مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
بہار اسمبلی الیکشن:2020
سیمانچل,متھلانچل اور مشرقی چمپارن کو مسلم اکثریتی علاقہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ان علاقوں میں تیسرے مرحلہ میں یعنی 07: نومبر 2020 کو ووٹنگ ہو گی۔
مجلس(MIM)بھی ان علاقوں میں قسمت آزمائی کر رہی ہے۔جن سیٹوں پر مجلس کے امیدواروں کے کامیاب ہونے کی امید ہے اور ووٹرس کا میلان مجلس کی طرف ہے,وہاں مجلس کے امیدواروں کو کامیاب کرنے کی کوشش کی جائے۔
جہاں مجلس کے امیدوار کمزور پوزیشن میں ہوں,وہاں مہا گٹھ بندھن کو ووٹ دیں۔اپنے ووٹ کو منتشر ہونے نہ دیں,ورنہ فرقہ پرستوں کو قدم جمانے کا موقع مل جائےگا۔
بھارت کی موجودہ متحرک اور مشہور پارٹیاں برادریانہ پارٹیاں(Caste Parties)ہیں,گرچہ ہر ایک کی طرز سیاست جداگانہ ہے۔
کانگریس,بی جے پی,ترنمول کانگریس,کمیونسٹ پارٹی برہمنوں کی پارٹی ہے۔یہ پارٹیاں برہمنوں کے مفادات اور ان کے عروج وارتقا کے لئے کام کرتی ہیں۔ان میں سے بعض پارٹی سیکولرزم کا نعرہ لگاتی ہے اور بعض ہندو ازم کا۔
ستر سالوں تک کانگریس نے سیکولرزم کا نعرہ لگایا اور مرکزی اور اکثر ریاستی حکومتوں پر قابض رہی۔
چوں کہ آزاد بھارت کا دستور سیکولر تھا اور برہمن وغیر برہمن ہرایک قوم کو حصول تعلیم کا حق حاصل تھا اور ایس سی(SC) و ایس ٹی(ST) کے لئے حکومتی ملازمتوں میں ریزرو حصہ تھا,پھر وی پی سنگھ کی حکومت نے اوبی سی(OBC) کو بھی ریزرویشن دیا,اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کی مول نواسی قومیں تعلیم یافتہ بھی ہو گئیں اور وہ لوگ مالی طور پر بھی مستحکم ہو گئے۔
مول نواسی قوموں پر ساڑھے تین ہزار سال سے برہمن قوم ظلم وستم ڈھاتی ا رہی ہے۔جب وہ لوگ پڑھ لکھ کر حقائق سے آشنا ہونے لگے تو وہ لوگ برہمنوں کے خلاف جانے لگے۔مول نواسی اقوام کی متعدد سیاسی پارٹیاں بھی معرض وجود میں آ گئیں۔
برہمنوں نے ان شودر اقوام کو ان کے ووٹ بٹورنے کے لئے 1909میں ہی ہندو بنا دیا تھا,جب مارلے منٹو ایکٹ:1909میں ہر بالغ بھارتی کو ووٹ کا حق دیا گیا تھا۔
مول نواسی قوموں کے تعلیم یافتہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کی مول نواسی قومیں جن کو برہمنوں نے زبردستی ہندو بنا رکھا تھا,وہ لوگ اپنے ہندو ہونے کا انکار کرنے لگے۔
برہمنوں نے سوچا کہ اب سیکولر زم کا نعرہ کارگر نہیں,اس لئے برہمنوں نے بی جے پی کو آگے بڑھایا اور ہندتو کا نعرہ لگانے لگے,تاکہ مول نواسی مفکرین کی آوازیں دب جائیں اور شودروں کے عام لوگوں کے ووٹ ان کی جھولی میں آتے رہیں۔
کانگریس مکت بھارت کا مطلب یہ ہے کہ برہمنوں نے سیکولرزم کا نعرہ چھوڑ دیا ہے۔اب وہ ہندوازم کے نام پر ووٹ بٹوریں گے۔یہ دیکھ کر کانگریس نے بھی اپنے سافٹ ہندتو کا نظریہ ظاہر کیا,لیکن برہمنوں نے اسے بھی قبول نہ کیا۔
بی جے پی کے لیڈر علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمانوں کا ووٹ نہیں چاہئے۔اس سے بھارتیوں کو یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ بھارت میں ہندؤں کی اکثریت ہے اور تمام مول نواسی قومیں ہندو ہیں اور مول نواسی مفکرین کا یہ دعوی کہ ہم ہندو نہیں ہیں,یہ غلط دعوی ہے۔
برق رفتاری کے ساتھ حکومتی محکموں اور شعبوں کو پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں میں دیا جا رہا ہے,کیوں کہ ان شعبوں کی ملازمت میں مول نواسی قوموں کے لئے ریزرو حصے ہیں۔ملازمت ختم ہو جانے سے یہ قومیں غربت میں مبتلا رہیں گی اور غربت کے سبب تعلیم سے محروم اور جاہل رہیں گی اور ہندو بنی رہیں گی۔ان کے ہندو ہونے سے بھارت پر برہمنوں کی گرفت مضبوط رہے گی۔
مول نواسی قوموں کو ہندو بنائے رکھنے کے لئے اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کی جاتی ہے۔فسادات کرائے جاتے ہیں۔اس کا توڑ یہی ہے کہ مول نواسی قوموں سے مسلمان اپنے سیاسی روابط مضبوط کریں اور ان کو ہندو کہنا چھوڑ دیں۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:05:نومبر 2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں