:

  ’’تعلیم یافتہ، مہذب اور شائستہ لوگوں کا مستقبل کا مذہب’اسلام‘ ہے ۔‘‘

  کینیا(جنوبی افریقہ ) کے شہر ممباسا میں ۱۷؍اپریل ۱۹۳۵ء میں یہ مکالمہ ہوا، جس میں جارج برنارڈشا نے اسلام سے متعلق اپنے شبہات پیش کیے، مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی نے ان کا ازالہ استدلال سے کیا۔ دی انٹرنیشنل اسلامک مشنریز گلڈز نے اس مکالمہ کی انگریزی میں اشاعت کی، بہ عنوان:
 A Shavian and a Theologian
 سیدطارق علی نے اردو ترجمہ کیا،اس کی اشاعت ماہ نامہ ترجمانِ اہلِ سنّت کراچی نے مارچ ۱۹۷۲ء میں کی،نوری مشن سے اِس ترجمہ کی اشاعت کچھ برسوں قبل ہوئی تھی۔

*مبلغ اسلام کے مختصر حالات:*
  مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی کی ولادت ۳؍اپریل ۱۸۹۲ء میں میرٹھ میں ہوئی۔ ابتدائی علوم کی تکمیل کے بعد جدید و قدیم علوم میں مہارت حاصل کی، امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقادری محدث بریلوی (١٨٥٦ء-۱۹۲۱ء) کی شاگردی اختیار کی اور خلافت و اجازت سے سرفراز ہوئے۔آپ ہی کی تربیت کا اثر تھا کہ دعوتِ دین کا وہ جذبۂ صادق پیدا ہوا؛ جس نے مبلغ اسلام کو تاعمر سرگرمِ تبلیغ رکھا۔آپ نے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں مختلف جہتوں سے مثالی کام کیا۔ ۱۹۱۹ء تا ۱۹۵۴ء یورپ، افریقہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور جنوبی ایشیا کے بہت سے ملکوں میں تبلیغ کی۔ مساجد، مدارس، اسلامک سنٹرز، لائبریریز، ہاسپٹل، یتیم خانے قائم کیے۔نومسلموں کی تربیت کے انتظامات کیے۔ عربی، اردو، انگریزی میں درجنوں کتابیں لکھیں۔ دہریت، سرمایہ داریت، لادینیت کے خلاف عالمی مہم چلائی، متعدد رسائل جاری کروائے۔ آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جن میں دُنیا کی نامی گرامی شخصیات بھی شامل ہیں۔

  ۱۹۲۳ء میں سیلون کے عیسائی وزیر مسٹر ایف کنگن بری نے اسلام قبول کیا، ۱۹۳۶ء کے بعد کے عرصے میں مشہور امریکی سائنس داں جارج انٹن بیوف نیز واشنگٹن میں ۳۶؍انگریز پروفیسرز نے اسلام قبول کیا،آپ کی کاوش سے بورنیو کی شہزادی پرنسس گلڈزپلیمر، ماریشس کے گورنر مروات، ٹرینی ڈاڈ (لاطینی امریکہ) کی خاتون وزیر مریف ڈونوا فاطمہ ،ڈاکٹر احمد فلپائن جیسی نامور شخصیات حلقہ بگوش اسلام ہوئیں۔

  آپ نے عیسائی مشنریز کے زیر اثر مرتد ہو جانے والے افراد، نیز قادیانیوں کو بھی دعوتِ اسلام دی جس کے نتیجے میں ۱۸؍ہزار سے زیادہ افراد نے اسلام قبول کیا۔ آپ نے قادیانی اور دیگر فرق ہائے باطلہ کے رد میں کئی کتابیں تصنیف کیں۔ گستاخِ رسول گروہ کا مدلل احتساب فرمایا۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ کی غرض سے انگریزی میں کئی کتابیں لکھیں۔ آپ کی درجنوں کتابیں اصلاحی، اعتقادی عناوین نیز فتنوں کی بیخ کنی پر مبنی ہیں۔ آپ فکر رضا کے داعی اور مسلکِ سلفِ صالحین کے ترجمان تھے- اعلیٰ حضرت کے مسلک حق کی اشاعت تاعمر کی-

  ۲۲؍ذی الحجہ ۱۳۷۲ھ/۲۲؍اگست ۱۹۵۴ء کو آپ کا وصال ہوا، جنت البقیع مدینہ منورہ میں دفن ہوئے، اور آپ کی یہ خواہش پوری ہوئی؎

علیمؔ خستہ جاں، تنگ آگیا ہے دردِ ہجراں سے
الٰہی کب وہ دن آئے کہ مہمانِ محمد ﷺ ہو

  آرزوئے دلی پوری ہوئی۔ ارضِ طیبہ اور فضائے طیبہ میں مدفن ملا۔ سبحان اللہ؎

مر کے جیتے ہیں جو ان کے در پہ جاتے ہیں حسنؔ
جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چھوڑ کر
***
*نوری مشن مالیگاؤں
١٣ اگست ٢٠٢٠ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے