سیکولر پارٹیوں کی بدلتی سیاست اور بھارتی مسلمان

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

سیکولر پارٹیوں کی بدلتی سیاست اور بھارتی مسلمان

ہر سال 06:دسمبر آتا ہے۔ایک بار 1992 کا چھ دسمبر آیا کہ بابری مسجد کو دہشت گردوں نے شہید کر دیا۔اسی دن سے بھارتی مسلمان چھ دسمبر کو یوم سیاہ ماننے لگے۔

بابری مسجد کی شہادت کے باوجود وہاں پر مسجد کے ٹوٹے پھوٹے نشانات موجود تھے جو مسجد کی یاد دلاتے تھے۔2020 میں پہلا چھ دسمبر آیا ہے کہ وہاں مسجد کے نشانات بھی ختم ہو چکے ہیں اور رام مندر تعمیر ہو چکا ہے۔

مسلمانوں نے بابری مسجد کے تحفظ کے لئے سر توڑ کوششیں کیں,لیکن دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے سپریم کورٹ سے بھی انہیں مایوسی ہاتھ لگی۔

یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ مسلمانوں نے اس جانب توجہ نہ دی۔مسلمانوں کی ہر دل عزیز پارٹی کانگریس کی حکومت میں سب کچھ ہوا۔جب بابری مسجد شہید کی گئی تھی,اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی۔نرسمہا راؤ وزیر اعظم تھا,گرچہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت تھی۔

22/23دسمبر 1949کی درمیانی رات کو جب بابری مسجد میں مورتی رکھی گئی تھی,تب مرکز میں بھی کانگریس کی حکومت تھی اور یوپی میں بھی کانگریسی حکومت تھی۔

دراصل مسلمانوں نے سیاست دانوں کے دل موہ لینے والے کھوکھلے جملوں کو سنا اور اس کو حقیقت سمجھ بیٹھے۔

حالاں کہ سیاست ونیتا گیری کے ساتھ صداقت وسچائی کا رشتہ بہت کمزور رہا ہے۔

آج بھی ہمیں سیاست دانوں پر کم بھروسہ کرنا چاہئے۔جب سے بی جے پی نے ہندتو کا آتش کدہ روشن کیا ہے,ہر سیکولر پارٹی نے مسلمانوں سے دوری بنانی شروع کر دی ہے اور سافٹ ہندتو کا زنار باندھ لیا ہے۔

موجودہ صورت حال یہ ہے کہ سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیاں دو گروپ میں منقسم ہیں۔بعض سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کا نام لینے سے بھی ڈرتی ہیں کہ کہیں ہندو ووٹ ہم سے بکھر نہ جائے۔اس کی واضح مثال عام آدمی پارٹی ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ سے تخت حکومت تک پہنچتی رہی ہے اور اب وہ کسی موقع پر مسلمانوں کا نام بھی نہیں لیتی ہے۔دہلی فساد:فروری2020 کے موقع پر دہلی کی کیجریوال حکومت بالکل تماشائی بنی رہی۔مدد کی بات تو بہت دور ہے,مسلمانوں کی حمایت میں کچھ زبانی جمع خرچ سے بھی پرہیز کرتی رہی۔ایسی پارٹی کی فتح یابی کے لئے مسلمانوں کو سر دھڑ کی بازی لگانے کی کیا ضرورت ہے؟

بہت سی سیکولر پارٹیاں ابھی ووٹ بٹورنے کے لئے مسلمانوں کے ساتھ ظاہری ہمدردی دکھلاتی ہیں,لیکن ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ یہ سیکولر پارٹیاں اپنے ہندو ووٹ بینک کے تحفظ کے لئے فرقہ پرست پارٹیوں کی طرح مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھائیں گی,تاکہ ان کا ہندو ووٹ بینک سلامت رہے۔

ہندو ووٹ بینک کا حال یہ ہے کہ ہندو کہلانے والوں میں جو آرین قومیں ہیں یعنی برہمن,راجپوت اور بنیا,یہ تینوں قومیں فرقہ پرست پارٹیوں کی حامی ہیں اور اسی کو ووٹ دیتی ہیں۔ان تینوں اقوام کے بہت کم ووٹ دوسری پارٹیوں کو جاتے ہیں,چاہے دوسری پارٹیاں جس قدر ہندتو دکھلائے۔آرین قومیں اب ہارڈ ہندتو کو پسند کرتی ہیں۔سافٹ ہندتو سے دستبردار ہو چکی ہںں۔

ہندو کہلانے والی مول نواسی قوموں کے ووٹ اپنی برادری کی پارٹیوں کو جاتے ہیں,یا فرقہ پرست پارٹیوں کو چلے جاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک بھر میں ہندتو کا زہر گھول دیا گیا ہے۔مول نواسی قوموں کی ایک بڑی تعداد بھی فرقہ پرستی کے نشہ میں مدہوش ہو چکی ہے۔

سیکولر پارٹیوں کو اپنا وجود بچانا ہے تو ہندو کہلانے والوں کو سیکولر بنانا ہو گا۔مسلمان ہمیشہ سیکولر ہی رہے ہیں۔جو کانگریس یا دیگر سیکولر کے ساتھ ہیں,وہ بھی سیکولر ہیں اور جو مسلمان بیرسٹر اویسی یا مسلم پارٹیوں کے ساتھ ہیں,وہ بھی سیکولر ہیں۔

مسلمانوں کو بھی اپنی قوت مضبوط کرنے کا حق ہے۔اپنی سیاسی پارٹی کو قوت فراہم کرنا بھارتی مسلمانوں کے لئے بہت لازم ہے۔سیکولر پارٹیوں کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ عام آدمی پارٹی اور کیجریوال حکومت کی طرح مسلمانوں سے منہ نہیں پھیرے گی۔

سیکولر پارٹیاں مسلم ووٹ بینک کو بچانے کی جگہ اپنا ہندو ووٹ بینک بچائیں۔ہندو ووٹرس فرقہ پرستوں کو ووٹ دیتے ہیں اور سیکولر پارٹیاں ہار جاتی ہیں۔

سیکولر پارٹیاں عام طور پر مسلمانوں پر الزام لگاتی ہیں کہ مسلمانوں نے ہمیں کم ووٹ دیا۔وہ ہندو ووٹروں پر کیوں الزام عائد نہیں کرتیں کہ ہندؤں نے ہمیں کم ووٹ دیا ہے۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی سیاسی پارٹیوں کو فروغ دینے کی کوشش کرے۔آج یا کل دیگر سیکولر پارٹیاں بھی عام آدمی پارٹی کی طرح ہو سکتی ہیں۔

نہ دل بدلنے میں وقت لگتا ہے,نہ دل بدلنے میں وقت لگتا ہے۔مسلمان اپنے مستقبل پر نظر رکھیں۔یہ تمام سیکولر پارٹیاں برادریانہ پارٹیاں ہیں۔یہ محض اپنی برادری کے لئے کام کرتی ہیں۔مسلمانوں کو خوش کرنے کے واسطے افطار پارٹی کر دیتی ہیں اور عید و بقرعید کی مبارک بادی۔
سیکولر پارٹیاں حکومتی محکمہ جات اور حکومتی ملازمتوں سے مسلمانوں کو دور رکھنے کی بھرپور اور منظم کوشش کرتی ہیں۔ 

مسلم سیاسی پارٹیاں, دلت عوام اور چھوٹی سیاسی پارٹیوں کو اپنے قریب کرنے کی کوشش کریں۔بڑی پارٹیوں سے اتحاد کا خیال ہی غلط ہے۔بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگل لیتی ہیں۔

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:06:دسمبر 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے