نسب کے ذریعے فخر و تکبر کرنے کی مذمت

🕯نسب کے ذریعے فخر و تکبر کرنے کی مذمت🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📬 فخر و تکبُّر کے اَسباب میں سے ایک اہم سبب اپنے نسب کے ذریعے دوسروں پر تکبر کرنا ہے، اس کے بارے میں امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
جس آدمی کا نسب اچھا ہو وہ دوسرے نسب والوں کو حقیر جانتا ہے اور بعض لوگ حسب و نسب کے ذریعے اس طرح تکبر کرتے ہیں کہ گویا دوسرے لوگ ان کی مِلکِیَّت میں اور ان کے غلام ہیں، وہ اِن سے میل جول کرنے اور ان کے پاس بیٹھنے سے نفرت کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ ان کی زبان پر یوں آتا ہے کہ تکبر کرتے ہوئے دوسروں کو گھٹیا قسم کے الفاظ سے پکارتے ہوئے کہتے ہیں: تم کون ہو؟ تمہارا باپ کون ہے؟ میں فلاں کا بیٹا فلاں ہوں، تمہیں مجھ سے بات کرنے یا میری طرف دیکھنے کا کیا حق ہے؟ تو مجھ جیسے لوگوں سے بات کرتا ہے اور مجھ سے اس قسم کی گفتگو کرتا ہے؟ (وغیرہ) یہ ایک ایسی پوشیدہ رگ ہے کہ کوئی بھی نسب والا اس سے خالی نہیں ہوتا اگرچہ وہ نیک اور باعمل ہو، لیکن بعض اوقات حالت اِعتدال پر ہونے کی صورت میں یہ بات ظاہر نہیں ہوتی اور جب اس پر غصے کا غلبہ ہو تو وہ اس کے نورِ بصیرت کو بجھا دیتا ہے اور اس قسم کی گفتگو اس کی زبان پر آجاتی ہے۔
حضرت ابو ذر غفاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی موجودگی میں ایک شخص سے میری تکرار ہوگئی تو میں نے کہا:
اے کالی عورت کے بیٹے !تو نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’اے ابوذر! صاع پورا نہیں بھرا جاتا، سفید عورت کے بیٹے کو سیاہ عورت کے بیٹے پر کوئی فضیلت نہیں۔ 
حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: 
میں لیٹ گیا اور اس شخص سے کہا: اٹھو اور میرے رخسار کو پامال کردو۔ 
تو دیکھئے کس طرح نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں تنبیہ فرمائی جب انہوں نے سفید خاتون کا بیٹا ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو افضل سمجھا اور یہ بات خطا اور نادانی ہے، اور دیکھئے کہ انہوں نے کس طرح توبہ کی اور اپنے آپ سے تکبر کے درخت کو اس شخص کے تلوے کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جس کے مقابلے میں تکبر کیا گیا تھا کیونکہ آپ کو معلوم ہوگیا تھا کہ تکبر کو صرف عاجزی کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔

اسی سلسلے میں مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی موجودگی میں دو آدمیوں نے ایک دوسرے پر فخر کا اظہار کیا، ایک نے کہا:
میں فلاں کا بیٹا فلاں ہوں تم کون ہو؟ تمہاری تو ماں ہی نہیں۔ اس پر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے دو آدمیوں نے ایک دوسرے پر فخر کیا، ان میں سے ایک نے کہا: میں فلاں کا بیٹا فلاں ہوں، اس طرح وہ نو پُشتیں شمار کرگیا اور کہا: تیری تو ماں ہی نہیں ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف وحی بھیجی کہ جس نے فخر کا اظہار کیا ہے اس سے فرما دیجئے: 
وہ نو کی نوپشتیں جہنم میں جائیں گی اور تم ان کے ساتھ دسویں ہوگے۔
*( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث عبد الرّحمٰن بن ابی لیلی... الخ، ۸ / ۳۴، الحدیث: ۲۱۲۳۶)
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
لوگوں کو اپنے آباؤ و اَجداد پر فخر کرنا چھوڑ دینا چاہیے وہ جہنم میں کوئلہ بن گئے یا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کیڑوں سے بھی زیادہ ذلیل ہیں جو اپنے ناک سے گندگی کو دھکیلتے ہیں۔
*(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی التّفاخر بالاحساب، ۴ / ۴۲۷، الحدیث: ۵۱۱۶، باختلاف بعض الالفاظ)۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الکبر والعجب، بیان ما بہ التکبّر، ۳ / ۴۳۱-۴۳۲)*

 اللہ تعالیٰ ہمیں اس باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے
 آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے