-----------------------------------------------------------
*🕯حضرت خواجہ عبید اللّٰه احرار رحمۃ اللّٰه علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:*
*اسم گرامی:* خواجہ عبید اللّٰه۔
*لقب:* ناصر الدین، احرار۔ ’’خواجۂ احرار ‘‘کے عظیم لقب سے معروف ہیں۔
*سلسلۂ نسب:* خواجہ عبید اللہ احرار بن محمود بن قطبِ وقت خواجہ شہاب الدین رحمۃ اللّٰه علیہ۔
آپ کا خاندانی تعلق عارف باللہ حضرت خواجہ محمد باقی بغدادی رحمتہ اللّٰہ علیہ کی اولاد سے ہے۔
والدہ ماجدہ کا تعلق عارف باللہ شیخ عمر یاغستانی رحمۃ اللّٰه علیہ کی اولاد امجاد سے ہے، اور مشہور بزرگ حضرت محمود شاشی رحمۃ اللّٰه علیہ کی دختر نیک اختر تھیں۔
*(تاریخ مشائخِ نقشبند؛ ص،237؛ از؛ مولانا صادق قصوری)*
*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت یاغستان مضافاتِ تاشقند (ازبکستان) میں ماہِ رمضان المبارک 806ھ مطابق 1404ء کو ہوئی۔
*بچپن میں آثارِ سعادت:* بچپن ہی سے آثارِ رشد و ہدایت اور انوارِ قبول و عنایت آپ کی پیشانی میں نمایاں تھے۔ ولادت کے بعد چالیس دن تک جو کہ ایامِ نِفاس ہیں، آپ نے اپنی والدہ کا دودھ نہ پیا۔ جب انہوں نے نفاس سے پاک ہوکر غسل کیا تو پینا شروع کر دیا۔ تین چار سال کی عمر میں اللہ جل شانہ کی معرفت کی باتیں کرکے سب کو حیران کر دیتےتھے۔ آپ کے جدِّ امجد خواجہ شہاب الدین رحمۃ اللّٰہ علیہ جو کہ قطبِ وقت تھے۔ ان کا جب وقتِ اخیر آیا تو اپنے پوتوں کو الوداع کہنے کے لیے بلایا۔ خواجۂ احرار اس وقت بہت چھوٹے تھے، جب جدِّ امجد کے حضور گئے تو وہ ان کو دیکھ کر تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اور پھرگود میں لے کر فرمایا :
’’کہ اس فرزند کے بارے میں مجھے بشارتِ نبوی ملی ہے کہ یہ نونہال مستقبل میں ایک جہان کا پیر و مرشد ہوگا۔اور اس سے شریعت و طریقت دونوں کو رونق حاصل ہوگی۔
(ایضا: 237)
*تحصیلِ علم:* آپ بچپن سے ہی عام بچوں سے مختلف تھے۔کھیل کھود سے کوئی شغف نہیں رکھتےتھے۔ آپ کے ماموں خواجہ ابراہیم رحمہ اللّٰه کو آپ کی تعلیم کا بہت خیال تھا۔ اس لیے وہ آپ کو تاشقند سے سمر قند لےگئے۔ چنانچہ سمر قند میں آپ اکثر مولانا نظام الدین رحمہ اللّٰه خلیفہ حضرت علاء الدین عطار قدس سرہ کی صحبت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کی تشریف آوری سے ایک روز قبل مولانا نے مراقبہ کے بعد نعرہ مارا۔ جب سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا مشرق کی طرف سے ایک شخص نمودار ہوا جس کا نام عبیداللہ احرار ہے۔ اُس نے تمام روئے زمین کو اپنی روحانیت میں لے لیا ہے۔ اور وہ عجیب بزرگ شخص ہے۔ سمرقند کے قیام میں ایک روز آپ مولانا کے ہاں سے نکلے تو ایک بزرگ نے پوچھا کہ یہ جوانِ رعنا کون ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ یہی’’خواجہ عبیداللہ احرار ہیں، عنقریب دنیا کے سلاطین ان کے در کے گدا ہوں گے‘‘۔
سمر قند ہی میں آپ حضرت سیّد قاسم تبریزی رحمۃ اللّٰه علیہ کی صحبت سے مشرف ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ وہاں سے بخارا کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک ہفتہ شیخ سراج الدین کلال پر مسی رحمہ اللّٰه خلیفہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کی صحبت میں رہے۔ بخارا میں پہنچ کر مولانا حسام الدین شاشی رحمہ اللّٰه کی زیارت کی جو سید امیر حمزہ بن سیّد امیر کلال قدس سرہما کے خلیفۂ اول تھے۔
حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللّٰہ علیہ کے خلیفہ خواجہ علاء الدین غجدوانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں بھی بہت دفعہ حاضر ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے خراسان کا سفر اختیار کیا اور مرو کے راستے ہرات میں آئے۔ ہرات میں آپ نے چار سال قیام کیا۔ اس عرصہ میں آپ اکثر سیّد قاسم تبریزی اور شیخ بہاء الدین عمر قدس سرہما کی صحبت میں رہے اور کبھی کبھی شیخ زین الدین خوافی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ خواجہ فضل اللہ ابو للیثی رحمہ اللّٰه (جو سمر قند کے اکابر علماء میں سے تھے) فرماتے تھے: کہ ہم خواجہ عبیداللہ احرار کے باطن کے کمال کو تو نہیں جانتے مگر اتنا جانتے ہیں کہ انہوں نےظاہری طور پر مروجہ نصاب سے بہت کم پڑھا ہے۔ لیکن اللہ جل شانہ نے ان کو ظاہری علوم میں بھی ایسا کمال عطاء فرمایا ہے کہ جب وہ تفسیرِ بیضاوی کی مشکل عبارات پر علماء کےسامنے اشکال پیش کرتے۔ تو سب علماء اس کےحل سے عاجز آجاتے۔
(ایضا: 237)
*بیعت و خلافت:* آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت یعقوب چرخی رحمۃ اللّٰه علیہ (خلیفہ خواجۂ خواجگان حضرت بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللّٰہ علیہ) کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔ حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:
جب آپ نے بیعت کےلئے ہاتھ بڑھایا۔ تو ان کی پیشانی مبارک پر کچھ سفیدی مشابہ برص تھی جو طبیعت کی نفرت کا موجب ہوتی ہے۔ اس لیے میری طبیعت اُن کے ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل نہ ہوئی۔ وہ میری کراہت کوسمجھ گئے اور جلدی اپنا ہاتھ ہٹالیا اور صورت تبدیل کرکے ایسی خوب صورت شکل اور شاندار لباس میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہوگیا۔ قریب تھا کہ بے خود ہوکر آپ سے لپٹ جاؤں۔ آپ نے دوسری دفعہ اپنا دستِ مبارک بڑھایا اور فرمایا کہ حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے جس نے تمہارا ہاتھ پکڑا اُس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔ خواجہ بہاء الدین کا ہاتھ پکڑ لو، میں نے بلا توقف اُن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حسبِ طریقہ حضراتِ خواجگان نقشبندیہ مجھے نفی و اثبات کے اذکار سکھائے اور فرمایا کہ جو کچھ ہمیں خواجہ نقشبند رحمۃ اللّٰہ علیہ سے پہنچا ہے یہی ہے اگر تم بطریقِ جذب طالبوں کی تربیت کرو تو تمہیں اختیار ہے، سلسلہ نقشبندیہ کی اشاعت میں کوشش کرنا اور کسی کا خوف مت کرنا۔ اہل لوگوں کی تربیت کرنا‘‘۔
حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بیعت کے ساتھ خلافت و اجازت سے نواز دیا گیا۔ وہاں پہلے سے جو درویش موجود تھے ان کو غیرت آئی کہ ہمیں عرصۂ دراز ہو چکا ہے کہ کبھی ایسا لطف نہیں جو اس نووارد پر کیا ہے۔
مولانا عبدالرحمن جامیؔ رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
’’کہ مولانا خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہے تو اسے خواجہ عبید اللہ احرار کی طرح آنا چاہئے کہ چراغ، تیل، اور بتی سب تیار ہے، صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے‘‘۔
(ایضا:239)
*سیرت و خصائص:* ناصر الاسلام والدین، شیخ الاسلام، قطب الوقت، سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے نیرِتاباں، سید الاحرار، عارف باللہ، عاشقِ رسول اللہ، صاحبِ معارفِ و اسرار، حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
آپ مادر زاد ولی کامل تھے۔خاندانی لحاظ سے بھی آپ کا تعلق ایک علمی و روحانی خانوادے سے تھا۔ لیکن آپ ہمارے زمانے کے اخلاف کی طرح ’’پدرم سلطان بود‘‘ کی طرح نہ تھے۔ بلکہ علم و عمل، تقویٰ و فضیلت کے اعلیٰ معیار پر فائز تھے۔ آپ کا لقب ’’احرار‘‘ ہے۔ اس لقب میں آپ کی بڑی منقبت ہے کیونکہ اہل اللہ کے نزدیک حر (واحد؛ احرار) اُسے کہتے ہیں، جو عبودیت کی حدود کو بدرجۂ کمال قائم کرے، اور ماسوی اللہ کی غلامی سے آزاد ہوجائے۔
بچپن ہی سے اہل اللہ سے سچی عقیدت تھی۔ کم سنی میں ہی مزاراتِ مشائخ پر حاضر ہوتے۔ جب سن بلوغ کو پہنچے تو تاشقند کے مزارات پر روزانہ حاضری دیتے۔ حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللّٰہ علیہ خواجہ یعقوب چرخی قدس سرہ کی خدمت سے رخصت ہوکر پھر ہرات میں آئے اور کم و بیش ایک سال وہاں رہے۔ انتیس سال کی عمر میں اپنے وطن کی طرف واپس آئے، اور تاشقند میں مقیم ہوکر اپنے معاش کےلئے زراعت کا کام شروع کیا اس کام میں اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت پیدا فرمائی، اور آپ کے ہاں مال و متاع، جانور و مویشی، اور اجناس وغیرہ کی فراوانی ہوگئی۔ یوں بظاہر آپ کی زندگی شاہانہ تھی، لیکن یہ سب کچھ درویشوں کی خدمت اور فقراء کے لئے تھا۔
مولانا عبدالرحمن جامیؔ رحمۃ اللّٰہ علیہ آپ کے ہم عصر اور نامور شاعر تھے۔ انہوں نے آپ کو پہلی دفعہ اس حالت میں دیکھا کہ آپ کی سواری جارہی تھی اور آپ کے جلوس میں خدام کی ایک جماعت تھی۔ یہ ظاہری شان و شوکت، اور مال و اسباب اور گھوڑے دیکھ کر مولانا جامیؔ کی شاعری والی حس بیدار ہوئی اور ان کے دلی جذبات اس مصرعے کی صورت میں زبان پر آئے۔
؏: نہ مرد است آں کہ دنیا دوست دارد۔
یعنی وہ مرد نہیں جو دنیا کو دوست رکھے۔
پھر جب مولانا جامی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ جامی تم نےصرف ایک مصرعہ کہا ہے، مکمل شعر نہیں کہا۔ دوسرا مصرعہ بھی کہو۔ مولانا آپ کی باطنی بصیرت دیکھ کر ششدر رہ گئے، اور خاموش رہے۔ چنانچہ حضرت نے خود ہی دوسرا مصرع بناتے ہوئے فرمایا کہ پورا شعر یوں ہونا چاہئے۔
؏: نہ مرد است آں کہ دنیا دوست دارد
اگر دارد برائے دوست دارد
پھر مولانا جامی رحمۃ اللّٰه علیہ آپ کے ایسے معتقد ہوئے کہ آپ کے ہی ہوکر رہ گئے۔ آپ کے زیرِ تربیت سلوک کی منازل طےکیں، اور آپ کی شان میں ’’تحفۃ الاحرار‘‘ کتاب لکھ کر عقیدت کا اظہار کیا۔
*(تاریخ مشائخِ نقشبندیہ؛ص؛320؛از پروفیسر عبدالرسول للہی)*
*سلسلہ نقشبندیہ کی اشاعت:* حضرت خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللّٰہ علیہ کی بدولت مختلف قبائل میں اسلام وسیع پیمانے پر پھیلا۔خاص طور پر ازبک قبائل نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ اسی طرح آپ کے ذریعے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی وسیع ترویج و اشاعت ہوئی۔ وسط ایشیاء کے قدیم شہر مرکز تھے۔ اس میں سمرقند، مرو، خیوا، تاشقند، بخارا، ہرات، کے شہر اہم روحانی مراکز تھے۔ اسی طرح مغرب میں آپ کے خلیفہ عارف باللہ شیخ عبداللہ سماؤ رحمۃ اللّٰه علیہ کے ذریعے مغرب میں اناطولیہ اور ترکی میں اشاعت۔یاد رہے کہ اناطولیہ بر اعظموں کے وسط میں واقع ہے۔ اس کے اثرات کوہِ قاف اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک پھیلے، اور امام شامل رحمہ اللّٰه جیسا عظیم مجاہد پیدا کیا۔
(امام مجاہد رحمہ اللّٰه سلسلہ نقشبندیہ کے شیخِ طریقت، اور اسم بامسمیّٰ تھے۔ وسط ایشیائی ریاستوں میں ان کا کردار ہندوستان، کے ٹیپو سلطان شہید، اور الجزائر کے عبدالقادر الجزائری جیسا تھا۔)
*اشاعتِ اسلام:* آپ کے عہد میں وسط ایشیا سیاسی انتشار کی لپیٹ میں تھا۔ امیر تیمور نے 1405ء کو وفات پائی، اور اس کے بعد اس کی اولاد کے باہمی اختلاف کی وجہ سے سلطنت میں انتشار پیدا ہوگیا، اور خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔یہی حال برصغیر کا تھا۔ مرکزی حکومت کمزور ہوچکی تھی۔امراء و حکام کی طرف سے رعایا پر بے پناہ ظلم ڈھایا جاتا۔عدل و انصاف، دین داری کے تصورات ناپید تھے۔ مزید مغرب یعنی اندلس میں عیسائی حکمرانوں نے 1492ء کو غرناطہ پر قبضہ کرکے انتہائی بربریت سے کام لیتے ہوئے مسلم تہذیب و تمدن کے نام و نشان تک مٹادئیے۔ اس وقت عالم اسلام کی حالت بعینہ اسی طرح تھی جیسے ہمارے زمانے اکیسویں صدی میں ہے۔ اُس وقت حکمران مطلق العنان آمر و جابر ہوتےتھے۔ کسی کو ان کے خلاف حق بات تک کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ ان کے درباری وزراء جان کی معافی مانگ کر شاہ سے بات کرتے تھے۔
ایسے ماحول میں صرف ایسی عظیم شخصیات تھیں، جن کے دلوں میں ماسوی اللہ کسی کا خوف کانہ ہوتا تھا۔ وہی ان کو للکارتے تھے، اور ان کے ظلم و جبر کی خوب خبر لیتے تھے۔حضرت امام حسین، حضرت امام اعظم، امام احمد بن حنبل، امام غزالی، شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ عبید اللہ احرار، امام شامل، مجدد الفِ ثانی، پیر پٹھان خواجہ تونسوی، علامہ فضلِ حق خیر آبادی، وغیرہ رحمۃ اللّٰه علیہم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ کریں، تو یہ حضرات صرف خانقاہوں کے خرقہ پوش صوفی ہی نہ تھے، بلکہ مردِ میدان اور حق کی آواز بھی تھے۔ ہمارے زمانے میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ عوام کے ذہن میں ’’غیرسیاسی دین‘‘ کی ایک نئی اصطلاح ڈال دی گئی ہے کہ اہل اللہ کا اربابِ اقتدار اور حکومت سےکوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ چاہے وہ حدود اللہ کو پامال کریں،حقوق العبادکی خلاف ورزی کریں، انسانیت کی تذلیل ہورہی ہو، عدل و انصاف کے ضابطےامیر و غریب کےالگ الگ ہوں، اللہﷻ کے دین؛ دینِ اسلام کے مقابلے میں لبرل ازم، سیکولر ازم کے قوانین ملک میں رائج ہوں۔ ان کے خلاف آواز نہ اٹھانا، نہ یہ تصوف ہے، اور نہ ہی شریعت ہے۔
خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اگر ہم محض پیری مریدی کرتے، تو اس زمانے میں کسی اور پیر کو کوئی مرید نہ ملتا۔لیکن ہمارے ذمے ایک اور کام لگایا گیا ہے کہ ظالم کے شر سے مسلمانوں کی حفاظت کریں۔ اس مقصد کے لئے بادشاہوں سے تعلق پیدا کرنا اور ان کے نفوس کو مسخر کرنا، اور اس طریقے سے مسلمانوں کے مقاصد پورا کرنا ضروری ہے‘‘۔
*(تاریخ مشائخِ نقشبندیہ: 302)*
*نفاذِ اسلام کےلئے عملی کوشش:* مولانا ناصرالدین اتراری رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں:
حضرت خواجہ عبیداللہ رحمۃ اللّٰه علیہ سمرقند تشریف لےگئے، جو اس وقت تیموری حکمرانوں کا دارالخلافہ تھا۔ تاکہ حاکم سے ملاقات کرکے رعایا پر ظلم و جبر اور شریعت کی پاسدرای پر بات کریں۔ اس وقت امیر تیمور کا پڑپوتا مرزا عبداللہ حاکم تھا۔حاکمِ کے عہدیداران میں سے ایک سے آپ کی ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا ہم تمھارے سلطان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ اگر تمھارے ذریعے سے ایسا ہو جائے تو اچھا ہے۔ اس نے ایک درویش سمجھتے ہوئے لاپرواہی سے جواب دیا کہ ہمارا حاکم ایک لاپرواہ نوجوان ہے۔ اس سے ملاقات مشکل ہے، اور ویسے بھی درویشوں کو بادشاہ سے ملاقاتوں سے کیا مطلب؟ آپ کو اس کے اس بےتکے سے جواب سے جلال آگیا۔
فرمایا: اگر تمھارے مرزا کو پرواہ نہیں تو اس کی جگہ دوسرا حاکم لائیں گے جسے پرواہ ہوگی۔ وہیں سے واپس تاشقند آگئے۔ ایک دیوار پر اس کا نام لکھ کر مٹا دیا۔ ایک ہفتے کے بعد وہ مرگیا۔ اس کی جگہ ابوسعید مرزا تخت نشین ہوا، جو حضرت کا معتقد اور شریعت کا پاسدار تھا۔ یہ 855ھ کا واقعہ ہے۔
*(تاریخ مشائخِ نقشبندیہ: 306)*
*تاریخِ وصال:* 29؍ ربیع الاول 895ھ مطابق 21؍ فروری 1490ء کو شبِ ہفتہ، مغرب اور عشاء کے مابین واصل باللہ ہوئے۔مزار مبارک سمرقند میں مرجعِ خلائق ہے۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں