فتاویٰ شارح بخاری میں تضاد؟

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

فتاویٰ شارح بخاری میں تضاد؟

سوال:فتاویٰ شارح بخاری کے بعض فتاویٰ میں تضادکا شبہہ ہوتا ہے۔

دوفتویٰ کی ضروری عبارتیں اورسوالات درج ذیل ہیں۔

فتویٰ اول:

مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص خود اپنی زبان سے دو آدمی کے سامنے کہا کہ میں دیوبند کا ماننے والا ہوں۔جب ان دو آدمی کے سامنے اس سے پوچھا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ میں غصہ سے کہہ دیا ہوں،ورنہ میں سنی ہوں،مگر توبہ کرنے کو کہا جاتا ہے تو انکار کرتا ہے۔مذکورہ بالا شخص پر شریعت اسلامیہ کیا حکم دیتی ہے؟شرعی دلائل سے نواز یں۔

الجواب:جس نے یہ کہا کہ میں دیوبند کا ماننے والا ہوں،وہ اگر دیوبندی بھی نہیں تھا تو اس کہنے کی وجہ سے دیوبندی ہوگیا۔اس کا یہ کہنا کہ میں نے غصہ میں یہ کہا ہے،اس کو دیوبندی ہونے سے بچائے گا نہیں۔یہ اس کا جھوٹا بہانہ ہے،پھر جب یہ اس کفری قو ل سے توبہ کرنے سے انکارکرتا ہے تو یہ بھی دلیل ہے کہ واقعی وہ دیوبندی ہے۔اگر وہ سنی ہوتا تو ضرور توبہ کرلیتا“۔(فتاویٰ شارح بخاری:جلددوم:ص378-377-دائرۃ البرکات گھوسی)


فتویٰ دوم:

”رہ گئے وہ لوگ جو ان چاروں کے کفریات میں سے کسی ایک پر مطلع نہیں۔ انہیں قطعی یقینی اطلاع نہیں۔وہ صرف دیوبندی مولویوں کی ظاہری اسلامی صورت،ان کی نماز، ان کے روزوں کو دیکھ کر انہیں عالم، مولانا جانتے ہیں۔ان کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں۔ معمولات اہل سنت کو بدعت وحرام جانتے ہیں۔وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اور ان کا یہ حکم نہیں۔اگر چہ وہ اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں،اور دوسرے لوگ بھی ان کو دیوبندی کہتے ہوں“۔(فتاویٰ شار ح بخاری:جلددوم:ص 389-دائرۃ البرکات گھوسی)

”اس لیے ایسا شخص جو اپنے آپ کو دیوبندی کہتا ہو، لوگ بھی اس کو دیوبندی کہتے ہوں، وہ ان چاروں علمائے دیوبندکو اپنا مقتدا وپیشوا بھی مانتا ہو،حتی کہ اہل سنت کو بدعتی بھی کہتا ہو،مگر ان چاروں کے مذکورہ بالا کفریات پر مطلع نہیں تووہ حقیقت میں دیوبندی نہیں۔ اس کا یہ حکم نہیں کہ یہ شخص کافر ہے،یا اس کی نماز جناز ہ پڑھنی کفر ہے:واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ شارح بخاری:جلددوم ص 389-دائرۃ البرکات گھوسی)


 سوالات:

سوال اول:

فتویٰ اول میں ہے کہ جو کہے کہ میں دیوبند کا ماننے والا ہوں،وہ اگر دیوبندی نہیں تھا تو بھی اس کہنے کی وجہ سے دیوبندی ہوگیا۔وہ عذ ر بھی پیش کیا کہ میں نے غصہ میں ایسا کہہ دیا ہے،اور اقرار بھی کرتا ہے کہ میں سنی ہوں،پھر بھی اس کو دیوبندی قرار دیا گیا۔ محض اتنا کہنے کو کفری قول قرار دیا گیا کہ میں دیوبندی ہوں۔

فتویٰ دوم کے دو اقتباس نقل کیے گئے ہیں۔ان میں ہے کہ کوئی شخص اپنے دیوبندی ہونے کا اقرار کرتا ہے،دیوبندیوں کے ساتھ رہتا ہے،ان کے مولویوں کو اپنا پیشوا بھی مانتا ہے،معمولات اہل سنت کو بدعت وحرام بھی کہتا ہے۔اہل سنت کو بدعتی بھی کہتا ہے، پھر بھی وہ دیوبندی نہیں۔

سوال دوم:

فتویٰ اول میں محض خود کو دیوبندی کہنا کفری قول ہوگیا،جب کہ وہ اپنے سنی ہونے کا اقرار بھی کرتا ہے اورعذر پیش کرتا ہے کہ ہم نے غصہ میں ایسا کہہ دیا، اور فتویٰ دوم میں ہے کہ جوسنیوں کو بدعتی،معمولات اہل سنت کو بدعت وحرام کہتا ہو،دیوبندیوں کے ساتھ رہتا ہو، دیوبندی مولویوں کو اپنا پیشوا مانتا ہو، لوگ اس کو دیوبندی بھی سمجھتے ہوں،پھر بھی وہ کافرنہیں، اور فتویٰ اول میں ملزم کے قول کو کفری قول بتادیا گیا،جب کہ وہ دیوبندی ہونے کا منکر بھی ہے؟ خود کو وہ سنی بتارہا ہے،گرچہ کبھی اس نے دیوبندیت کا اقرار کیاتھا۔


سوال سوم:

فتویٰ اول میں اقرار دیوبندیت مع اقرارسنیت پر حکم دیوبندیت ہے،اور فتویٰ دوم میں اقرار دیوبندیت بلااقرارسنیت پر بھی دیوبندیت کی نفی ہے۔اس سے بڑا تضاد کیا ہوسکتا ہے؟

سوال چہارم:

جب ہر دیوبندی کافر نہیں ہے تو مفتیان کرام یہ کیوں لکھتے ہیں کہ دیوبندی کی نماز جنازہ پڑھنی کفر ہے اور نمازجنازہ پڑھنے والے پرتوبہ، تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم ہے؟


جوابات:

ہر جواب سے قبل سوال کو نقل کر دیا گیا ہے،تاکہ قارئین کوجواب سمجھنے میں آسانی ہو۔

سوال اول:

فتویٰ اول میں ہے کہ جو کہے کہ میں دیوبند کا ماننے والا ہوں،وہ اگر دیوبندی نہیں تھا تو بھی اس کہنے کی وجہ سے دیوبندی ہوگیا۔وہ عذ ر بھی پیش کیا کہ میں نے غصہ میں ایسا کہہ دیا ہے،اور اقرار بھی کرتا ہے کہ میں سنی ہوں،پھر بھی اس کو دیوبندی قرار دیا گیا۔ محض اتنا کہنے کو کفری قول قرار دیا گیا کہ میں دیوبندی ہوں۔

فتویٰ دوم کے دو اقتباس نقل کیے گئے ہیں۔ان میں ہے کہ کوئی شخص اپنے دیوبندی ہونے کا اقرار کرتا ہے،دیوبندیوں کے ساتھ رہتا ہے،ان کے مولویوں کو اپنا پیشوا بھی مانتا ہے،معمولات اہل سنت کو بدعت وحرام بھی کہتا ہے۔اہل سنت کو بدعتی بھی کہتا ہے، پھر بھی وہ دیوبندی نہیں۔

جواب:

فتویٰ دوم میں مرتددیوبندی(کافر کلامی دیوبندی)کی بحث ہے کہ جو  دیوبندی،دیوبندیوں کے کفریہ عقائد پر مطلع نہ ہو،وہ کافر کلامی نہیں اور اس کی نماز جنازہ پڑھنی کفر نہیں۔حقیقت میں دیوبندی نہ ہونے کا یہی مفہوم شارح بخاری نے بیان فرمایا:

”مگر ان چاروں کے مذکورہ بالا کفریات پر مطلع نہیں تووہ حقیقت میں دیوبندی نہیں۔ اس کا یہ حکم نہیں کہ یہ شخص کافر ہے،یا اس کی نماز جناز ہ پڑھنی کفر ہے:واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ شارح بخاری:جلددوم ص 389-دائرۃ البرکات گھوسی)

  اب وہ کافر کلامی نہیں تو کافر فقہی ہے یا نہیں؟گمراہ ہے یانہیں؟فتویٰ دوم میں اس کی بحث نہیں۔عہد حاضر میں معمولات اہل سنت کوبدعت وحرام کہنا شعار وہابیت وعلامت دیوبندیت ہے،اور یہ بات ظاہر ہے کہ کسی مذہب کے شعارکو اپنا نے کے سبب مرتکب کاشمار اسی جماعت میں ہوگا۔اس طرح سے وہ تمام دیوبندی جودیابنہ کے کفریہ عقائد پر مطلع نہ بھی ہوں تو بھی وہ گمراہ شمار کیے جائیں گے،اور اسی جماعت کے افرادمیں ان کا شمار ہوگا،گر چہ وہ کافر کلامی نہ ہوں۔

سوال دوم:

فتویٰ اول میں محض خود کو دیوبندی کہنا کفری قول ہوگیا،جب کہ وہ اپنے سنی ہونے کا اقرار بھی کرتا ہے اورعذر پیش کرتا ہے کہ ہم نے غصہ میں ایسا کہہ دیا، اور فتویٰ دوم میں ہے کہ جوسنیوں کو بدعتی،معمولات اہل سنت کو بدعت وحرام کہتا ہو،دیوبندیوں کے ساتھ رہتا ہو، دیوبندی مولویوں کو اپنا پیشوا مانتا ہو، لوگ اس کو دیوبندی بھی سمجھتے ہوں،پھر بھی وہ کافرنہیں، اور فتویٰ اول میں ملزم کے قول کو کفری قول بتادیا گیا،جب کہ وہ دیوبندی ہونے کا منکر بھی ہے؟ خود کو وہ سنی بتارہا ہے،گرچہ کبھی اس نے دیوبندیت کا اقرار کیاتھا۔

جواب:

یہاں تین صورتیں ہیں:
(1)اپنے لیے کافر جماعت میں ہونے کا اقرارکرنے پر کفر کا حکم عائد ہوتاہے۔
(2)اپنے لیے گمراہ جماعت میں ہونے کا اقرار کرنے پر گمرہی کاحکم عائدہوتاہے۔
(3)اپنے لیے مرتد جماعت میں ہونے کا اقرار کرنے پرکفرکا حکم ہونا چاہئے،لیکن محض اس اقرار کے سبب اس پر حکم کفر عائد نہیں کیا جاتاہے۔ 

صورت اول وصورت دوم میں حکم ضلالت اور حکم کفر عائد ہوتا ہے اور صورت سوم میں احتمال کے سبب حکم عائد نہیں ہوتا ہے،بلکہ اس کوگمراہ قراردیا جاتا ہے، اورکفر وعدم کفر کا فیصلہ اس کے اعتقادات کی تفتیش کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔

صورت اول:

چوں کہ کافر جماعتیں اسلام سے بالکل الگ ہیں۔ہر عالم وجاہل کو معلوم ہے کہ ان جماعتوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں،پس جس نے مجوسی ہونے کا اقرار کیا،اس نے اسلام سے جدہونے اور ترک اسلام کااقرار کیا۔ترک اسلام کا عزم ہی کفر ہے۔اقرار اس سے سخت ترہے۔اگرچہ لہوولعب کے طورپر اقرار کرے۔ ایک سوال وجواب درج ذیل ہے۔ 

مسئلہ:کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید معاذاللہ یہ کہے کہ میں عیسائی یا وہابی یا کافر ہوجاؤں گا،نام ایک فرقہ کا لیا۔آیا وہ انہیں میں سے ہوگا یا نہیں؟

یا یہ کہے کہ جی چاہتا ہے کہ غیر مقلد ہوجاؤں،یا یہ کہے کہ غیر مقلد ہونے کا جی چاہتا ہے۔یہ قول کیسا ہے؟اگر چہ کسی کوچھیڑنے یامذاق کی غرض سے کہے:بینوا توجروا 

الجواب:جس نے جس فرقہ کا نام لیا،اس فرقہ کاہوگیا۔مذاق سے کہے یا کسی دوسری وجہ سے:واللہ تعالیٰ اعلم (فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص102-رضا اکیڈمی ممبئ)

صورت دوم وسوم:

گمراہ جماعت میں ہونے کا اقرار کیا تو گمراہ ہے اور مرتدجماعت میں ہونے کا اقرار کیا تو بھی گمراہ قراردیا جائے گا۔یہاں شبہہ ہے کہ وہ مرتد جماعت کے کفری عقائدسے آشنا نہ ہو،اور چوں کہ مرتد جماعتیں بھی خود کو مسلم جماعت کہتی ہیں تو ممکن ہے کہ عام مسلمان ایک مسلم جماعت سمجھ کر اس مرتدجماعت میں شریک ہوجائے۔اسی قسم کے شبہات، اور احتمال کے سبب مرتکب پرکفر کا حکم عائدنہیں ہوتا۔

ہاں، یہ صحیح ہے کہ جو اس مرتد جماعت کے عقائدکفریہ سے واقف ہو،اس پر حکم کفر عائد ہوگا۔احتمال کے سبب ناواقف سے حکم کفر مسلوب ہوگا۔ 

اسی طرح شعار کفر،شعاراہل ضلالت وشعارمرتدین کا حکم ہے کہ شعار کفر اختیارکرنا کفر ہے اور شعاراہل ضلالت اختیار کرنا ضلالت اور شعار اہل ارتداد اختیارکرنا بھی ضلالت ہے۔شعارمرتدین اختیار کرنے پر ارتداد کا حکم نہیں۔ 

امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:”اس قوم کومحبوب ومرضی جان کر اُن سے مشابہت پسند کرے۔یہ بات اگرمبتدع کے ساتھ ہو، بدعت اور کفّار کے ساتھ معاذاللہ کفر۔
حدیث: من تشبہ بقوم فہو منھم۔حقیقۃً صرف اسی صورت سے خاص ہے“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد نہم، جزاول،ص 90-رضااکیڈمی ممبئ)

توضیح: مذکورہ بالاعبارت میں مبتدع سے گمراہ ومرتد دونوں مرادہیں۔

سوال سوم:

فتویٰ اول میں اقرار دیوبندیت مع اقرارسنیت پر حکم دیوبندیت ہے،اور فتویٰ دوم میں اقرار دیوبندیت بلااقرارسنیت پر بھی دیوبندیت کی نفی ہے۔اس سے بڑا تضاد کیا ہوسکتا ہے؟

جواب:

فتویٰ دوم میں دیوبندیت کے اقرار کے باوجود دیوبندیت کی نفی نہیں ہے، بلکہ اس کے کفر وارتداد کی نفی ہے کہ وہ کافر کلامی نہیں۔شارح بخاری نے خود ہی فتویٰ دوم کے اخیر میں وضاحت کردی ہے کہ حقیقت میں دیوبندی نہ ہونے کا مطلب کیا ہے؟

”مگر ان چاروں کے مذکورہ بالا کفریات پر مطلع نہیں تووہ حقیقت میں دیوبندی نہیں۔ اس کا یہ حکم نہیں کہ یہ شخص کافر ہے،یا اس کی نماز جناز ہ پڑھنی کفر ہے:واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ شارح بخاری:جلددوم ص 389-دائرۃ البرکات گھوسی)

فتویٰ اول میں اقرار سنیت کا لحاظ اس لیے نہیں کیا گیا کہ اس نے توبہ سے انکار کر دیا، پس یہی سمجھا جائے گا کہ وہ دیوبندی ہے،ورنہ اقراردیوبندیت سے ضرور توبہ کرتا۔

فتویٰ اول میں اقرار دیوبندیت کے سبب اس کو دیوبندی جماعت کا فرد ضرورشمار کیا گیا،لیکن محض اس اقرارکے سبب اس کو مرتدشمار نہیں کیا گیا ہے۔ 

درحقیقت فتویٰ نویسی میں سائل کے سوال کا لحاظ ہوتا ہے،اور اسی اعتبارسے جواب دیا جاتا ہے،اس لیے کسی فتویٰ کو سمجھنے کے لیے سوال اور اس کے پس منظر کا لحاظ ضروری ہے۔ 


 سوال چہارم:

جب ہر دیوبندی کافر نہیں ہے تو مفتیان کرام یہ کیوں لکھتے ہیں کہ دیوبندی کی نماز جنازہ پڑھنی کفر ہے اور نمازجنازہ پڑھنے والے پرتوبہ، تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم ہے؟

جواب:چوں کہ فرقہ دیوبندیہ مرتدجماعت ہے،اس لیے جماعتی حکم وعمومی حکم کے بیان کے وقت یہی کہا جائے گا کہ دیوبندی کافر ومرتدہے۔مومن سمجھ کراس کی نماز جنازہ پڑھنی کفر ہے۔ نماز جنازہ پڑھنے والے پر توبہ وتجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم ہے۔

یہ شخصی حکم نہیں ہوتا ہے کہ خاص فلاں شخص کافر ومرتد تھا،اس لیے اس خاص شخص کی نماز جنازہ پڑھنے والے کا یہ حکم ہے،بلکہ جماعتی اور عمومی حکم کا بیان ہوتا ہے۔

جواب میں مفتیان کرام توبہ،تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم دیتے ہیں۔بالفرض اگر شخص متوفی کافر کلامی نہیں تھا،بلکہ کافر فقہی تھا تو بھی مومن کامل سمجھ کر اس کی نماز جنازہ پڑھنے پر توبہ،تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم ہوگا۔

اگر وہ محض گمراہ تھا،یعنی کافر کلامی یا کافر فقہی نہیں تھا تو بھی توبہ کا حکم ہوگا،کیوں کہ گمراہ کی نماز جنازہ پڑھنا بھی مکروہ تحریمی اورگناہ ہے۔یہاں تجدید ایمان وتجدید نکاح کا وجوبی حکم نہیں،لیکن احتیاطی طورپر تجدید ایمان و تجدید نکاح ممنوع نہیں،بلکہ بہتر ہے کہ کبھی انجانے میں کوئی غلط بات صادر ہوگئی ہو تو اس کا معاملہ بھی حل ہوجائے گا۔ 

طارق انور مصباحی
 
جاری کردہ:26:جنوری 2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے