سورۂ رعد کا تعارف اور مقامِ نزول

 « امجــــدی مضــــامین » 
--------------------------------------------------
 سورۂ رعد کا تعارف اور مقامِ نزول
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

 سورہ ٔرعد مکی ہے اور حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے ایک روایت یہ ہے کہ ان دو آیتوں ’’ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا تُصِیْبُهُمْ‘‘ اور ’’وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا‘‘ کے سوا اس سورت کی سب آیتیں مکی ہیں، اور دُوسرا قول یہ ہے کہ یہ سورت مدنی ہے۔ 
*(خازن، تفسیر سورۃ الرعد، ۳ / ۵۱)* 

 *رکوع اور آیات کی تعداد:* 
اس میں 6 رکوع اور 43 آیتیں ہیں۔

 *"رعد" نام رکھنے کی وجہ:*
رعد، بادلوں سے پیدا ہونے والی گرج کو کہتے ہیں اور بعض مفسرین کے نزدیک بادل پر مامور ایک فرشتے کا نام رعد ہے، اور اس سورت کا یہ نام آیت نمبر 13 میں مذکور لفظ ’’اَلرَّعْدُ‘‘ کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔

*سورۂ رعد کی فضیلت:* 
حضرت جابر بن زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: 
’’جب کسی انسان کی موت کا وقت قریب آجائے تو مستحب یہ ہے کہ اس کے پاس سورۂ رعد پڑھی جائے کیونکہ یہ مرنے والے کیلئے آسانی کا اور اس کی روح قبض ہونے میں تخفیف کا سبب ہو گی۔ 
(در منثور، سورۃ الرعد، ۴ / ۵۹۹)

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے