« امجــــدی مضــــامین »
-------------------------------------------------
🕯شیطان کے بہکانے کا انداز🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
شیطان مختلف انداز سے انسان کو بہکانے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و فرمانبرداری کرنے سے روکتا ہے جیسے شیطان پہلے انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت سے روکتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ انسان کو شیطان سے محفوظ کر لیتا ہے تو انسان شیطان کو یہ کہہ کر دور کر دیتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کی بہت سخت ضرورت ہے کیونکہ مجھے اس دارِ فانی سے آخرت کے لئے توشہ اور زادِ راہ تیار کرنا بہت ضروری ہے کہ اس کے بغیر آخرت کا سفر ممکن نہیں۔
جب انسان شیطان کے اس مکر سے بچ جاتا ہے تو شیطان اسے اس طرح بہکانے اور گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اسے عبادت کرنے میں کاہلی اور سستی کا حکم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آج رہنے دو کل کر لینا۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اس سے بھی محفوظ کر لیتا ہے تو وہ شیطا ن کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیتا ہے کہ میری موت میرے قبضے میں نہیں، نیز اگر میں آج کا کام کل پر چھوڑوں گا تو کل کا کام کس دن کروں گا کیونکہ ہر دن کے لئے ایک کام ہے۔
جب شیطان اس حیلے سے بھی ناامید ہو جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے انسان! تم اللہ تعالیٰ کی عبادت جلدی جلدی کرو تاکہ فلاں فلاں کام کے لئے فارغ ہو سکو۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اس حیلے سے بھی بچا لے تو انسان شیطان کو یہ کہہ کر دفع کر دیتا ہے کہ تھوڑی اور کامل عبادت زیادہ مگر ناقص عبادت سے کہیں بہتر ہے۔
اگر شیطان اس حیلے میں بھی ناکام و نامراد ہو جاتا ہے تو وہ انسان کو ریاکاری کے ساتھ عبادت کرنے کی ترغیب دیتا اور اسے ریاکاری میں مبتلا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔
اگر انسان اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس حیلے سے محفوظ ہوگیا تو وہ یہ کہہ کر ریا کاری کے وسوسے کو ٹھکرا دیتا ہے کہ میں کسی اور کی نمائش اور دکھاوے کے لئے عبادت کیوں کروں، کیا اللہ تعالیٰ کا دیکھ لینا میرے لئے کافی نہیں۔
جب شیطان اپنے اس ہتھکنڈے سے بھی ناکام ہو جاتا ہے تو وہ انسان کو خود پسندی میں مبتلاء کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے کتنا عمدہ کام کیا اور تم نے کتنی زیادہ شب بیداری کی۔
اگر انسان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بار بھی محفوظ رہا اور خود پسندی میں مبتلاء ہونے سے بچ گیا تو وہ شیطان کے اس وسوسے کو یہ کہہ کر رد کر دیتا ہے کہ مجھ میں کوئی خوبی اور بزرگی نہیں، یہ تو سب اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ
اس نے مجھ جیسے گناہگار کو خاص توفیق عطا فرمائی اور یہ بھی اسی کا فضل و کرم ہے کہ اس نے میری حقیر اور ناقص عبادت کو شرف قبولیت عطا فرمایا، اگر اس کا فضل و کرم شامل حال نہ ہوتا تو میرے گناہوں کے مقابلے میں میری ان عبادتوں کی حیثیت ہی کیا تھی۔
جب لعین شیطان ان تمام تدبیروں سے ناکام ہو جاتا ہے تو پھر یہ حَربہ استعمال کرتا ہے جو سب سے زیادہ خطرناک ہے اور شیطان کے اس حربے سے بہت عقلمند اور ہوشیار دل شخص کے علاوہ کوئی اور نہیں بچ سکتا۔
چنانچہ شیطان کہتا ہے کہ اے نیک بخت انسان ! تم لوگوں سے چھپ چھپ کر نیکیاں کرنے میں کوشاں ہو اور اللہ تعالیٰ تمہاری ان نیکیوں کو عنقریب تمام لوگوں میں مشہور کر دے گا تو لوگ تمہیں اللہ تعالیٰ کا مقرب بندہ کہہ کر یاد کیا کریں گے۔ اس طرح شیطان اسے ریا کاری میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و عنایت سے انسان کو شیطان کے اس حربے سے بھی محفوظ فرما دے تو وہ شیطان کو یہ کہہ کر ذلیل و خوار اور نامراد کر دیتا ہے کہ اے ملعون! ابھی تک تو تو میرے پاس میرے اعمال کو فاسد و بے کار کرنے آیا کرتا تھا اور اب ان اعمال کی اصلاح و درستی کے لئے آتا ہے تاکہ میرے اعمال کو بالکل ختم کر دے، چل دفع ہو جا، میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں، وہی میرا آقا و مولیٰ ہے، میں اپنی نیکیوں کی شہرت کا مشتاق اور طلبگار نہیں ہوں، میرا پروردگار چاہے میرے اعمال ظاہر و مشہور کر دے چاہے پوشیدہ رکھے، چاہے مجھے عزت و مرتبہ عطا فرمائے چاہے مجھے ذلیل و رسوا کر دے، سب کا سب اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے میرے اعمال کا اظہار فرمائے یا نہ فرمائے۔ انسانوں کے قبضے میں کوئی چیز نہیں ہے۔
اگر انسان شیطان کے اس وار سے بھی بچ جائے تو وہ انسان کے پاس آکر کہتا ہے کہ تجھے اعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ انسان کے نیک اور بد ہونے کا فیصلہ تو روزِ اول میں ہو چکا ہے، اس دن جو برا ہوگیا وہ برا ہی رہے گا اور جو اچھا اور نیک ہو گیاوہ نیک ہی رہے گا اس لئے اگر تجھے نیک بخت پیدا کیا گیا ہے تو اعمال کو چھوڑنا تمہارے لئے نقصان دہ نہیں اور اگر تجھے بدبخت و شقی پیدا کیاگیا ہے تو تمہارا عمل تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔
اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے انسان کو شیطان کے اس وار سے بچا لیا تو انسان شیطان مردود سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ میں تواللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور بندے کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آقا و مولیٰ کے احکام بجا لائے اور اللہ تعالیٰ سارے جہان کا پروردگار ہے، جو چاہتا ہے حکم کرتا اور جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ یقینا اعمال میرے لئے فائدہ مند ہیں کسی صورت میں بھی نقصان دہ نہیں ہوسکتے کیونکہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے علم میں نیک بخت ہوں تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں زیادہ ثواب کا محتاج ہوں اور اگر خدانخواستہ علمِ الٰہی میں میرا نام بدبختوں میں ہے تو بھی عبادت کرنے سے اپنے آپ پر ملامت تو نہیں کروں گا کہ اللہ تعالیٰ مجھے طاعت و عبادت کرنے پر سزا نہ دے گا اور کم از کم اتنا تو ضرور ہے کہ نافرمان ہو کر دوزخ میں جانے سے فرمانبردار ہو کر دوزخ میں جانا بہتر ہے اور پھر یہ کہ سب محض اِحتِمالات ہیں ورنہ اس کاوعدہ بالکل حق ہے اور اس کا فرمان بالکل سچ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اطاعت و عبادت پر ثواب عطا فرمانے کا بے شمار مقامات پر وعدہ فرمایا ہے تو جو شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایمان اور اطاعت کے ساتھ حاضر ہو گا وہ ہر گز ہر گز جہنم میں داخل نہ ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے سچے و مقدس وعدے کی وجہ سے جنت میں جائے گا۔
لہٰذا (اے لوگو!) تم خوابِ غفلت سے بیدار ہو جاؤ، شیطان کے حیلوں سے ہوشیار رہو، ہر وقت اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے رہو اور شیطان مردود سے اسی کی پناہ مانگتے رہو کیونکہ تمام معاملات اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں اور وہی توفیق عطا فرمانے والا ہے، گناہوں سے بچنے اور اطاعت و عبادت کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ملتی ہے۔
*(منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الثالث: الشیطان، ص۶۱-۶۲)*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں