عہد ماضی کی تکفیر کلامی کا حکم ‏ ‏/ ‏از ‏قلم ‏؛ ‏طارق ‏انور ‏مصباحی

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

عہد ماضی کی تکفیر کلامی کا حکم 

سوال: ایک شبہہ یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد کے مدعیان نبوت کو کافر قرار دیا اور آج تک تمام مومنین ان مدعیان نبوت کوکافر مانتے ہیں تواس کا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ حدیث نبوی میں حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی سنت کی پیروی کی حکم آیا ہے،اسی حدیث شریف کی روشنی میں ان کے فتاویٰ کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔

جواب:اس شبہہ کا سبب یہ ہے کہ ہمارے پیش کردہ دلائل پر غور نہیں کیا گیا۔اصل قانون یہ ہے کہ جب کفر کلامی کا صحیح حکم کسی پر نافذکیا گیا تو اس کی مخالفت کرنے والا کافر ہے۔

 فتویٰ کفر کے صحیح ہونے کی علامت یہ ہے کہ اہل حق اس سے اتفاق کریں گے۔غیر معصومین سے صدو ر خطا کا امکان توضرورہے،لیکن قرناً بعد قرن تمام امت مسلمہ کا اس امر پر اتفاق اس کے صحیح ہونے کی روشن دلیل ہے۔خطا پرکسی ایک عہد میں بھی امت کا اجماع نہیں ہوتا۔

مندرجہ ذیل عبارتوں پر غور کیا جائے،اس سے واضح ہوجائے گا کہ کفر کلامی کے صحیح فتویٰ کے بعد اختلاف کی گنجائش نہیں۔

قال القاضی:(وَقَد اَحرَقَ علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ مَن اِدَّعٰی لَہُ الاِلٰہِیَّۃَ-وقد قتل عبد الملک بن مروان الحارث المتنبی وَصَلَبَہ-وَ فَعَلَ ذلکَ غیر واحدٍ من الخلفاء والملوک باشباہہم-وَاَجمَعَ علماء وقتہم علٰی صواب فعلہم-وَالمُخَالِفُ فِی ذٰلِکَ مِن کُفرِہِم کَافِرٌ)
(کتاب الشفا جلددوم:ص297)

توضیح:حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے الوہیت مر تضوی کے قائلین کو مرتد قرار دے کر انہیں آگ میں جلادیا،اسی طرح دیگر سلاطین اسلام نے مرتدین کو قتل وہلاک کیا۔ اس عہدکے علما نے اس سزا کو اور اس تکفیر کو صحیح قرار دیا،اور اس تکفیر کے منکر کو کافر قرار دیا،کیوں کہ وہاں کسی ضروری دینی کا قطعی انکار تھا۔

ان لوگوں کی تکفیر کے انکار مطلب یہی ہے کہ تکفیر کا منکر اس ضروری دینی کو ضروری دینی نہیں مانتا،ورنہ ضرور اس ملزم کو کافر مانتا۔

عہد حاضر میں مسلک دیوبندکے عناصراربعہ کے متبعین کی کثرت دیکھ کر بعض مذبذبین طواغیت اربعہ کی تکفیر کا انکار کرنا چاہتے ہیں اوراس انکار کے لیے دلائل وتاویلات کے متلاشی ہیں۔اللہ تعالیٰ ایسے مذبذبین سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے:آمین

قال الخفاجی:((واجمع علماء وقتہم علٰی صواب فعلہم)ای تصویبہ اَو ہو من اضافۃ الصفۃ للموصوف-وذلک لکذبہم عَلَی اللّٰہ بِاَنَّہ نَبَّأہُم وتکذیب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی-انہ خاتم الرسل-وَاَنَّہ لَا نبی بعدہ(و)اَجمَعُوا اَیضًا عَلٰی(اَنَّ المُخَالِفَ فِی ذٰلِکَ)اَی تَکفِیرِہِم بِمَا إدَّعُوہُ(مِن کُفرِہِم)ہومفعول المخالفِ اَی مَن خَالَفَ مَذہَبَہُم فی تکفیرہم فَقَالَ:لَا یُکَفَّرُونَ(کَافِرٌ)لانہ رضی بِکُفرِہِم وَتَکذِیبِہِم لِلّٰہِ وَرَسُولِہ)

(نسیم الریاض جلدچہارم:ص536-دارالکتاب العربی بیروت)

توضیح:مذکورہ عبارت میں صراحت ہے کہ جو اس تکفیر کا انکار کرے,وہ کافر ہے۔

قال الملا علی القاری:((والمخالف فی ذلک)الفعل(مِن کُفرِہِم) اَی مِن جہتہ (کَافِرٌ) لِجَحدِہ کُفرَہُم)

(شرح الشفا للقاری جلدچہارم: ص536-دارالکتاب العربی بیروت)

قال المحشی علی محمد البجاوی المصری:(من خالف مکفرہم فی تکفیرہم، فقال:لا یکفرون،ہذا المخالف کافر،لانہ رضی بکفرہم وتکذیبہم للّٰہ ورسولہ)

 (حاشیۃ الشفا: ص1091-دارالکتاب العربی بیروت)

توضیح:شیرخداحضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان لوگوں کو کافر قراردیا جو آپ کو معبودمانتے تھے، اور آپ نے ان لوگوں کوجلادیا۔اسی طرح عہد ماضی میں سلاطین اسلام نے جھوٹے دعویداران نبوت کو قتل کیا، کیوں کہ وہ دعویٰ نبوت ودیگرجرائم کے سبب کافر ہوچکے تھے۔ 

اس زمانے کے علمانے بھی ان کوکافر مانا۔اب اگر کوئی ان کے کفرکا انکار کرے تووہ خود کافر ہے،کیوں کہ کافر کوکافر نہ ماننا خود کفر ہے۔

اس زمانے کے علمانے بھی اس کفر پر اتفاق کیا تولامحالہ یہ کفر کلامی ہے،کیوں کہ کفر فقہی میں متکلمین کا لفظی اختلاف ہوتا ہے۔مذکورہ بالاعبارتوں سے واضح ہوگیا کہ کافر کلامی کے کفر کا انکار کرنے والا کافرہے۔

ان لوگوں کے کفریہ کلمات تواتر کے ساتھ منقول ہوکر ہم تک نہیں پہنچے،لیکن ان تمام کو ہم آج بھی مرتد مانتے ہیں، جن کو عہد ماضی میں مرتد تسلیم کرلیا گیا۔اب اگر کوئی کہے کہ ان کا کفریہ قول تواتر کے ساتھ ہمیں نہیں مل سکا تو ہم کافر نہیں مانیں گے تو ایسا قائل خود ہی کافر ہوگا۔

تمام جھوٹے مدعیان نبوت کے اقوال تواتر کے ساتھ منقول نہیں۔ عہد صدیقی میں نبوت مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، سجاج بنت حارث اورطلیحہ بن خویلد نے نبوت کادعویٰ کیا۔ ان میں سے او ل الذکر تینوں کے بارے میں روایت ہے کہ پہلے بھی مومن نہیں تھے۔

 ان چاروں میں سے صرف طلیحہ بن خویلد اسدی پہلے مسلمان تھے، وصال نبوی کے بعد انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طلیحہ بن خویلد اسدی سے جنگ فرمائی۔یہ شکست کھا کر ملک شام چلے گئے۔ بعد میں ایمان لے آئے۔ جس وقت ان کو مرتد قرار دیا گیا توتمام صحابہ کرام نے مرتد تسلیم کیا،اوران سے جنگ فرمائی۔ 

ان کی زندگی کا جو حصہ ارتداد میں گزرا،ہم آج بھی ان کی زندگی کے اس حصے کو ارتداد سے متصف مانتے ہیں،لیکن ان کا کفریہ کلام تو اترکے ساتھ مروی نہیں۔اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چوں کہ ان کا کفریہ قول تواتر سے مروی نہیں،اس لیے ہم ارتداد کی مدت میں بھی انہیں مسلمان مانتے ہیں۔

عہد صدیقی کے ان چاروں مدعیان نبوت کے پیروکاروں میں سے بہت سے لوگ پہلے مسلمان تھے،پھر وہ لوگ ان لوگوں کی پیروی اور ان کی نبوت کو تسلیم کرنے کے سبب مرتد قرار پائے۔حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے ان سے جنگ فرمائی۔

آج بھی امت مسلمہ ان مرتدین کو کافر ومرتدمانتی ہے،اور ان میں جولوگ تائب ہو کردین اسلام سے وابستہ ہوگئے،ان کو مومن تسلیم کیا جاتا ہے۔
 
مذکورہ بالا حقائق سے واضح ہوگیا کہ جس پر کفر کلامی کا صحیح حکم نافذکیا گیا،اسے کافر کلامی ماننا ہے۔خواہ عہد مابعد کے لوگوں کو اس کافر کلامی کا کفریہ قول تواتر کے ساتھ ملے یانہ ملے۔دراصل ہرایک کوکافرکلامی کے کفر کی ذاتی تحقیق کے بعد اس کو کافر ماننے کا نظریہ غلط ہے۔خلیل بجنوری نے اسے ایجاد کیا ہے۔بعض علما لاشعوری طورپر اس سے متاثر ہوگئے۔ 

بعض لوگ کہتے ہیں کہ کفر کلامی کے صحیح فتویٰ کے بعد بھی کسی مفتی کو کلام،تکلم یا متکلم میں شبہہ ہوجائے تو وہ اس کے کفر کا انکار کرے گا اور اس کو کافر نہیں سمجھے گا۔
ان سے عرض ہے کہ کتاب الشفا وغیر ہ میں عہد ماضی کے بہت سے مرتدین کا ذکر ہے،جن پر کفر کلامی کا حکم عائد ہوا،پھر ان میں سے بہت سے لوگوں کو بادشاہ اسلام کے حکم پر قتل کیا گیا۔ان مرتدین کے اقوال تواترکے ساتھ مروی نہیں ہیں،لیکن امت مسلمہ ان کو کافر مانتی ہے۔آج تک کسی نے انکار نہیں کیا۔

حدیث مصطفوی میں بیان کردہ تیس جھوٹے دعویداران نبوت میں سے قریباً دودرجن مدعیان نبوت کا ظہور ہوچکا۔ان میں سے بہت سے لوگ پہلے مومن تھے،پھر دعوی نبوت کے سبب مرتد قرار پائے۔ان تمام کے کفریہ اقوال تواتر کے ساتھ مروی نہیں،لیکن تمام عوام وخواص ان مدعیان نبوت کومرتدمانتے ہیں۔ کوئی مفتی یا محقق آج تک یہ نہیں کہا کہ ہم ان مرتدین کے کو مرتد نہیں مانتے۔
بعض لوگ قاعدۂ کلیہ:من شک:الخ کی غلط تاویل کرتے ہیں۔من شک:الخ کی باطل تاویلات کا رد ”البرکات النبویۃ فی الاحکام الشرعیہ“رسالہ دہم:باب سوم:فصل دوم میں ہے۔

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:17:جنوری 2021
٭٭٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے