چند رہنما اصول جو ان شاء اللہ آپ کو اپنی تصنیفی زندگی میں ضرور کام آئیں گے
تحریر: محمد عمر فیاض مدنی (اسلامک ریسرچ سینڑ، دعوتِ اسلامی)
*1 ۔ جذبات کو تازہ رکھیے:*
بلاشبہ تصنیف و تالیف ایک بڑا کام ہے۔ ایک عظیم خدمت ہے۔ اس کے لیے بڑی ہمت چاہیے اور مستقل مزاجی کے بنا چارہ نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ نے جب اس کام بیڑا اٹھانے کا عزم کیا ہے تو پھر اسے تکمیل تک پہنچا کر ہی چھوڑیے۔ اپنے ان جذبات کو ہمہ وقت تازہ رکھنے کا انتظام کیجیے۔ اپنی سوچ و فکر کو ایسی لگن میں مگن رکھیے کہ دماغ سے یہ سودا کسی بھی وقت محو نہ ہونے پائے۔
اس کے لیے چند راز یہ ہیں کہ خود کو بطور مصنف مستقبل میں ایک عظیم شخص کے روپ میں دیکھیے۔ یہ سوچیے کہ تصنیف آپ کو مرنے کے بعد بھی زندہ رکھے گی۔ اپنا کوئی ایک حریف تلاش کیجیے، جس کو دیکھ دیکھ کر آپ کے جذبات تازہ رہیں۔ یعنی کوئی ایسا ساتھی جس کے ساتھ آپ نے زندگی میں آگے بڑھنے کا مقابلہ لگا رکھا ہو۔ بس ذہن ہی ذہن میں ان سے آگے بڑھنے کی دھن اپنے اوپر ہر وقت سوار رکھیے۔اسی طرح کتاب کے مختلف مراحل کی تکمیل پر خود کو انعام اور شاباش سے نوازتے رہیے۔ ان شاء اللہ۔ آپ متحرک اور Motivated رہیں گے۔
*2۔ رکاوٹیں (Distractions) دور کیجیے:*
بڑی واضح سی بات ہے کہ لکھنے لکھانے کا کام بے حد یکسوئی مانگتا ہے۔سو، ذہنی یکسوئی کا سامان کرنا اور ذہنی انتشار یا خلفشار پیدا کرنے والی چیزوں اورباتوں کو خود سے دور کرنا بہت ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو گھر کا کوئی گوشہ اس کام کے لیے منتخب کیجیے۔ جو وقت آپ کے لکھنے کا ہے، اس دوران گھر کا، دفتر کا یا باہر کا کوئی کام آپ کے دل و دماغ پر سوار نہیں ہونا چاہیے۔
اس زمانے میں ذہن منتشر کرنے والی چیزیں بے شمار ہو گئی ہیں۔ اسمارٹ فون نے ہماری خلوتوں کو بھی لوگوں، باتوں اور شورشرابے سے بھر دیا ہے۔ لہذا ذہنی یکسوئی کے حصول کے لیے اس کو اپنا دشمن قرار دینا ہو گا۔ کوشش کیجیے اگر دوران تصنیف انٹرنیٹ سے مدد لے رہے ہیں تو جو چیز دیکھنے کے لیے نیٹ آن کیا ہے، وہ دیکھ کر فوراً بند کر دیجیے اور دیگر چیزوں میں پڑ کر اپنی یکسوئی برباد نہ کیجیے۔
اسی طرح ایسے دوستوں سے بھی دور رہیے، جو آپ کو اس کام سے کسی بھی طریقے سے دور لے جائیں۔ اپنے بیوی بچوں کو بھی ترغیب دے کر اور فوائد بتا کر اس کام کے ساتھ ذہنی طور پر ہم آہنگ کیجیے، ورنہ یہ لوگ خود ایک بڑی رکاوٹ بن کر بیچ میں آ جاتے ہیں۔
*3۔ جدید آلات کی مدد لینا:*
اس زمانے میں ٹیکنالوجی کی ترقی دو دھاری تلوار بن گئی ہے۔ اس سے مدد لیے بنا چارہ بھی نہیں اور ہمارے معاشرے میں ان کا استعمال سب سے زیادہ وقت کے ضیاع کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس لیے یہ ضرور ذہن میں رکھیے کہ ہمیں تصنیف جیسے اہم کام کی حسن تکمیل کے لیے جدید آلات و وسائل کی مدد ضرور لینی ہے، کیونکہ ان کے جو فوائد ہیں، ان سے محرومی نہ ہو جائے ۔ ہمارا معیار سب سے بلند تر رہ سکے اور وقت کو ضایع ہونے سے بچایا جا سکے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے تو لیپ ٹاپ اپنے پاس ضرورر کھیے۔ اچھی کمپنی کا اور اچھی حالت کا لیپ ٹاپ لے کر اس میں تمام مفید سافٹ ویئرز انسٹال کیجیے۔ ان پیج یا ورڈ پر خود کمپوزنگ کیجیے۔ اس میں کتابوں، موسوعات اور ریسرچ میں کام آنے والے سافٹ ویئرز کی موجودگی یقینی بنائیے۔
اسی طرح اپنی کتاب کی پی ڈی ایف بھی بنوائیے، پھر چاہے تو اس کی سافٹ کاپی کو فروخت کرنے کی کوئی ترکیب اپنائیے، ورنہ ہارڈ کاپی پر چھاپے جانے کے بعد فیض عام کے لیے پی ڈی ایف بنا دیجیے۔
اسی طرح اپنی کتاب کی ایپلیکیشن بنا کر پلے اسٹور پر بھی ڈالی جا سکتی ہے۔ ایپلیکشن سے استفادہ زیادہ آسان ہوتا ہے۔
*4۔ لکھنے کی معاون اشیا کی دستیابی:*
لکھنے کے معاملے میں معاونت فراہم کرنے والی تمام ضروری اشیاء کی دستیابی کو یقینی بنائیے۔ ایک دفعہ ان چیزوں کو میسر کر لیجیے، دیر تک کام آتی رہیں گی۔ اس معاملے میں سستی نہ کیجیے، کیونکہ عام طور پر اس میں سستی ہو جاتی ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ ان اشیاء کی دستیابی سے لکھنے لکھانے کا پورا ایک ماحول بن جائے گا۔ یہ ماحول آپ کی طبیعت پر بے انتہا مثبت اثرات مرتب کرے گا۔
وہ اشیاء مثلاً یہ ہو سکتی ہیں:
-اسٹیپلر - پیپر کلپ – پیمانہ – پنسل ہولڈر- ہائی لائٹر- نوٹ پیڈز – پرنٹنگ پیپر-پیپرویٹ- سلوشن ٹیپ-کلاک- پنکھا- ہیٹر- لیمپ-مشروبات – ٹشو پیپر- تولیہ- بیٹھنے کے لیے دو تین قسم کی نشست، یعنی: آرام دہ کرسی، فرشی نشست اورنیم دراز ہو کر لکھنے کی سہولت-وغیرہ۔ اچھی خوشبو کا اہتمام بھی کیجئے۔
*5 – کچھ انوکھا، کچھ نیا کیجیے:*
نفس و شیطان کا ہمارے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان کی طرف سے تصنیف کو شہرت پسندی کا ذریعہ بنانے کی وسوسہ کاری کا غالب امکان ہے۔ اسی قسم کی منفی سوچ کے تحت کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم بغیر محنت کے سستی شہرت کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ کسی کی محنت کو اپنے نام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کوئی ہلکا پھلکا کام تلاش کیا جاتا ہے۔ ذرا سی رد و بدل کر کے دوسروں کی کتابوں کو اپنے نام سے شایع کرنے کی نامبارک کوشش کی جاتی ہے۔ درس نظامی کی بالکل سادہ اور عام سی کتب کی شرح لکھنے کا ''کارنامہ'' سرانجام دیا جاتا ہے۔ بزرگوں کی تصنیفات میں سے کچھ خاص چیزیں الگ کر کے ان سے بلاوجہ ایک نئی کتاب بنا دی جاتی ہے۔ سرقہ اور پلیجرزم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ نہ جانے اور کیسے کیسے دھندے اس میدان میں کیے جا رہے ہیں۔
آپ نے چند روزہ زندگی گزار کر قبر میں جلد ہی اتر جانا ہے۔ اس لیے نفس و شیطان کے بہکاوے میں آ کر کیوں ایسی شرمناک کوشش کا سوچتے ہیں۔
غرض! آپ اپنی پوری کوشش کیجیے کہ کچھ منفرد لکھیے۔ کچھ نیا دنیا کو دے کر جائیے۔ اپنے کام کے ساتھ پورا انصاف کیجیے۔ اپنے دل اور ضمیر کو اپنے لکھے ہوئے پرپوری طرح مطمئن کیجیے ….. کچھ نیا لکھنے کی تئیں ہم یہ واضح کر دیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس موضوع پر پہلے لکھا جا چکا ہے، اس پر آپ نئی کتاب نہیں لکھ سکتے۔ ضرور لکھ سکتے ہیں، کیونکہ ہر زمانے کے بدلتے محاورے کو دیکھتے ہوئے پرانے موضوعات پر نئے انداز سے کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ اہل دانش کا کہنا ہے کہ دنیا میں کوئی علم نیا علم نہیں ہے، بس لوگ دراصل نئے اسلوب کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اسلوب کی وجہ سے ہی ہر روز نئی کتابیں مارکیٹ میں آ رہی ہیں اور فروخت بھی ہو رہی ہیں۔ سو، آپ کے لیے گنجائش ہے کہ پرانے موضوع پر نئی کتاب لکھیں، مگر یہ خیال رہے کہ محنت سراسر آپ کی اپنی ہونی چاہیے۔
*6۔ خواتین کے نام:*
ہماری شریعت اور ہماری تہذیب دونوں اس بات کی اجازت نہیں دیتیں یا مشکل سے دیتی ہیں کہ ہماری خاتون خانہ ملازمتیں کرے۔ حتی کہ دور دراز جا کر کہیں درس و تدریس کا کام کرے وغیرہ۔ لیکن کوئی علمی کام کرنا اور گھر بیٹھے اپنے طبقے کی اصلاح کے لیے کوشش کرنا ان کے مزاج و مذاق اور معمولات کے زیادہ لائق ہو سکتا ہے۔ اس لیے آپ مرد ہیں تو اپنی خواتین سے کہیے وہ لکھنے پڑھنے کی طرف آئیں۔ اگر اللہ نہ کرے اولاد کی نعمت سے محروم ہیں تو کتاب کو بھی اولاد کی جگہ دے دیں۔ کتاب کی صورت میں اپنا صدقہ جاریہ چھوڑ کر جائیں۔ اگر آپ خود خاتون ہیں تو آپ کو اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد معاشرے کی عام خواتین کی طرح بے تحاشا وقت کو ضایع ہونے سے بچانے کی شعوری کوشش کرنی چاہے۔ اس کے لیے تصنیف و تالیف اور لکھنا لکھانا بہترین مشغلہ ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر وہ خواتین جن کے بچےاور بچیاں بڑے ہو جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ان پر گھر کی ذمہ داریاں بہت کم رہ جاتی ہیں۔ ادھیڑ عمری میں تحقیق و تصنیف ایک اچھی اور مفید ترین مصروفیت ہو سکتی ہے۔
یہ اس وجہ سے بھی بطور خاص کہا جا رہا ہے کہ خواتین کے شعبے میں اصلاح کے لیے بہت کم لکھا گیا ہے اور پھر ایک مرد بھلا جنس مخالف کے احساسات کی کامیاب ترجمانی کیسے کر سکتا ہے۔ اس لیے معزز خواتین کو ہی آگے بڑھنا ہو گا اور تصنیف و تالیف کے ذریعے اس خلا کو پُرکرنا ہو گا۔
*آگے بڑھیے، لکھیے اور معاشرے کی اصلاح میں اپنے حصے کا چراغ روشن کیجیے۔*
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں