محمد شاہد رضا مصباحی، ہزاری باغ
نام ونسب وپیدائش
اعلی حضرت امام احمدرضا خان علیہ الرحمہ نسباً پٹھان، مسلکاً حنفی، مشرباً قادری اور مولداً بریلوی تھے۔ والد ماجد مولانا نقی علی خان (١٢٩٧ھ/١٨٨٠ء) اور جدّ امجد مولانا رضاعلی خان بلند پایہ عالم اور صاحب دل بزرگ تھے۔(۱)
آپ کی ولادت ١٠/شوال المکرم ١٢٧٢ھ مطابق ١٤/جون ١٨٥٦ء کو بریلی (بھارت) میں ہوئی۔(۲)
آپ کا پیدائشی نام ”محمد“ہے اور تاریخی نام ”المختار“ جدامجد مولانا رضاعلی خان نے آپ کانام”احمدرضا“ تجویز فرمایا اسی نام سے آپ مشہورہیں، بعد میں آپ نے نام کے ساتھ”عبدالمصطفیٰ“ (غلام مصطفی) کا اضافہ فرمایا۔ چناں چہ اپنے نعتیہ دیوان میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
خوف نہ رکھ رضا ذراتوتو ہے عبدمصطفی تیرے لیے امان ہے تیرے لیے امان ہے (۳)
*بچپن*
امام احمدرضا قدس سرہ کابچپن نازونعم میں گزرا۔ فطری طورپر ذہین تھے اور حافظہ نہایت قوی وقابل رشک پایاتھا۔ کبھی بچوں کے ساتھ نہ کھیلتے۔ محلہ کے بچے کبھی کھیلتے ہوئے گھرآجاتے توآپ ان کے کھیل میں کبھی شریک نہ ہوتے۔ طہارت نفس، اتباع سنت، پاکیزہ اخلاق اور حسن سیرت جیسے اوصاف آپ کی ذات میں بچپن ہی سے ودیعت تھے۔ آپ کی زبان کھلی توصاف تھی، عام بچوں کی طرح کج مج نہ تھی، غلط الفاظ آپ کی زبان پرکبھی نہ آئے اور نہ کسی نے سنے۔ (٤)
امام احمد رضا قدس سرہ خودفرماتے ہیں کہ میں اپنی مسجد کے سامنے کھڑاتھا، اس وقت میری عمرساڑھے تین سال ہوگی، ایک صاحب اہل عرب کے لباس میں ملبوس جلوہ فرماہوئے،معلوم ہوتاتھا کہ یہ عربی ہیں، انھوں نے عربی زبان میں مجھ سے گفتگوبھی فرمائی، میں نے ان کی زبان میں ان سے کافی دیرگفتگوکی، پھر ان بزرگ ہستی کو کبھی نہ دیکھا۔(۵)
امام احمدرضا قدس سرہ کی عمر۵,٦/سال ہوگی، اس وقت بڑاکرتا پہنے ہوئے باہر تشریف لائے، اسی دوران چند طوائف زنان بازاری گزریں، آپ نے فوراً کرتے کا اگلادامن ہاتھوں سے اٹھاکرچہرہ مبارک کوچھپالیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر ان میں سے ایک بول اٹھی: واہ میاں صاحبزادے!منہ تو چھپالیا اور سترکھول دیا۔ آپ نے برجستہ جواب دیا، جب نظربہکتی ہے تودل بہکتا ہے اور جب دل بہکتاہے توستر بہکتا ہے۔ یہ حکیمانہ جواب سن کر وہ سکتہ میں رہ گئی۔(٦)
*تعلیم وتربیت*
امام احمد رضا قدس سرہ کی تعلیم وتربیت جدامجد مولانا رضاعلی خان اور والد ماجد مولانا نقی علی خان سمیت کئی علما وفضلا نے فرمائی۔ چارسال کی عمر میں قرآن پاک ناظرہ ختم کرلیا۔ اس کے بعد درسی کتابوں کاسلسلہ شروع ہوا۔ آپ بچپن ہی سے ذہین تھے اس لیے کئی غیر معمولی واقعات دوران تعلیم پیش آئے۔
آپ اپنی ابتدائی تعلیم کا خود ذکرفرماتے ہوئے رقم طراز ہیں:
”میرے استاد جن سے میں ابتدائی کتب پڑھتاتھا،جب مجھے سبق پڑھادیاکرتے، ایک دومرتبہ دیکھ کرکتاب بندکردیتا۔ جب سبق سنتے توحرف بحرف، لفظ بلفظ سنادیتا۔ روزانہ یہ حالت دیکھ کر استاذ سخت تعجب کرتے ایک دن مجھ سے فرمانے لگے کہ احمدمیاں! یہ توکہو کہ تم آدمی ہویاجن، کہ مجھ کو پڑھاتے دیر لگتی ہے، مگرتم کو یادکرتے دیر نہیں لگتی۔“(۷)
آ پ نے اکثرعلوم اپنے والد ماجد سے حاصل کیے چناں چہ آپ خود لکھتے ہیں:
یہ علوم وفنون وہ ہیں جو اپنے والد ماجد سے حاصل کیا۔
(۱)علم القرآن(۲)حدیث (۳)اصول حدیث (٤)فقہ حنفی (۵)فقہ جملہ مذاہب (٦)اصول فقہ (۷)جدل مہذب (۸)علم تفسیر (۹)علم عقائد وکلام (١٠)علم نحو (۱۱)علم صرف (١٢)علم معانی (١٣)علم بیان (١٤)علم بدیع(١٥)علم منطق (١٦)علم مناظرہ (١٧)علم فلسفہ (١٨)علم تکسیر (١٩)علم ہئیت (٢٠)علم حساب (٢١)علم ہندسہ۔ (۸)
بعض علوم وہ ہیں جنھیں کسی استاذ سے بالکل نہیں پڑھا،پرنقادعلماے کرام سے آپ کو ان کی اجازت حاصل ہے۔
(۲۲)قراء ت (٢٣)تجوید (٢٤)تصوف (٢٥)سلوک (٢٦)اخلاق (٢٧)اسماء الرجال (٢٨)سیر (٢٩)تاریخ (٣٠)لغت (٣١)ادب معہ جملہ فنون۔
کچھ علوم ایسے بھی ہیں جنھیں میں نے کسی افادہ بخش استاد سے حاصل نہیں کیا، نہ پڑھ کرنہ سن کر اور نہ ہی باہمی گفتگو سے، گویا یہ علوم ایسے ہیں جن کی تعلیم صرف آسمانی فیض سے مجھے حاصل ہوئی۔
(٣٢)ارثماطیقی (۳۳)جبرومقابلہ (٣٤)حساب سینی (٣٥)لوگارثمات (٣٦)علم توقیت (٣٧)مناظرومرایا (٣٨)علم الاکر (٣٩)زیجات (٤٠)مثلث کروی (٤١)مثلث مسطح (٤٢)ہیاۃ جدیدہ (٤٣)مربعات (٤٤)جفر (٤٥)زائرچہ۔ (۹)
مزید علوم کے بارے میں فرمایا جن کی تعلیم بھی کسی استاذ سے حاصل نہ کی۔
(٤٦)نظم عربی (٤٧)نظم فارسی(٤٨)نظم ہندی (٤٩)نثرعربی (٥٠)نثرفارسی (٥١)نثرہندی (٥٢)خط نسخ (٥٣) نستعلیق (٥٤)تلاوت مع تجوید (۵۵)علم الفرائض۔ (١٠)
اپنی اجازتوں کو ذکر کرنے کے بعد اخیر میں تحریرفرماتے ہیں:
”اللہ کی پناہ میں نے یہ باتیں فخر اور خواہ مخواہ کی خود ستائی کے طور پر بیان نہیں کیں، بلکہ منعم کریم کی عطا کردہ فرمودہ نعمت کا ذکرکیاہے۔ میرایہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ ان میں اور ان کے علاوہ دیگر حاصل کردہ فنون میں بہت بڑا ماہرہوں۔“
امام احمدرضا قدس سرہ کے اپنے قلم فیض رقم سے مذکورہ بالا ۵۵/علوم وفنون کی فہرست نہایت جامع ہے، جس میں بعض علوم فی زمانہ متعدد شاخوں وشعبوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اور ان کی شناخت کے لیے علا حدہ عنوانات ماہرین تعلیم مختص کرچکے ہیں۔
*اساتذۂ کرام*
امام احمدرضا بریلوی نے اپنے والد گرامی یاجن اساتذۂ کرام سے پڑھا یااسناد حدیث، فقہ ودیگر علوم حاصل کیے ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱)شاہ آل رسول مارہروی (م۔١٢٩٧ھ/١٨٧٩ء)
(۲)مولانا نقی علی خان (م۔١٢٩٧ھ/١٨٨٠ء)
(۳)مفتی شافعیہ شیخ احمد بن زینی دحلان مکی (م۔١٢٩٩ھ/۱۸۸۱ء)
(٤)مفتی حنفیہ شیخ عبدالرحمن سراج مکی (م۔١٣٠١ھ/١٨٨٢ء)
(۵)امام شافعیہ شیخ حسین بن صالح (م۔١٣٠٢ھ/١٨٨٤ء)
(٦)مولانا عبدالعلی رام پوری (م۔١٣٠٣ھ/١٨٨٥ء)
(۷)شاہ ابوالحسین نوراحمد(م۔١٣٢٤ھ/١٩٠٦ء)
(٨)مولانا نوراحمدبدایونی(١٣٠١ھ/١٨٨٣)
(٩)مرزا غلام بیگ قادر (م۔١٣٠١ھ/١٨٨٣ء) (۱۱)
*بیعت وارشاد*
امام احمدرضاقدس سرہ سلسلہ قادریہ میں حضرت شاہ آل رسول علیہ الرحمہ سے بیعت تھے اور آپ ہی نے امام احمدرضا خان کو اجازت وخلافت سے نوازا۔ اس کے علاوہ شیخ حسین بن صالح نے صحاح ستہ اور سلسلہ قادریہ کی اجازت اپنے خاص دست خط سے مرحمت فرمائی۔(١٢)
*عشق رسول ﷺ*
امام احمدرضاقدس سرہ سچے عاشق رسول ﷺتھے۔ یہی ان کی حیات کاطرہئ امتیاز ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کی وجہ سے تشدد کی دہائی دی جاتی ہے۔ یہی ان کی ذات کی پہچان اور پوری حیات کا عرفان ہے، وہ فنافی الرسول ﷺ تھے؛ اس لیے ان کی غیرت عشق توہین رسول ﷺ کاکوئی خفی سے خفی پہلو بھی برداشت کرنے کوتیار نہ تھی۔ دم آخریں اپنے عقیدت مندوں اور وارثوں کو جووصیت کی وہ بھی یہی تھی کہ:
”جس سے اللہ اور رسول ﷺ کی شان میں ادنیٰ توہین پاؤ،پھر وہ تمھارا کیساہی پیاراکیوں نہ ہو، فوراً اس سے جداہوجاؤ۔ جس کو بارگاہ رسالت ﷺ میں ذرا بھی گستاخ دیکھو،وہ کیساہی بزرگ معظم کیوں نہ ہو، اپنے اندرسے اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کرپھینک دو۔“
*حج وزیارت*
١٢٩٥ھ میں پہلی بارامام احمد رضا علیہ الرحمہ نے حج کیا،پھر ربیع الاول ١٣٢٣ھ میں حضورسید عالم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ آپ کے دل میں حالت بیداری میں دیدار مصطفی ﷺ کی تمنا عروج پرتھی۔ ایک شب مواجہہ شریف میں کھڑے ہوکر دیرتک درودوسلام پڑھتے رہے لیکن مراد برنہ آئی۔ تب یہ نعت لکھی اور دیدار ہوگیا۔(١٣)
وہ سوئے لالہ زارپھرتے ہیں تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
*سنت حبیب خداﷺ سے محبت*
امام احمدرضا نبی اکرم ﷺ کی سنت کے عامل تھے۔ آپ جو بھی کام کرتے اس میں سنت کو اپناتے۔ ایک روزنماز فجراداکرنے میں خلاف معمول کسی قدردیرہوگئی، نمازیوں کی نگاہیں باربار کاشانہ کی طرف اٹھ رہی تھیں کہ عین عالم انتظار میں جلدی جلدی تشریف لائے، اس وقت کچھ نمازیوں نے غورسے ملاحظہ کیا کہ آپ اس قدر جلدی میں ہونے کے باوجود مسجد میں سیدھاقدم رکھتے ہوئے اندرتشریف لائے۔ جب صحن مسجد میں پہنچے توسیدھاقدم ہی داخل کیا۔ جب کسی صف پرپہنچے توپہلے دایاں قدم رکھتے اور جب محراب میں مصلیٰ پرقدم رکھاتووہ بھی دایاں ہی تھا۔(١٤)
امام احمدرضاقدس سرہ سنت رسول ﷺ کوہرکام پر ترجیح دیتے،جو بھی عمل کرناہوتاسنت کے مطابق کرتے۔عمامہ باندھنا ہوتا تووہ بھی سیدھی جانب سے شروع فرماتے، عمامہ مبارک کا شملہ سیدھے شانہ پررکھتے، اگرکسی کوکوئی چیزدینی ہوتی توسیدھے ہاتھ سے دیتے اگر اس نے الٹاہاتھ بڑھایا،تو آپ فوراً اپناہاتھ روک لیتے اور فرماتے سیدھے ہاتھ سے لیجیے، یہ سنت ہے، ہمارے پیارے آقا ﷺ کی،اور الٹے ہاتھ سے شیطان لیتاہے.
*وصال شریف*
امام احمدرضا نے٢٥/صفر ١٣٤٠ھ /٢٨/اکتوبر ١٩٢١ء عین جمعہ کی اذان کے وقت، جب مؤذن کی زبان سے حی علی الصلوۃ، حی علی الفلاح نکلا، داعی اجل کو لبیک کہا اور ان کی روح پرواز کرگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔(١٥)
*مزار مبارک*
شہربریلی محلہ سوداگراں میں دارالعلوم منظرالاسلام کے شمالی جانب ایک پر شکوہ عمارت میں آپ کا مزارمبارک ہے۔ آپ کاعرس ہرسال٢٥,٢٤,٢٣/صفرکوہوتاہے اور ہندوبیرون ہندکے علما ومشائخ اس میں شریک ہوتے ہیں۔
*حوالہ جات:-*
(۱) تذکرہ علماے ہند
(اردو)،کراچی: ١٩٦١ء، ص:٩٨
(۲) یاد اعلیٰ حضرت، لاہور:مکتبہ قادریہ، باراول، ١٩٦٨ء،ص:١٠
(۳)اعلیٰ حضرت بریلوی، لاہور: مکتبہ نبویہ، ١٩٧٦ء،ص:۲۲
(٤)جامع الاحادیث، دہلی کتب خانہ، ٢٠٠١ء ص:٣٧٧
(۵) جامع الاحادیث، دہلی: کتب خانہ، ٢٠٠١ء ص:٣٧٧
(٦)حیات اعلیٰ حضرت، ج:۱،ص:۱۱
(۷) حیات اعلیٰ حضرت،ج:۱،ص:١٣
(۸)الاجازۃ المتینہ، ص:٣١، مکتبۃ المدینہ،کراچی
(۹)حیات اعلیٰ حضرت،ج:۲،ص:٣٠٧
(١٠)حیات اعلیٰ حضرت، ج:۲،ص:٣٠٧
(۱۱)فتاویٰ رضویہ،لاہور:رضا فاؤنڈیشن، ٢٠٠٦،ج:۱،ص:١٢
(١٢) حیات فاضل بریلوی، مشمولہ: خیابان رضا، مریداحمد، لاہور:عظیم پبلیکیشنز، ١٩٨٦ء،ص:١١٩
(١٣) یاد اعلیٰ حضرت، ص:٥٤
(١٤) حیات اعلیٰ حضرت، ج:۱،ص:٣٨
(١٥) سیرت اعلیٰ حضرت، کراچی: ص:١٢٨،برکاتی پبلشر، ١٩٨٩ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں