ابوالقاسم حضرت شاہ اسماعیل حسن مارہروی رحمۃ اللہ علیہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯ابوالقاسم حضرت شاہ اسماعیل حسن مارہروی رحمۃ اللہ علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:*
*اسمِ گرامی:* حضرت شاہ اسماعیل حسن۔
*کنیت:* ابوالقاسم۔ 
*لقب:* مارہرہ مطہرہ کی نسبت سے "مارہروی" کہلاتے ہیں۔
سید ابوالقاسم، اور شاہ جی کے نام سے شہرت حاصل تھی۔
*سلسلہ نسب اسطرح ہے:* حضرت ابوالقاسم مولانا سید شاہ اسماعیل حسن مارہروی بن حضرت سید محمد صادق بن حضرت سیداولاد رسول بن حضرت شاہ سید آل برکات ستھرے میاں بن حضرت سید شاہ حمزہ بن سید شاہ آل محمد بن سید شاہ برکت اللہ بن سید شاہ اویس بن سید شاہ عبدالجلیل بن سندالمحققین سید شاہ عبدالواحد بلگرامی۔ الیٰ آخرہ۔ (علیہم الرحمۃ والرضوان) 
آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے سیدالشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے توسط سے حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم تک پہنچتا ہے۔

*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت 3/محرم الحرام 1272ھ، مطابق ماہِ ستمبر/1855ء کو "مارہرہ مطہرہ" (اترپردیش، ہند ) میں ہوئی۔

*تحصیلِ علم:* آپ نے حفظِ قرآن مجید اپنے شوق سے کیا۔آپ کے حفظ کے اساتذہ میں حافظ ولی داد خان مارہروی، حافظ قادر علی لکھنوی، حافظ عبدالکریم ملکپوری ہیں۔ مولانا شاہ عبدالشکور مہامی، مولانا محمد حسن سنبھلی، مولانا فضل اللہ فرنگی محلی، اور مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی علیہم الرحمہ سے درسیات کی تکمیل کی۔ ان کے علاوہ تصوف و اخلاق کی تعلیم اپنے والدِ ماجد کے علاوہ حضرت شاہ آلِ رسول، حضرت شاہ ابوالحسین نوری میاں، حضرت تاج الفحول بدایونی علیہم الرحمہ سے حاصل کی۔

*بیعت و خلافت:* اپنے نانا حضرت شاہ غلام محی الدین قدس سرہ سے مرید ہوئے، اور خلافت کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ ان کے علاوہ والدِ ماجد قدس سرہ، حضرت شاہ نوری میاں، حضرت شاہ ظہور حسین، اور حضرت تاج الفحول مولانا شاہ عبد القادر بد ایونی علیہم الرحمہ سے بھی اوراد و وظائف کی اجازت عطا ہوئی تھی۔

*سیرت و خصائص:* زبدۃ الکاملین، عمدۃ العارفین، شیخ الکاملین عارف باللہ، فنا فی الرسول حضرت مولانا سید ابوالقاسم شاہ اسماعیل حسن مارہروی میاں رحمۃ اللہ علیہ۔ 
آپ خاندانِ برکات کے ایسے نورانی چراغ ہیں، جس کے انوار سے ایک عالم منور ہوا۔ جس وقت حضرت سیدنا شاہ ابو القاسم شاہ جی میاں مسند سجادگی پر رونق افروز ہوئے اس وقت آپ کو تیرہ سلاسل کی اجازت حاصل تھی لیکن سلسلہ قادریہ سے آپ کو خاندانی روایت کے مطابق بڑا گہرا لگاؤ تھا، اس لئے آپ نے اسی سلسلے کو فروغ بخشا، اسی کے فیوض و برکات سے مریدین و متوسلین کو مالا مال کیا اور رات دن اسی سلسلے کی اشاعت کی جدو جہد فرائی۔بےشمار علما و مشائخ کو اسی سلسلے میں مرید کیا اور خلافت کی دولت سے بے بہا سرفراز فرمایا۔ چونکہ آپ کے قول و فعل اور کردار و عمل میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار برکتیں ودیعت فرمائی تھیں۔ اس لیے خلقت آپ کی طرف و الہانہ طور پر متوجہ ہوتی تھی۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ آپ کی نظر کرم پڑتے ہی نہ جانے کتنے لوگوں کی دنیا بدل گئی، نہ جانے کتنے ویران دل آباد ہوگئے اور نہ جانے کتنے کفر و شرک سے آلود دلوں میں ایمان کا اجالا پھیل گیا۔ کتنے گمراہوں کو آپ کی ذات سے راہ ہدایت نصیب ہوئی۔
الغرض آپ کی ذات بڑی با فیض تھی لیکن سب سے بڑی خوبی آپ میں یہ تھی "کہ آپ احیائے سنیت اور تصلب فی الدین کے معاملے میں آپ اپنے اسلاف کےسچے جانشین تھے۔ تذکرہ علمائے اہل سنت میں ہے: "(آپ)تصلب فی الدین میں بزرگان مارہرہ کے قدم بہ قدم تھے"۔(تذکرہ علمائے اہلسنت:29)
مشائخ مارہرہ کا تصلب فی الدین کس طرح تھا، اس کی تائید درج ذیل عبارت سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
حضور تاج العلما فرماتے ہیں:
"ہمارے اسلاف کرام اور ان کے اخلاف سب بحمدہ تعالیٰ ہمیشہ سے دین اسلام و مذہب مہذب اہل سنت و جماعت سے آراستہ و پیراستہ چلے آتے تھے اور خوب اپنے اس دین متین اور مذہب مہذب میں تعصب و تصلب کو مقبول و محمود جانتے اور مانتے اور بتاتے رہتے تھے"۔

تصلب فی الدین جو اس خانقاہ کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ ان حضرات نے بلاخوف لومۃ لائم ہر دور میں احقاق حق اور ابطال باطل کا اہم فریضہ انجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خانقاہ ہر دور میں مسلمانان ِاہل سنت کےلیے مرکز توجہ رہی یہ مشائخ خود بھی متصلب فی الدین تھے اور اپنے متعلقین و متوسلین کو بھی اسی پر عمل پیرارہنے کی ان لفظوں میں تلقین فرماتے:
"مذہب اہل سنت و جماعت پر ایسے جمے ہوئے رہیں کہ دوسرے متعصب جانیں اور شریعت مطہرہ کو اپنا دستور العمل بنائیں، مذہب اہل سنت کے پھیلانے اور بدعت کو مٹانے اور بددینوں بے دینوں کے رد کو اپنا مقصود ٹھہرائیں، خصوصاً وہابیہ، دیوبندیہ، نجدیہ کا رد سب شریروں سے زائد گندے اور اسلام کو نقصان پہنچانے اور جڑ کو کھودنے میں بدترین کفار ہیں۔ اہل سنت کے جتنے مخالف مثلاً وہابی راضی، ندوی، نیچری چکڑالوی، غیر مقلد، قادیانی اور گاندھوی وغیرہ ہیں، ان سب کو اپنا دشمن جانیں ان کی بات نہ سنیں، ان کے پاس نہ بیٹھیں، ان کی کوئی تحریر نہ دیکھیں، دین و ایمان سب سے زیادہ عزیز چیز ہیں، ان کی محافظت میں حد سے زیادہ کوشش فرض ہے"۔

حضرت شاہ جی میاں اصولوں کے بہت پکے تھے۔ غلط باتوں پر ہر ایک کی سرزنش کرتے، اس میں دوست دشمن، اپنا بیگانہ کی کوئی تمیز روانہ تھی۔ آپ صرف گوشہ نشین صوفی نہ تھے، بلکہ ملکی وبین الاقوامی حالات ومعاملات پر خوب نظر تھی۔ تحریکِ خلافت، تحریکِ پاکستان، تحریک ترکِ مولات، وغیرہ کے بارے میں وہی موقف تھا جو اکابرِ اہلسنت کا رہا ہے۔اُس وقت جب بھی سنیت کے خلاف کوئی مضمون وغیرہ اخبارات و رسائل میں شائع ہوتا تو فوراً نوٹس لیتے۔ مصروفیات سے وقت بچا کر دینی کتب کے مطالعے میں مشغول رہتے تھے۔آپ کی تصنیفات و خطوط علم کا گنجینہ ہیں۔

*وصال:* آپ کا وصال یکم صفرالمظفر1347ھ،مطابق جولائی /1928ء کو ہوا۔ مرقدِ انور "مارہرہ مطہرہ" انڈیا میں ہے۔

*ماخذ و مراجع:* تذکرہ علماء اہلسنت۔ اہلسنت کی آواز 1431ھ۔ خاندانِ برکات۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے