قطعیات میں ایک قول حق:دیگر تمام باطل

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

قطعیات میں ایک قول حق:دیگر تمام باطل

باب فقہ کے ظنی اور اجتہادی مسائل میں بسا اوقات دو حکم بیان کئے جاتے ہیں۔ان میں سے کبھی دونوں قول صحیح مانے جاتے ہیں,گرچہ دونوں کی حیثیت میں کچھ فرق وتفاوت ہو:مثلا

 ایک راجح,دوسرا مرجوح

ایک قوی,دوسرا ضعیف

ایک صحیح,دوسرا اصح 

ایک مفتی بہ,دوسرا غیر مفتی بہ 

قطعیات میں اگر دو قول ہوں تو ایک حق ہو گا اور دوسرا باطل۔

گرچہ لغزش کے سبب قول باطل صادر ہونے پر قائل پر حکم شرع وارد نہ ہو۔

لیکن قطعیات میں قول حق کے علاوہ جو قول ہو,وہ باطل ہو گا۔

وہ مرجوح,ضعیف یا غیر مفتی بہ نہیں ہو گا,بلکہ باطل ہوگا۔

کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عہد حاضر میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ظنیات میں دو قول صحیح ہو سکتے ہیں,اسی طرح قطعیات میں بھی دو قول حق ہو سکتے ہیں۔

قطعی کی دو قسمیں ہیں۔قطعی بالمعنی الاخص اور قطعی بالمعنی الاعم۔قطعی بالمعنی الاخص امور کو ضروریات دین کہا جاتا ہے۔ قطعی بالمعنی الاعم امور کو ضروریات اہل سنت کہا جاتا ہے۔قطعیات کی ان دونوں قسموں میں دو قول حق نہیں ہو سکتے۔

واضح رہے کہ مذکورہ بالا دونوں قسموں میں قطعی سے ثبوت اور دلالت دونوں اعتبار سے قطعی ہونا مراد ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ قطعیات میں بہت سے وہ امور ہیں جن سے عمل کا تعلق نہیں,بلکہ ان کے بارے میں صرف یقین و اعتقاد رکھنا ہے۔جیسے توحید و رسالت,حشرونشر,جنت ودوزخ,حضرات انبیائے کرام وملائکہ عظام علیہم الصلوۃ والسلام کے بارے میں صرف  یقین و اعثقاد رکھنا ہے۔ان امور کا بیان باب عقائد میں ہوتا ہے۔

قطعیات میں بہت سے امور وہ ہیں جن سے عمل کا بھی تعلق ہے اور ان کے بارے میں یقین واعتقاد بھی رکھنا ہے,جیسے فرائض اربعہ:نماز,روزہ,حج,زکات۔سنن متواترہ وغیرہ۔ان امور کا بیان باب فقہ میں ہوتا ہے۔

عقائد کی کتابوں میں ضروریات دین اور ضروریات دین کا بیان ہوتا ہے۔

فقہ کی کتابوں میں بھی بعض ضروریات دین و ضروریات اہل سنت کا بیان ہوتا ہے,گرچہ اس کی تعداد بہت کم ہو۔

کتب فقہ کے وسیع باب میں  چند ضروریات دین وضروریات اہل سنت کے بیان کے سبب احساس نہیں ہو پاتا کہ فقہیات کے باب میں بھی ضروریات دین اور ضروریات اہل سنت کا بیان ہو گا۔

فرائض اربعہ یعنی نماز,روزہ,حج و زکات کا بیان عقائد کی کتابوں میں نہیں ہوتا۔اسی طرح باب عملیات کے وہ احکام جو قطعی بالمعنی الاخص یا قطعی بالمعنی الاعم ہیں,ان کا بیان بھی کتب عقائد میں عام طور پر نہیں ہوتا۔

 عقائد کی کتابوں میں ضروریات دین وضروریات اہل سنت کے ساتھ بعض ظنی عقائد کا بیان بھی ہوتا ہے۔

ظنی عقائد میں بعض عقیدہ اہل سنت و جماعت کا اجماعی عقیدہ ہوتا ہے۔اس کو نہ ماننے والا گمراہ ہو گا۔کافر فقہی یا کافر کلامی نہیں۔

تفضیل شیخین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما کا عقیدہ اہل سنت وجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے,لیکن ظنی ہے۔اسی لئے اس عقیدہ کے انکار کے سبب فرقہ تفضیلیہ پر کفر فقہی یا کفر کلامی کا حکم عائد نہیں ہوا۔بلکہ صرف گمرہی کا حکم عائد ہوا۔

بعض عقائد ظنی اور غیر اجماعی ہیں۔ایسے ظنی عقائد میں ائمہ کرام کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔جیسے امام اشعری اور امام ماتریدی کا اختلاف۔

مذکورہ بالا تشریح کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ قطعیات میں دو قول حق نہیں ہو سکتے۔ایک حق ہو گا اور دوسرا باطل۔

اور ظنی عقائد میں جو اجماعی ہو,اس سے اختلاف جائز نہیں۔

اجماعی ظنی عقیدہ کی مخالفت گمرہی ہے اور جس فقہی ظنی مسئلہ پر ائمہ مجتہدین کا اجماع ہو جائے,اس فقہی ظنی اجماعی مسئلہ کی مخالفت حرام ہے۔کسی مجتھد کو بھی اس کی مخالفت جائز نہیں۔

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:04:فروری 20121

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے