Header Ads

ہماری جانیں اور ہمارا سب کچھ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرُو پر قربان ہے

حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرضی تصویر
*’’ہماری جانیں اور ہمارا سب کچھ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرُو پر قربان ہے‘‘*

علامہ قمرالزماں خان اعظمی
[سکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن انگلینڈ]

  {حالیہ دنوں پیغمبر اسلام ﷺ سے منسوب خاکوں کو لے کر ساری دنیا میں بے چینی ہے۔ تمام باطل قوتیں اس کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں کا رشتہ بارگاہِ رسالت مآب ﷺ سے توڑ دیا جائے۔ مسلمان سب کچھ گوارہ کر سکتا ہے لیکن اپنے آقا ﷺ کی ناموسِ اقدس میں توہین و گستاخی ہرگز برداشت نہیں کر سکتا۔ توہین آمیز خاکوں کا معاملہ یورپ کے کئی ملکوں نے گرمایا۔ آزادیِ اظہار رائے کے نام پر ظالموں نے رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ پاک کو نشانہ بنایا، اور یہ امید کی کہ مسلمان اس دہشت گردانہ جرأت کو نظر انداز کر دیں گے۔ فرانس کے حالیہ سانحات، پھر وہاں کے دہشت گرد سربراہ کے ذریعے جسارت صہیونی لابی کی سازش کا حصہ ہے۔ ضروری ہے کہ ناموسِ رسالت ﷺ کے لیے جذبۂ فِدا کاری پروان چڑھائیں۔ اِس ضمن میں دو ٹوک انداز میں تقریباً تین دہائی قبل علامہ قمرالزماں اعظمی نے ایک مضمون(مشمولہ مقالاتِ خطیبِ اعظم) لکھا تھا؛ جو برطانوی اخبار میں شائع خاکے سے متعلق تھا، آج تو پورا یورپ بشمول فرانس اسی راہ پر گامزن ہے۔ ہمارے اپنے ملک کے فرقہ پرست فرانسیسی سربراہ کی تائید میں سامنے آگئے ہیں، ہمیں ہوشمندی کے ساتھ گستاخیِ رسالت کے اِس فتنے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ امتحانِ عشقِ رسول ﷺ کی صدی ہے، ہم اگر بیدار رہے تو دُنیا کی کوئی طاقت ہمارے آقاﷺ کی بے ادبی کی جرأت نہیں کر سکتی۔اِس تحریر کا مطالعہ کر کے حال کا تجزیہ کریں۔} (غلام مصطفیٰ رضوی، نوری مشن مالیگاؤں)
 
  لندن کے مشہور اخبار ٹائمز ہائر ایجوکیشن سپلیمنٹ نے اپنی ۲۷؍ جنوری ۱۹۸۹ء کی اشاعت میں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی فرضی تصویر شائع کرکے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔ اس نے نہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فرضی تصویر شائع کی ہے، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ بدنامِ زمانہ گستاخِ رسول؛ سلمان رشدی کی بھی تصویر شائع کی ہے، نیز اسلام اوراہلِ اسلام کے خلاف ناپسندیدہ باتیں لکھی ہیں۔ مسلمان ابھی رشدی کی کتاب پر احتجاج کر ہی رہے تھے کہ ٹائمز سپلیمنٹ نے ایک اور گستاخی کا ارتکاب کرکے مسلمانوں کو مزید مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے۔ رشدی کے مسئلے میں حکومت کی خاموشی نے پورے برطانوی پریس کو مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کاموقع فراہم کردیا ہے۔ حکومتِ برطانیہ کو شاید ابھی تک حالات کی نزاکت کا صحیح احساس نہیں ہے۔ ہم برطانوی حکومت سے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اِس طرح کی گستاخیوں کے سدِباب کے لیے فوری اقدام کرے، ورنہ نتائج کی ذمے دار خود حکومت ہوگی۔ ہم برملا اعلان کرتے ہیں کہ ہم پہلے مسلمان ہیں پھر برطانوی، ہندی، پاکستانی یا عرب ہیں۔ ہم کسی ملک میں قیام کی قیمت پر اپنے مذہب اوراپنے شعائر کی توہین برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ برطانیہ میں جس فتنے کو ہوا دی جارہی ہے اُس کے اثرات صرف برطانیہ تک محدود نہیں رہیں گے۔ بلاشبہہ ہم ان گستاخیوں کے جواب میں کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھا سکتے جو سیدنا عیسٰی علیہ السّلام یا سیدنا موسیٰ علیہ السّلام کی عظمت کے خلاف ہو۔ ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے، اِس لیے کہ اُن کا احترام ہمارے ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ اِس لیے کہ وہ اسلام اور قرآن کے پیغمبر ہیں۔ لیکن یہاں اگر مسلمانوں کے دینی جذبات کا احترام نہ کیا گیا تو یہ دُنیا بھر کے لیے ایک انتہائی غلط مثال ہوگی جس کے نتیجے میں دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے چرچ اور مشنری اداروں کے لیے ہزاروں دُشواریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس طرح سے تو کسی کی بھی عزت کسی مقام پر محفوظ نہ رہ سکے گی۔

  کیا برطانیہ کا عیسائی معاشرہ دُنیا کی غیر عیسائی اکثریتوں کو یہ حق دیتا ہے کہ اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو یہاں مسلمانوں کے ساتھ کیا جارہا ہے؟

  سلمان رشدی کے ایک انگریز حامی نے اپنے ایک انٹرویو میں یہاں تک کہا کہ، بریڈ فورڈ کی۱۰؍ فی صد مسلم آبادی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بریڈ فورڈ کی ۹۰؍ فی صد غیر مسلم عوام سے مطالبہ کرے کہ وہ رشدی کی کتاب نہ پڑھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں کی نام نہاد جمہوریت ایمان اور عقیدے کو بھی ووٹوں کے ترازو میں تولنے کی عادی ہوگئی ہے۔ ہم اس معترض سے سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا بریڈ فورڈ کے ۹۰؍ فی صد غیر مسلم عوام کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ ۱۰؍ فی صد مسلم عوام کا قتل عام کریں؟ کیا قانون اس صورت میں خاموش تماشائی بن کر رہ سکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پیغمبرِ اسلام (ﷺ)کے وقار پر حملہ یہاں کے دو مِلین مسلمانوں کے قتل کے مترادف ہے۔ ہماری جانیں اور ہمارا سب کچھ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرُو پر قربان ہے۔

  حکومتِ برطانیہ کیا کرسکتی ہے؟ برطانوی حکومت کے ذمے دار افراد یہ عذر پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ برطانوی قانون میں چرچ آف انگلینڈ کے علاوہ اور کسی کے تحفظ کی ضمانت نہیں دی گئی ہے، اِس لیے ہم کوئی قانونی اقدام نہیں کرسکتے۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ برطانیہ ہر روز نئی ضرورتوں کے مطابق اپنے قوانین میں تبدیلیاں کر رہا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں یہاں کی معاشی، ثقافتی اور تعلیمی ضروریات کو سامنے رکھ کر متعدد قوانین تبدیل کیے گئے ہیں۔ برطانیہ میں چرچ آف اِنگلینڈ کو اس وقت تحفظ فراہم کیا گیا تھا جب یہاں مذہبی اعتبار سے صرف چرچ آف اِنگلینڈ کی حکومت تھی۔ مگر اب یہاں اسلام دوسری بڑی طاقت ہے، اِس لیے برسرِ اقتدار جماعت ایک بِل کے ذریعے چرچ کو دیے گئے حقوق میں اسلام کو بھی شامل کرسکتی ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرسکتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کھلے بندوں اپنی نسلی عصبیتوں کا بھی اعتراف کر رہی ہے اور اس طرح وہ اس برطانوی جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہے جس نے دُنیا کے دوسرے ممالک کو جمہوریت اوراحترامِ حقوقِ انسانی کا راستہ دکھایا ہے۔
٭٭٭
٢ نومبر ٢٠٢٠ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے