باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ
بیماریاں، علاج اورصحت کی حفاظت
مرض و شفا دونوں رب تعالیٰ کی جانب سے ہیں۔دوائیں دفع مرض کے لیے محض وسیلہ اور سبب ہیں۔ انسان کبھی صحیح دوابھی استعمال کرتا ہے تو شفایابی نہیں ہوتی۔دراصل سب کچھ مشیت الٰہی کے تابع ہے،اس لیے صحت ہویا مرض،ہرحالت میں اللہ تعالیٰ کویاد کرتے رہنا چاہئے۔جب اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوتی ہے تو معمولی چیزوں سے خطرناک بیماریاں کافو رہوجاتی ہیں اور انسا نی عقلیں حیران رہ جاتی ہیں۔
جس طرح عصر حاضرمیں مختلف قسم کی بیماریاں ہیں، اسی طرح عہد ماضی میں بھی طرح طرح کی بیماریاں تھیں۔ امید یہی تھی کہ علم طب اور سائنس کی ترقی کے بعد بہت سی بیماریوں پر کنٹرول ہوگااور ایسا ہی ہوا۔ چند بیماریوں کوچھوڑکر اکثر مہلک امر اض کو دور کرنے کے واسطے دوائیں اور ٹیکے ایجاد ہوئے،اور کامیابی ملی۔
ایک پریشانی یہ سامنے آئی کہ اسی درمیان بہت سی نئی بیماریاں پیدا ہوگئیں۔ سائنس دانوں اور ڈاکٹروں نے بعض جدیدبیماریوں کی دوائیں بنالیں اور بعض بیماریوں کی دوا نہ بنا سکے۔درحقیقت یہ خداوندی آزمائش ہے،تاکہ بندے خود کو شفا عطا کرنے والا نہ سمجھ لیں۔ابھی تک کورونا وائرس کی کوئی صحیح دوا نہیں بنائی جاسکی،اسی طرح بہت سی پرانی بیماریوں کی مؤثر دوا کی تلاش میں ناکامی ہوئی ہے، حالاں کہ بیماریوں کی دوا اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہے۔اگر انسان ہرکوشش میں کامیاب ہوجائے تو وہ فخروغرور میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کے پاس طاقت وقوت اوردولت وحکومت ہوتی ہے،وہ کمزوروں اور محکومو ں پر ظلم وستم ڈھاتا ہے۔جب اللہ تعالیٰ اس کی لگام سخت فرماتا ہے،تب اسے ہوش آتا ہے۔انسانوں پرآنے والی مصیبت آزمائش بھی ہوسکتی ہے اور کسی جرم کی سزا بھی۔یہ رب تعالیٰ ہی کو معلوم کہ کون سی مصیبت سزا ہے اور کون سی آزمائش؟ہاں،بندوں کو اپنے اعمال وافعال پرضرور نظرثانی کرنی چاہئے۔
ہربیماری کا علاج
(عَن جَابِرٍ عَن رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ قَالَ:لِکُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ-فَاِذَا اُصِیبَ دَوَاءُ الدَّاءَ،بَرَأَ بِاِذنِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ)
(صحیح مسلم:باب لکل داء دواء،واستحباب التداوی)
ترجمہ:حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:ہر بیماری کے لیے دواہے۔جب بیماری کودوا پہنچ جائے گی،اللہ تعالیٰ کے حکم سے اچھا ہوجائے گا۔
(عن ابی ہریرۃرضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:ما انزل اللّٰہ داءً الا انزل لہ شفاءً)
(صحیح بخاری:کتاب الطب،باب ماانزل اللہ داء،الا انزل لہ شفاء)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اتاری،مگراس کے لیے شفا بھی اتاری۔
علاج کے طریقے
دنیا میں علاج کے بہت سے طریقے رائج ہیں۔ان میں سے چند طریقے بہت مشہور ہیں۔ہر ایک کے علاج کا طریقہ بھی الگ ہے اور دواؤں کے اجزا بھی الگ ہیں۔ بھارت میں چار طریقے مروج ہیں۔ ان کے ڈاکٹروحکیم،کلینک اورہاسپیٹل موجود ہیں اور دوائیں بھی عام طور پر دستیاب ہیں۔
(۱)ایلوپیتھک (۲)ہومیوپیتھک (۳)آیوروید ک (۴)یونانی۔
جس کو جس قسم کی دوائیں فائدہ کرتی ہیں۔اس کو اسی طریق علاج کو اختیار کرنا چاہئے۔بعض بیماریاں ایسی ہیں کہ بعض طریق علاج میں ان کی مؤثر دوائیں موجود نہیں۔ایسی صورت میں جس طریق علاج میں اس کی دوائیں او ر علاج موجود ہو، اسی کواپنانا چاہئے۔کسی ایک طریق علاج کولازم کرلیناایک غلط فیصلہ ہے۔
بعض ہلکی بیماریاں ہوتی ہیں جوگھریلو علاج سے ختم ہوجاتی ہیں تو ایسے موقع پر داؤں کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ایلوپیتھک دوائیں دیگر دواؤں کے مقابلے میں تیز اثر اور زود اثر ہوتی ہیں۔اسی طرح ان دواؤں کے کچھ غلط اثرات (Side Effects)بھی ہوتے ہیں۔ ہومیوپیتھک دواؤں میں سائیڈ افیکٹ نہیں ہوتا۔یہ دوائیں زود اثر نہیں ہوتی ہیں،لیکن جس کو یہ دوافائدہ کرتی ہو،وہ اسی کو اپنائے۔
پرہیز نصف علاج
مشہورکہاوت ہے:”پرہیز نصف علاج ہے“۔ مریض کوجن چیزو ں سے منع کیا جائے،ان سے پر ہیز کرے۔اس سے جلد شفایابی کی امید ہوتی ہے۔حدیث شریف میں بھی پرہیز کا حکم دیا گیا ہے۔سماجی دنیا میں بھی پرہیز کو علاج کا ایک بڑاحصہ قراردیا جاتا ہے۔غذاؤں کے خاص اثرات ہیں جو کسی مرض کوبڑھا سکتے ہیں اور کسی مرض کو دوربھی کرسکتے ہیں،پس اس خاص مرض کا لحاظ کرکے غذاؤں کا استعمال کریں۔
اپنی صحت وتندرستی کی حفاظت کریں۔ نشہ آورچیزو ں سے پرہیز کریں۔جو غذائیں کسی کوہضم نہ ہوسکیں، یا نقصان دیں،ان سے پرہیز کریں۔آنکھ،ناک،کان،دل ودماغ اوراعضائے رئیسہ میں کوئی تکلیف ہوتو ماہر اور اسپیشلسٹ ڈاکٹروں سے رجوع کریں۔اپنی صحت کی نگہ داشت کے لیے سالانہ ٹسٹ بھی کروانا چاہئے۔
خون اورجسم کی سالانہ جانچ
اپنی صحت کی جانچ کے لیے ہر سال درج ذیل ٹسٹ کرائے جاتے ہیں،تاکہ بوقت ضرورت علاج کرایا جاسکے۔انسان غفلت میں رہتا ہے اور بیماری اندرونی طورپربڑھتی جاتی ہے اور ہمیں اس کااحساس نہیں ہوتا۔
1: CBC. (کمپلیٹ بلڈ کاؤنٹ):یہ خون میں موجود مختلف خلیات یعنی ریڈ بلڈ سیلز، وائٹ بلڈ سیلز اور وائٹ بلڈ سیلز کی تمام اقسام اور پلیٹ لیٹس کی تعداد اور خون میں موجود ہیموگلوبن کی مقدار بتاتا ہے۔
اگر آپ خون میں ہیموگلوبن کی کمی یعنی اینمیا(خون کی کمی)کے شکار ہیں، یا جسم میں کوئی انفیکشن یا الرجک پروسیس چل رہا ہے تو اس ٹسٹ سے اس کی جانکاری ہوجاتی ہے۔
2:LFTs (لیور فنکشن ٹیسٹ): یہ جگر کا ٹسٹ ہے۔ جس میں جگر کے نارمل کام کرنے کی صلاحیت کو چیک کرنے کے لیے خون میں بلی ریوبن اور کچھ اینزائمز کو جانچا جاتا ہے۔ بلی ریوبن ایک مادہ ہے جو کہ ہمارے خون کے سرخ خلیات کی توڑ پھوڑ سے بنتا ہے اور جگر اس کو جسم سے صاف کرنے کے لیے دیگر کچھ مادوں کے ساتھ جوڑتا ہے اور پھر یہ جسم سے خارج ہو جاتا ہے۔ اگر جگر کے نارمل فنکشن میں کوئی خرابی ہو تو بلی ریوبن کی مقدار خون میں ایک مخصوص ویلیو سے بڑھ جاتی ہے۔
3: RFTs (رینل فنکشن ٹسٹ):یہ گردوں کی جانچ کا ٹسٹ ہے۔ اس میں خون میں موجود یوریا اور کریٹینن کو جانچا جاتا ہے اور اگر ان کی مقدار ایک مخصوص حد سے زیادہ ہو تو یہ گردوں کی خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔
4: Lipid profile Test.:یہ جسم میں موجود مختلف طرح کے لپڈز کی جانچ کرتا ہے، یعنی کولیسٹرول، ہائی ڈینسٹی لائیپو پروٹینز اور لو ڈینسٹی لائیپو پروٹینز۔ جن افراد کی فیملی ہسٹری میں دل کے امراض ہوں، ان کو (خاص طور پر مرد وں کو) یہ ٹسٹ سال میں ایک بار ضرور کروانا چاہیے۔
لپڈز لیول میں اگر کچھ گڑ بڑ ہو تو آپ ابتدائی لیول پر اس کی جانچ کر کے اپنی خوراک میں تبدیلی اور ورزش کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر دل کے خطرناک امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ مردوں میں دل کے امراض کا تناسب زیادہ ہے، لہٰذا مردوں کو بیس سال کی عمر کے بعد یہ ٹسٹ ضرور کرانا چاہیے اور جن کے ماں باپ میں سے کسی کو دل کا مرض ہے تو وہ سالانہ یہ ٹسٹ ضرور کروائیں۔
5: BSL (بلڈ شوگر لیول): یہ ٹسٹ خون میں موجود گلوکوز کی مقدار بتاتا ہے۔ اگر آپ کی فیملی ہسٹری میں ڈائبٹیز (شوگر) کی بیماری ہے تو سالانہ
اپنا یہ ٹسٹ ضرور کروائیں۔
6: Stool test. ترقی یافتہ ممالک میں ہر چھ ماہ بعد سکریننگ ٹسٹ میں یہ بھی کیا جاتا ہے۔ کولون اور ریکٹم کے مختلف امراض خصوصا کینسر کا جلد پتہ لگانے کے لیے یہ ٹسٹ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ٹسٹ میں سٹول سیمپل کی مائیکروسکوپک جانچ کی جاتی ہے کہ اس میں خون،پس یا کوئی اور ایبنارمل مادہ تو موجود نہیں ہے۔
7: Urine complete examination:اس ٹسٹ میں یورین کی مکمل مائیکروسکوپک جانچ کی جاتی ہے کہ اس میں بیکٹریا، خون، پس یا کرسٹلز وغیرہ تو موجود نہیں۔یہ ٹسٹ یورینری ٹریکٹ کی بیماریوں کی جانچ کے لیے ضروری ہے۔(ماخوذاز:فیس بک، ماڈرن ہیلتھ کیر ہاسپیٹل)
جھاڑ پھونک سے علاج
نظام الٰہی پر تعجب ہوتا ہے کہ جھاڑ پھونک میں چند الفاظ کہے جاتے ہیں اورچھوٹی،بڑی،خطرناک و لاعلاج بیماریاں ان لفظوں کے سبب دور ہوجاتی ہیں۔مسلمانوں کو اس طریق علاج میں سے صرف اتنا ہی اختیار کرنا ہے،جس کی اجازت اسلامی شریعت میں مل سکے۔جو جھاڑ پھونک کفریہ کلمات اورشیطانوں سے طلب مدد واستعانت پر مشتمل ہو،اس کی اجازت نہیں۔وہ ناجائزوحرام ہے۔قرآنی آیات،اسمائے الٰہیہ اور جائز کلمات سے جو جھاڑ پھونک ہو،صرف اسی کی اجازت ہے۔ تعویذ بھی وہی جائز ہے جو جائزکلمات سے ہو۔
صدرالشریعہ علیہ الرحمۃوالرضوان نے رقم فرمایا:”گلے میں تعویذلٹکانا جائز ہے،جب کہ وہ تعویذجائز ہو، یعنی آیات قرآنیہ یااسمائے الٰہیہ اور ادعیہ سے تعویذکیا گیا ہو،اور بعض حدیثوں میں جوممانعت آئی ہے، اس سے مرادوہ تعویذات ہیں،جوناجائز الفاظ پر مشتمل ہوں، جوزمانہ جاہلیت میں کیے جاتے تھے۔
اسی طرح تعویذات اور آیات واحادیث وادعیہ رکابی میں لکھ کر مریض کوبہ نیت شفا پلانابھی جائز ہے۔ جنب وحائض ونفسا بھی تعویذات کوگلے میں پہن سکتے ہیں،بازو پرباندھ سکتے ہیں،جب کہ تعویذات غلاف میں ہوں“۔(در مختار،رد المحتار)(بہار شریعت حصہ شانزدہم:بحث متفرقات ص 652-مکتبۃ المدینہ)
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:04:اکتوبر 2020
٭٭٭٭٭
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں