طرز تحقیق کل اور آج

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

طرز تحقیق: کل اور آج

جب مفتی کے سامنے کوئی ایسا جملہ پیش ہوتا ہے جس میں کسی ضروری دینی کے انکار یا استخفاف بالدین کا اعتراض ہو تو مفتی یہ دیکھتا ہے کہ یہاں تاویل قریب یا تاویل بعید کی گنجائش ہے یا نہیں؟

اگر تاویل بعید کی گنجائش ہے اور تاویل قریب کی گنجائش نہیں ہے تو مفتی اس ملزم کو کافر کلامی قرار نہیں دیتا,لیکن اسے کافر فقہی قرار دے کر توبہ,تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا حکم دیتا ہے,تاکہ ملزم کے ایمان کی حفاظت کی جائے۔

امام اہل سنت قدس سرہ القوی نے اسماعیل دہلوی کے کلمات سے متعلق فرمایا کہ ان میں تاویل بعید کی گنجائش ہے,لیکن تاویل قریب کی گنجائش نہیں تھی تو آپ نے اسماعیل دہلوی کو فقہا کے طریقے پر کافر فقہی قرار دیا اور فرمایا کہ وہ فقہا کے یہاں قطعا یقینا اجماعا کافر ہے۔

دہلوی کی موت کے بعد حکم کا بیان اس لئے ہوا کہ اس کے متبعین حکم شرعی سے واقف ہو کر اپنے ایمان کی حفاظت کریں اور ایسے کلمات کہنے والوں سے بھی جدا ہو جائیں اور خود بھی ایسے کلمات سے پرہیز کریں۔

عہد حاضر میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بس کوئی تاویل نظر آئی اور مجرم کو چھٹی دے دی جاتی ہے,حالاں کہ پہلے اس تاویل پر بحث ہو گی کہ وہ تاویل قریب ہے یا تاویل بعید ہے یا تاویل باطل ہے؟

تاویل باطل فقہا اور متکلمین کسی کے یہاں قبول نہیں,لہذا تاویل باطل پیش کی جائے تو ضروری دینی کے انکار یا استخفاف کے جرم کے سبب ملزم کو کافر کلامی قرار دیا جائے گا,جب کہ دیگر شرائط تکفیر بھی متحقق ہوں۔اسی اصول کے مطابق اشخاص اربعہ اور قادیانی کی تکفیر ہوئی۔

اگر تاویل بعید پائی جائے تو صرف فقہا کے طریقے پر تکفیر ہوگی,جب کہ دیگر شرائط تکفیر متحقق ہوں۔اسی اصول کے مطابق علامہ خیر آبادی قدس سرہ العزیز اور امام احمد رضا قادری نے اسماعیل دہلوی کو کافر فقہی قرار دیا۔


اگر تاویل قریب پائی جائے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ویسا کلام کرنا حرام  ومکروہ تحریمی ہے یا نہیں؟اگر حرام و مکروہ تحریمی ہے تو بھی ملزم کو توبہ کا حکم دیا جائے گا,تاکہ وہ جرم سے پاک ہو جائے۔

اگر حرام نہیں تو مکروہ تنزیہی,اسائت,خلاف اولی ہے یا نہیں؟ 

الحاصل جن صورتوں میں گناہ کا ثبوت ہو گا۔ان صورتوں میں توبہ کا حکم ہو گا۔جن صورتوں میں کفر فقہی یا کفر کلامی کا حکم ثابت ہو گا۔ان صورتوں میں توبہ کے ساتھ تجدید ایمان وتجدید نکاح کا حکم بھی ثابت ہو گا۔

ملزم کو کلین چیٹ نہیں دینا ہے,بلکہ جرم سے کلین اور پاک ہونے کا طریقہ مفتی کو بیان کرنا ہے۔اس لئے مفتیان کرام اپنے فرض منصبی پر غور فرمائیں۔

تاویل باطل کو تاویل متعذر کہا جاتا ہے۔یہ فقہا اور متکلمین کسی کے یہاں قبول نہیں کی جاتی ہے۔

تاویل بعید کو تاویل فاسد کہا جاتا ہے۔یہ متکلمین کے یہاں قبول کی جاتی ہے اور ملزم پر حکم کفر نہیں دیا جاتا ہے,لیکن ضلالت و گمرہی کا حکم عائد ہوتا ہے۔

فقہا کے یہاں تاویل بعید قبول نہیں کی جاتی ہے,اس لئے ملزم پر کفر فقہی کا حکم عائد ہوتا ہے۔

تاویل قریب فقہا کے یہاں باب تکفیر میں قبول ہوتی ہے۔اس کا یہ مفہوم ہے کہ ملزم کی تکفیر نہیں ہو گی۔

جب تکفیر کی صورت نہیں تو مفتی کو یہ دیکھنا ہے کہ حرمت,کراہت تحریمی,اسائت,خلاف اولی کراہت تنزیہی میں سے کسی کا ثبوت ہوتا ہے یا نہیں؟
یہ تمام بھی شرعی احکام کے درجات ہیں۔

اگر مفتی میں اس قدر تحقیق کی قوت ہے تو تحقیق کرے,ورنہ سوال کو دوسرے مفتی کے یہاں بھیج دے جو حل کرنے کی قوت رکھتا ہو۔دین خداوندی میں کوئی بات اپنی جانب سے نہ کہے۔

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:05:فروری 2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے