Header Ads

مجدد الفِ ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللّٰه علیہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯مجدد الفِ ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:*
*اسمِ گرامی:* شیخ احمد۔
*کنیت:* ابوالبرکات۔
*القاب:* بدرالدین، امامِ ربانی، مجدد الفِ ثانی، قیومِ زمان، وغیرہ ہیں۔
*سلسلہ نسب اس طرح ہے:* آپ کا شجرۂ نسب امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس طرح ملتا ہے۔
شیخ احمد بن شیخ عبدالاحدبن شیخ زین العابدین بن شیخ عبدالحی بن شیخ محمد بن شیخ حبیب اللہ بن شیخ رفیع الدین بن شیخ نصیرالدین بن شیخ سلیمان بن شیخ یوسف بن شیخ اسحاق بن شیخ عبداللہ بن شیخ شعیب بن شیخ احمد بن شیخ یوسف بن شیخ شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ بن شیخ نصیرالدین بن شیخ محمود بن شیخ سلیمان بن شیخ مسعود بن شیخ عبداللہ الواعظ الاصغر بن شیخ عبداللہ الواعظ الاکبربن شیخ ابوالفتح بن شیخ اسحاق بن شیخ ابراہیم بن شیخ ناصر بن شیخ عبداللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔  

*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت بروز جمعۃ المبارک 14/شوال المکرم 971ھ، مطابق مئی/1564ء کو سرہند شریف میں ہوئی۔

*تحصیلِ علم:* جب آپ سنِ تعلیم کو پہنچے تو آپ کو مکتب میں داخل کر دیا گیا۔ بعد ازاں اکثر علوم متداولہ والد بزرگوار سے حاصل کر کے سیالکوٹ تشریف لے جا کر معقولات کی بعض کتابیں حضرت مولانا کمال کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور حدیث کی بعض کتابیں مولانا یعقوب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں۔ الغرض آپ سترہ سال کی عمر میں علوم ظاہری کی تحصیل کے سب مرحلے طے کر کے اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوکر تدریس میں مشغول ہوگئے، اور طلبہ کو اپنی برکات سے بہرہ ور فرماتے رہے۔ اسی اثنا میں آپ نے عربی فارسی میں متعدد رسالے نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ تحریر فرمائے۔ بہت سے مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ نے بچپن میں قرآنِ مجید حفظ کر لیا تھا۔ لیکن آپ کے ایک مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دولت قلعہ گوالیار میں نظر بندی کے زمانے میں حاصل ہوئی۔
*(سیرت مجددالفِ ثانی:84)*

*بیعت و خلافت:* سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے، اور خلافت سے سرفراز ہوئے۔ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شاہ سکندر علیہ الرحمہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں اپنے والدِ گرامی شیخ عبدالاحد سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں اپنے استادِ محترم مولانا شیخ یعقوب کشمیری علیہ الرحمہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی۔ حضرت مجدد کو تمام سلاسل میں خلافت حاصل تھی لیکن سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سے آپ کو خاص لگاؤ تھا۔ آپ ہی کے دم سے اس سلسلے کو پاک وہند میں اور دیگر ممالک میں فروغ حاصل ہوا۔

*سیرت و خصائص:* عالی مرتبت، عظیم البرکت، قیومِ ملت، خزینۃ الرحمت، محدث رحمانی، غوث صمدانی، امام ربانی، مجددالف ثانی، حضرت ابو البرکات شیخ احمد فاروقی نقشبندی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ۔ 
آپ کے والد بزرگوار کا بیان ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ تمام جہان میں ظلمت پھیل گئی ہے۔سُور، بندر اور ریچھ لوگوں کو ہلاک کر رہےہیں، اسی اثناء میں میرے سینے سے ایک نور نکلا اور اُس میں ایک تخت ظاہر ہوا۔ اُس تخت پر ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہے اور اُس کے سامنے تمام ظالموں، زندیقوں اور ملحدوں کو بکرے کی طرح ذبح کر رہے ہیں اور کوئی شخص بآواز بلند کہہ رہا ہے: 
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا۔
"اورفرمادو!سچ آگیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنےوالا ہے"۔
اس خواب کی تعبیر حضرت قدس سرہ نے شاہ کمال کیتھلی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس سے الحاد و بدعت کی تاریکی دُور ہوگی۔ یہ تعبیر بالکل درست نکلی۔
واقعی ایسا ہوا اللہ جل شانہ نے حضرت مجدد کو اپنے دین کی خدمت کے لئےچن لیا تھا۔ صبر و شکر، تسلیم و رضا حسبِ حال ہر ایک کی تعظیم، لوگوں پر شفقت، صلۂ رحمی، اربابِ حقوق کی رعایت، مریضوں کی عیادت، سلام میں سبقت، کلام میں نرمی آپ کا شیوۂ حسنہ تھا۔ آپ کا طریقۂ عمل برعزیمت تھا۔عبادات و عادات میں نہایت احتیاط اور سنت کا کمال اتباع ملحوظ تھا۔ آج یہود و نصاریٰ صوفیزم کی بات کرتے ہیں، اور ان کے سرمائے سے"انٹرنیشنل صوفی کانفرنسز" کا انعقاد کیا جا رہاہے۔ اس میں پلپلے، جاہل، دین و ملت فروش نام نہادصوفیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ جن کے ہاں دینِ اسلام کی ثانوی حیثیت بھی نہیں ہے۔ ان کی صورت و سیرت اس بات کی گواہی دے رہی ہوتی ہیں۔

آئیے! اس صوفی کی بات کرتے ہیں، جو امام الاولیاء ہے، دین کا محافظ ہے، قرآن کا حافظ ہے، اسرارِ خداوندی کا امین ہے، مصطفیٰ کریمﷺ کی سنتوں کا عامل ہے، عالمِ ربانی ہے، اور وہ مجدد الفِ ثانی ہے۔ 
مغل شہنشاہِ اکبر کے عہدِ حکومت میں اسلام کے سر سبز و شاداب چمن پر ایک بار پھر کفر و الحاد، زندقہ اور بدعت و ضلالت کی گھٹا ٹوپ آندھیاں چھا گئیں۔ اس نے دینِ حنیف میں ترمیم کرکے ایک نئےدین کی بنیاد رکھی ''دین الٰہی'' کے نام سے ایک ایسا مذہب ایجاد کیا گیا جو شریعتِ محمدیہ علیٰ صاحبھاالصلاۃ والسلام کے سراسر مخالف اور قرآن و سنت سے انکار و انحراف کے مترادف تھا۔ دینِ اسلام کی صداقت و عظمت کا وہ چراغ جو ایک ہزار سال سے روشن تھا، شاہِ وقت، علمائے سوء، اور جاہل صوفیوں کے ہاتھوں ٹمٹمانے لگا۔ دینِ اسلام کی حالت زار جو شہنشاہِ اکبر اور اس کے بعد جہانگیر کے ہاتھوں رہی تھی۔ اس کی طرف اشارہ حضرت مجدد الف ثانی نے اپنےایک خط میں جو انہوں نے جہانگیر کے ایک مقرب کو لکھا، یوں بیان فرمائی:
"اسلام کی بےکسی کا یہ حال ہے کہ کفار کھلم کھلا اس پر طعن توڑتے ہیں اور اسلام کے نام لیواؤں کی مذمت کرتے ہیں۔ وہ ہر کوچہ و بازار میں بے خوف و خطر کفر کے احکام جاری کرتے اور کفار کی مدح و ستائش کرتے ہیں، مسلمان اسلامی احکام کی بجا آوری سے قاصر اور شریعت محمدیہ پر عمل پیرا ہونے سے عاجز ہیں''۔ (ایضاً)

دینِ اکبری کو رعایا کے تمام طبقوں کے لئے قابلِ قبول بنانے کے لئے عقیدۂ توحید میں اس قدر ترمیم کی گئی کہ ہندوؤں کی بت پرستی، مجوسیوں کی آتش پرستی اور ویدوں میں بیان کردہ فلسفیانہ موشگافیوں کو نئے دین میں سمیٹ لیا گیا ہے، اس طرح اکبر کا "دینِ الٰہی" مختلف مذاہب کے عقائد و خیالات کا ایک ملغوبہ بن گیا تھا۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللهﷺ جو دین کی اصل بنیاد تھی، وہ طاقِ نسیاں پر رکھ دی گئیں، سورج کی پرستش چاروں طرف لازمی قرار دی گئی، آگ، پانی، درخت اور گائے کو پوجنا جائز ٹھہرا، اکبر ہر روز خود صبح اُٹھ کر سورج کی پرستش کرتا، اس کے بعد مشتاقانِ دید کے لئے دیوانِ عام میں آ بیٹھتا تھا، لوگ شہنشاہ کے لئے سجدہ تعظیمی بجا لاتے جسے اس وقت کے دین فروش ملاؤں نے جائز قرار دیا تھا۔ اس کے برعکس اسلامی شعائر کو درخورِ اعتنانہ سمجھا گیا اور بادشاہ کو یہ بتلایا گیا کہ دینِ اسلام ایک ہزار سال گزر جانے کے بعد نعوذ باللہ بالکل اسی طرح بےکار اور ناکارہ ہوگیا ہے، جس طرح کہ اسلام سے پہلے کے مذاہب اقتدارِ زمانہ کے ہاتھوں معطل ہو چکے ہیں۔

ہندو عورتوں سے شادیاں کر لینے کے بعد اکبر کے دِل میں ہندوؤں کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوگیا تھا۔ حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر ہندو فائز تھے، اپنے اقتدار اور شاہ وقت کی نظرِ عنایت نے انہیں اس قدر دلیر کر دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی ہر آن ہر لمحہ دل آزاری کرتے، مسجدیں شہید کر کے وہاں مندر بنائے گئے، ہندوؤں کے برت کا دن آتا تو مسلمانوں کو دن میں کھانے پینے سے حکماً روک دیا جاتا، انہیں حکم ہوتا کہ ان کے چولہوں میں آگ نہ جلے۔ لیکن جب رمضان المبارک آتا تو ہندو سرِ عام کھاتے، رمضان کی عزت و حرمت کی حفاظت کےلئے بادشاہ کوئی فرمان جاری نہ کرتا تھا۔ حالات اس حد تک ناساز گار تھے کہ دین کے پنپنے کی کوئی اُمید نظر نہ آتی تھی۔ مگر ہمیشہ یہ ہوا کہ جب بھی دین اسلام پر کوئی آزمائش کا وقت آیا رحمتِ حق میں ارتعاش پیدا ہوا۔ دین حق کی حفاظت کے لئے کوئی نہ کوئی ہستی ان تِیرہ و تاریک فضاؤں میں نمودار ہوئی جس کی نورانی کرنوں سے کفر و الحاد کی تاریکیاں چھٹ گئیں جس کی ضیاء بار تابانیوں سے بدعت و ضلالت کی آندھیاں ڈھل گئیں جس کی ضَوفشاں شعاعوں سے زندقت کے اندھیرے بھی منور ہوئے اور توحید و سنت کی مشعلیں چمک اُٹھیں۔

جب کفر و شرک، بدعت و ضلالت اور زندقہ و الحادکی آندھیاں اپنی تمام تاریکیوں سمیت ہندوستان کی فضاء پر چھا گئیں تو آسمانِ ''سر ہند'' پر سنت و ہدایت کا آفتاب طلوع ہوا جس کو لوگ "شیخ احمد سر ہندی" کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
اس آفتاب کی ضیاء پاشیوں سے ظلمت و گمراہی کے اندھیرے کافور ہوئے، اکبر نے جس دین کی بنیاد رکھی تھی اور اعوان و انصارِ حکومت جس کی تبلیغ میں ہمہ تن مصروف تھے، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو بیخ و بن سے اُکھاڑنے کا تہیہ کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حق اپنی تمام جلوہ سامانیوں سے طلوع ہوتا ہے۔ تو باطل کافور کی مانند تحلیل ہو جاتا ہے۔ بادشاہ کو رعایا سجدہ کرتی تھی۔ جب حضرت مجدد الفِ ثانی جہانگیر کے دربار میں پہنچے، اس کو بھی آپ سے یہی توقع تھی، لیکن آپ نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے فرمایا اللہ جل شانہ کی ذات کے علاوہ سجدہ کسی کے لئے جائز نہیں ہے، فرمایا: یہ گردن کٹ تو سکتی ہے لیکن باطل کے آگے جھک نہیں سکتی۔

بادشاہ کو درباریوں نے قتل پہ ابھارا، جو شہنشاہ کو سجدہ نہ کرے وہ قتل کا مستحق ہے۔ لیکن بادشاہ کو قتل کی جرأت نہ ہوئی۔ آپ کو "قلعہ گوالیار" میں نظر بند کر دیا۔ آپ نے ان حالات میں بھی سلسلہ تبلیغ جاری رکھا۔
بالآخر آپ کی کوششیں رنگ لائیں۔ جو اسلام پر پابندیاں تھیں وہ ختم کردی گئیں، اسلام کا بول بالا ہوگیا۔ ہرطرف اسلام کی بہاریں پھر نظر آنے لگیں۔ یہ تھے حقیقی صوفیاء۔

*وصال:* بروز پیر 29/صفرالمظفر 1034ھ، مطابق جنوری/1625ء کو وصال فرمایا۔ آپ کا مزار پرانوار سرہند شریف (انڈیا) میں مرکزِ انوار و تجلیات ہے۔

*ماخذ و مراجع:* تاریخ مشائخِ نقشبندیہ۔ سیرت مجددالفِ ثانی۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے