شماتت کی مذمت
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
فی زمانہ دینی اور دنیوی دونوں شعبوں میں شَمَاتت کے نظارے بہت عام ہیں، مذہبی لوگ اور اسی طرح کاریگر، دوکاندار، کارخانے، فیکٹری یا مِل میں ملازمت کرنے والے، یونہی کسی کمپنی، ادارے یا بینک میں جاب کرنے والے، ان کی اکثریت بھی شَمَاتت یعنی اپنے مسلمان بھائی پر آنے والی مصیبت پر خوش ہونے کے مذموم فعل میں مبتلا نظر آتی ہے اور بعض اوقات تو یوں ہوتا ہے کہ اگر آپس میں کسی وجہ سے ناراضی ہو جائے تو پھر جس سے ناراضی ہو تی ہے اگر وہ یا اس کے گھر میں سے کوئی بیمار ہو جائے، اُس کے یہاں ڈاکہ پڑ جائے یا اس کا مال چوری ہوجائے، یاکسی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوجائے، یاحادِثہ ہو جائے، یا مُقَدَّمہ قائم ہوجائے یا پولیس گرفتار کر لے، یا گاڑی کا نقصان یا چالان ہو جائے، الغرض وہ کسی طرح کی بھی مصیبت میں پھنس جائے تو ناراض ہونے والے صاحب بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ بعض حضرات جو کہ ضرورت سے زیادہ باتونی اور بے عمل ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ’’بڑا پہنچا ہوا‘‘ سمجھ بیٹھتے ہیں وہ تو یہاں تک بول پڑتے ہیں کہ دیکھا !ہم کو ستایا تھا نا تو اُس کے ساتھ ’’ایسا‘‘ ہوگیا ! گویا وہ چھپی باتوں اور سَربَستہ ( یعنی خفیہ ) رازوں کے جاننے والے ہیں اور آں بدولت (یعنی اِن) کو اپنے مخالف پر آنے والی مصیبت کے اسباب معلوم ہو جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کو چاہئے کہ ذیل میں مذکور روایت اور امام غزالی کے فرمان سے عبرت حاصل کریں۔
چنانچہ حضرت واثلہ بن اسقع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’لَا تُظْہِرِ الشَّمَاتَۃَ لِاَخِیْکَ فَیَرْحَمُہُ اللہُ وَیَبْتَلِیْکَ‘‘
اپنے بھائی کی شَماتَت نہ کر (یعنی اس کی مصیبت پر اظہار ِمَسَرَّت نہ کر) کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا اور تجھے اس میں مبتَلا کردے گا۔
*(ترمذی، کتاب صفۃ یوم القیامۃ، ۵۴-باب، ۴ / ۲۲۷، الحدیث: ۲۵۱۴)*
حضرت امام محمد بن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
کہا گیا ہے کہ کچھ گناہ ایسے ہیں جن کی سزا ’’برا خاتمہ‘‘ ہے ہم اس سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ چاہتے ہیں۔ یہ گناہ’’ ولایت اور کرامت کا جھوٹا دعویٰ کرنا ہے۔ *(احیاء علوم الدین، کتاب قواعد العقائد، الفصل الرابع من قواعد العقائد فی الایمان والاسلام۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۷۱)*
یاد رہے کہ اگر کسی مسلمان کی مصیبت پر دل میں خود بخود خوشی پیدا ہوئی تو اِس کا قصور نہیں تا ہم اِس خوشی کو دل سے نکالنے کی بھر پور سَعی کرے، اگر خوشی کا اظہار کرے گا تو شماتت کا مُرتکب ہو گا۔
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ دوسرے مسلمان کی تکلیف پر خوشی کے اظہار سے بچے اور شیطان کے دھوکے میں آ کر خود کو’’بڑا پہنچا ہوا‘‘ نہ سمجھے اور اس سے بچنے کی دعا بھی کرتا رہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سخت مصیبت، بد بختی کے آنے، بری تقدیر اور دشمنوں کے طعن و تشنیع سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
*(بخاری، کتاب الدعوات، باب التعوّذ من جہد البلاء، ۴ / ۲۰۲، الحدیث: ۶۳۴۷)*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں