فرض نماز میں دو رکعت کے بعد تسری اور چوتهی رکعت میں سوره فاتحه آهسته کیوں پڑهتے هیں اور سوره فاتحه کے بعد دوسری سوره کیوں نیهں ملاتے هیں؟؟؟ کتاب کی حواله دے کر جواب عنایت فرمائیں بہت بہت مہربانی ہوگی ساٸل -نجم الحق.. مرشدآباد.. بنگال،
(وعليكم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ)
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَةَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ: صورت مسئولہ میں کہ فرض نماز میں دو رکعت کے بعد تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ آہستہ اس لیے پڑھتے ہیں کہ ان میں قرأت فرض نہیں - اور امام ان میں آہستہ قرآن پڑھتا ہے، تاکہ یہ یاد تازہ رہے کہ پہلے کی دو رکعتیں پہلے فرض ہوئی اور بعد کی دو رکعتیں بعد میں،
جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے: عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا قَالَتْ فُرِضَتِ الصَّلاَةُ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ فَأُقِرَّتْ صَلاَةُ السَّفَرِ وَزِيدَ فِي صَلاَةِ الْحَضَرِ" اھ ( مسلم شریف،كتاب صلاة المسافرين، ج 1 ص 241 )، ترجمہ : عروہ بن زبیر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں ،انہوں نے ارشاد فرمایاکہ نماز دو دو رکعتیں فرض کی گئیں ، حضر میں بھی اور سفر میں بھی، سفر کی نماز تو اپنی اصلی حالت پر قائم رکھی گئی اور حضر کی نماز میں زیادتی کردی گی۔
اور یہ کہ فرض کی پہلی دو رکعتوں کے علاوہ میں سری قرات کی وجہ یہ ہے کہ جہر سے قرات کرنا، قرات مفروضہ کی صفت ہے اور آخری دونوں رکعتوں میں قرات فرض نہیں اور جب قرات فرض نہیں ہے تو جہر بھی ثابت نہ ہوگا کیونکہ قرات مفروضہ موصوف ہے اور جہر صفت ہے جب موصوف کی فرضیت ثابت نہیں تو صفت بھی ثابت نہ ہوگی۔ ويخفي القراءة فيما سوى الأوليين؛ لأن الجهر صفة القراءة المفروضة، والقراءة ليست بفرض في الأخريين؛ لما بينا فيما تقدم". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ج:1، ص:161، دارالكتب العلمية،بيروت)،
اور علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: اس لئے کہ معراج کے سفر میں دو دو رکعتیں ہی فرض ہوئی تھیں پھر بعض نمازوں میں زیادتی کی گئی(حدیث) جب تم بھی سفر میں جاؤ تو سفر معراج کی یاد گار قائم کر لو اسی لئے پچھلی دو رکعتوں میں قرآت فرض نہیں اور امام ان میں آہستہ قرآن پڑھتا ہے تاکہ یہ یاد تازہ رہے کہ یہ رکعتیں پہلے فرض ہوئیں اور یہ بعد میں " اھ ( اسرار الاحکام بہ انوار القران ص 10)،. اور
سورہ فاتحہ کے بعد دوسری سورت نہیں ملاتے ہیں اس لیے کہ فرض نمازکی تیسری اورچوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا سنت ہے،اورتین بار تسبیح کہنایااتنی مقدارخاموش کھڑارہنا نیز سورت ملانا بھی جائزہے،
صحیح بخاری میں ہے:” أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ فِي الأُولَيَيْنِ بِأُمِّ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ، وَفِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُخْرَيَيْنِ بِأُمِّ الْكِتَابِ"بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دورکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دوسورتیں تلاوت فرماتے تھے اور آخری دورکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ تلاوت فرماتے تھے-(صحیح بخاری ،کتاب الاذان ،باب یقرأ فی الاخریین،ج1،ص107،مطبوعہ کراچی)، اور درمختار میں ہے:”واکتفی المفترض فیما بعد الأولیین بالفاتحة فانھاسنة علی الظاھر ولو زاد لابأس به (وھو مخیر بین قراء ة) الفاتحة(وتسبیح ثلاثا) وسکوت قدرھا“ترجمہ:چاررکعت فرض پڑھنے والے کے لیے پہلی دو رکعت کے بعدسورہ فاتحہ پڑھناکافی ہےاوریہ بظاہرسنت بھی ہےاوراگرسورہ فاتحہ کے ساتھ سورت بھی ملالی توکوئی حرج نہیں اورنمازی کوسورہ فاتحہ پڑھنے اور تین مرتبہ تسبیح کہنے اوراس مقدار چپ رہنے میں اختیار ہے(رد المحتار على در المختار،کتاب الصلاۃ، باب صفة الصلاة ،ج02،ص221، دارعالم الكتب الرياض)، هذا ما ظهرلي والعلم عند الله،
وَاللهُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَاٰلِه وَسَلَّم
كَتَبَهُ
عبده المذنب محمد شبیر عالم الثقافي غفرله
١٥/محرم الحرام ١٤٤٢ھ مطابق ٤ ستمبر ٢٠٢٠ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں