کیا ہم فرقہ پرستوں کے مدد گار ہیں؟
اگر زہر قاتل کو شفا کی نیت سے کھائیں تو بھی ہلاک کرے گا۔ہمارے حسن نیت کے سبب زہر کی تاثیر نہیں بدل سکتی۔
اگر ہم یہ سوچ کر آگ میں کودیں گے کہ آگ ہمیں نہیں جلائے گی تو بھی آگ جلائے گی۔ہماری فکر کا کچھ اثر آگ پر نہیں پڑے گا۔
بھارتی مسلمانوں کا بھارت کی مول نواسی قوموں سے دور رہنا زہر قاتل کی طرح نقصان دہ اور آگ کے دریا میں کودنے کے مرادف ہے۔
برہمنی سماج مسلمانوں کو مول نواسی قوموں سے دور رکھنا چاہتا ہے,تاکہ موقع بہ موقع مول نواسی اقوام کے ذریعہ مسلمانوں کی نسل کشی جائے۔
تعجب اس بات پر ہے کہ قوم مسلم بھی مول نواسی قوموں کو حقیقی دشمن سمجھ کر ان سے بہت دور ہے۔
برہمنی نظام یہی چاہتا ہے کہ مسلمانوں اور مول نواسی قوموں میں دشمنی اور عداوت کی آگ ہمیشہ بھڑکتی رہے۔
اس نظریہ عداوت کو فروغ دینے میں نادانستہ اور لا شعوری طور پر مسلم دانشوران بھی فرقہ پرستوں کے دست و بازو اور معاون و مدگار بنے ہوئے ہیں۔
گویا کہ اہل بصیرت بھی زہر قاتل کو شفا کی نیت سے کھا رہے ہیں اور آگ کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ یہاں ہم سلامتی کے ساتھ رہیں گے۔
حالاں کہ ہمیں محض اپنے حسن نیت اور اپنی فکر صالح پر نظر نہیں رکھنی ہے,بلکہ اس سے مرتب ہونے والے نتائج پر غور کرنا ہے کہ نتیجہ ہمارے لئے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟
بھارتی مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے سنگھیوں کا قدیم پلان اب بہت مضبوط ہو چکا ہے۔1930 سے 1940 تک بھارتی سنگھیوں نے اسپین کی تاریخ ماضی کا گہرا مطالعہ کیا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اسپین سے مسلمانوں کا نام و نشان کیسے مٹایا گیا؟
اب دنیا بہت ترقی کر چکی ہے۔کسی قوم کو ہلاک کرنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں۔ذیل میں دو طریقوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
1-فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعہ کسی قوم کی نسل کشی:
بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا مشہور طریقہ یہ ہے کہ بھارت کی مول نواسی اقوام کو مسلمانوں کے خلاف ورغلا دیا جاتا ہے۔اس فرقہ وارانہ فساد میں مسلمان مریں یا پس ماندہ قومیں۔در اصل برہمنی نظریہ دونوں کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے۔
جب کسی گھر کا ذمہ دار فرد ہلاک ہو جاتا ہے تو نہ اس گھر کے بچے صحیح تعلیم حاصل کر پاتے ہیں,نہ ہی کوئی اچھا روزگار کر پاتے ہیں,کیوں کہ انہیں اپنے گھر کو چلانے کے لئے کسی بھی روزگار سے وابستہ ہونا پڑتا ہے,تاکہ اس کے گھر میں چولھا روشن ہو سکے اور گھر والوں کو در در کی ٹھوکر نہ کھانی پڑے۔
2-تکنیکی طور پر کسی قوم کی نسل کشی:
حکومت کی طرف سے چھوٹے بچوں کو مختلف قسم کے انجکشن لگائے جاتے ہیں۔اسی طرح بچوں کو بانجھ پن کا انجکشن بھی لگایا جا سکتا ہے۔اس طرح بغیر شور وغل کے نسلوں کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔
متعدد رپورٹ میں بانجھ پن کے انجکشن کا ذکر آ چکا ہے اور اس سازش کا پتہ لگ چکا ہے۔
دفاع کی صورتیں:
1-فرقہ وارانہ فسادات سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہی ہے کہ جن قوموں کو ہمارے اوپر پاگل کتوں کی طرح مسلط کر دیا جاتا ہے۔ان کی طرف ہم دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔
اپنی تحریر و تقریر اور عوامی اجلاس میں مول نواسی قوموں سے اظہار ہمدردی کریں۔میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ اپنی کمائی کا نصف حصہ مول نواسی قوموں پر نچھاور کر دیں,بلکہ سوال یہ ہے کہ زبانی طور پر ان سے اظہار ہمدردی میں حرج کیا ہے؟ اور خرچ کیا ہے؟
دراصل اس مرحلے میں سب سے بڑی رکاوٹ مدارس اسلامیہ کے فارغین کی حالات زمانہ سے نا آشنائی ہے۔وہ آج تک یہی سمجھتے ہیں کہ ہندو مسلم فسادات میں مول نواسی قوموں کا ہی اصل کردار ہوتا ہے,حالاں کہ یہ سو فی صد غلط ہے۔فسادات کے پیچھے برہمنی افکار و نظریات کارفرما ہوتے ہیں جو مسلسل شودر اقوام کو مسلمانوں کے خلاف تیار کرتے رہتے ہیں,جیسے آج مین اسٹریم میڈیا وہی کام کر رہا ہے۔
چوں کہ فارغین مدارس حقائق سے آشنا نہیں۔اس لئےاس باب میں ان کے افکار و نظریات قابل عمل نہیں,لیکن ان پر طعن نہیں کیا جا سکتا,کیوں کہ حالات سے بے خبری کے سبب ان سے خطا ہو رہی ہے۔
دوسری جانب ہمیں اس بات کا بھی افسوس ہے کہ بعض فارغین مدارس روشن خیال ہوئے بھی تو وہ حدود شرعیہ کو پھلانگ گئے۔
کسی قوم سے دوستی یا دشمنی کے اصول و قوانین اسلام میں بتائے گئے ہیں۔اسلام دین کامل ہے اور ہر مرحلے کے احکام بتائے گئے ہیں۔
2-اہل حکومت کے مظالم اور ان کی سازشوں سے بچنے کا طریقہ بھی وہی ہے کہ مول نواسی قوموں کے ساتھ مسلمانوں کا اتحاد ہو اور مول نواسی قوموں کی ذہن سازی کے لئے محنت و مشقت کی جائے تو جس طرح بہت سی ریاستوں میں برہمنی پارٹیوں کا عروج ختم ہوا اور دیگر قوموں کی پارٹیوں نے حکومتی کاروبار سنبھالا,اسی طرح مرکزی حکومت سے بھی برہمنی پارٹیاں بے دخل ہو سکتی ہیں۔
حاصل کلام یہ کہ ملک کے تحفظ کے لئے علما و دانشوران کو سادہ لوحی سے دست بردار ہو کر دشمنوں کی شاطرانہ چالوں کو سمجھنا ہو گا۔
دوسوال اور اس کے جوابات:
سوال:مول نواسی قومیں مسلمانوں کو ووٹ نہیں دیتیں,پھر ان لوگوں سے سیاسی اتحاد کرنے سے کیا فائدہ؟
جواب:اگر مول نواسی قومیں مسلمانوں کو ووٹ نہیں دیتی ہیں تو بہار کے حالیہ انتخاب میں پپو یادو کو بھی ووٹ نہیں ملا,حالاں کہ وہ بلا تفریق مذہب و ملت تمام غریبوں اور بے سہاروں کا مسیحا بنا ہوا تھا۔
بھیم آرمی کے چندر شیکھر آزاد کی پارٹی بھی کوئی سیٹ نہ جیت سکی,اور بام سیف کے وامن میشرام کی پارٹی بہوجن مکتی مورچہ کو بھی کہیں فتح یابی نہیں ملی۔
دراصل الیکشن کے موقع پر جیسی ذہن سازی کی جاتی ہے,لوگ ویسا ہی کرتے ہیں۔
الیکشن کے موقع پر حقائق کو درکنار کر کے جذبات کو بر انگیختہ کیا جاتا ہے اور دل فریب وعدے کئے جاتے ہیں۔اس طرح ووٹ دہندگان کو بے وقوف بنا کر ان کے ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جب ای وی ایم(EVM)میں تخریب کاری کا امکان ہے تو ووٹ ریکارڈ دیکھ کر یہ یقینی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ کون سی برادری کس کو ووٹ دیتی ہے,اور کس کو ووٹ نہیں دیتی ہے؟
سوال:فرقہ وارانہ فسادات کے موقع پر مول نواسی قومیں ہی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر میدان میں اترتی ہیں تو ان لوگوں پر بھروسہ کرنا ہی غلط ہے؟
جواب:مول نواسی قوموں کے جو لوگ پڑھ لکھ کر اس حقیقت سے آشنا ہو چکے ہیں کہ برہمنوں نے ان کے باپ دادا کو غلام بننا لیا تھا اور ساڑھے تین ہزار سال تک ان پر ظلم و ستم کرتے رہے ہیں,وہ بہت حد تک برہمنی سازشوں سے دور رہتے ہیں۔
اسی طرح جن علاقوں میں بام سیف اور ہھیم آرمی وغیرہ سماجی تحریکوں کے اچھے اثرات ہیں,وہاں حالات بدل چکے ہیں۔دیگر علاقوں میں لوگوں کو بیدار کرنے کی سخت ضرورت ہے,تاکہ سنگھیوں کے مظالم سے نجات مل سکے۔ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے سے کچھ کام نہیں ہوتا ہے۔
میرا اول و آخر یہی سوال ہے کہ عوامی اجلاس میں مول نواسی قوموں سے اظہار ہمدردی میں حرج کیا ہے؟ اور خرچ کیا ہے؟
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:25:نومبر 2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں