نہ قابل تقلید ہیں=نہ لائق تنقید
پہلی جنگ آزادی:1857میں علمائے کرام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا,اور مختلف محاذ پر مسلمانوں کی قیادت بھی کی۔
علامہ فضل حق خیر آبادی اور مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی نے فوج کی قیادت وسپہ سالاری کا فریضہ بھی انجام دیا۔
آزادی ہند کے بعد دیوبندی جمعیۃ العلما حسب سابق کانگریس کی کاسہ لیسی میں مبتلا رہی اور علمائے اہل سنت و جماعت کی متحرک تنظیم یعنی جماعت رضائے مصطفے نے سیاسی امور کی جانب توجہ نہ کی۔
حضرت صدر الافاضل مراد آبادی اپنے اعوان وانصار کے ساتھ تا دم حیات میدان سیاست میں متحرک رہے,لیکن آزادی ہند کے چند ماہ بعد ہی ان کی وفات ہو گئی اور مسلمانان اہل سنت و جماعت ملکی سیاست سے لگ بھگ غافل ہو گئے۔
اسی عہد غفلت میں بعض علمائے اہل سنت و جماعت سے سیاسی امور میں عملی طور پر حصہ دار ہونے کی گزارش کی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لئے سیاست مصطفے علیہ التحیۃ والثنا کافی ہے۔
دراصل یہ نفوس عالیہ دنیا میں رہ کر بھی دنیا سے کنارہ کش تھے۔یہ حضرات آخرت کی جانب متوجہ تھے۔یاد آخرت ان کے لئے دنیاوی امور میں مشغولیت سے مانع تھی۔
یہ حضرات تنقید سے بالاتر ہیں,نیز ان کا یہ طریق کار قابل تقلید بھی نہیں۔جو اسی منزل کے بندگان الہی ہوں اور تارک الدنیا ہوں,وہ اپنے طریق کار پر ضرور عمل کریں,لیکن دیگر حضرات کو ضرور سیاسی امور کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔
کم ازکم جن کے ساتھ آپ کی نشست و برخاست اور میل ملاقات ہوتی ہے,چند لفظوں میں انہیں اس جانب متوجہ کرنے کی کوشش کریں اور ماحول سازی میں ہمارا تعاون کریں۔
واضح رہے کہ کسی بھی جمہوری ملک میں حقوق چھین کر لئے جاتے ہیں۔بیٹھے بٹھائے اگر جھولی میں کچھ ڈال دیا گیا تو وہ سیاسی بھیک ہے۔جو آپ کے حقوق سے بہت کم بھی ہے اور اس کے سبب بھیک دینے والی سیاسی پارٹی آپ پر احسان بھی جتائے گی اور آپ کا بلیک میل بھی کرے گی-
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:19:نومبر 2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں