نمازوتبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ قسط چہارم ‏/ ‎از ‏قلم ‏طارق ‏انور ‏مصباحی ‏

مبسملاوحامدا::ومصلیا ومسلما

نمازوتبلیغ کے نام پر دیوبندیوں کے ساتھ

قسط چہارم

قسط سوم میں اس بات کی وضاحت پیش کی گئی ہے کہ مشکوک ومشتبہ افراد کی حقیقت کیسے معلوم کی جائے؟

اور مشکوک افراد کا حکم شرعی کیا ہے؟

قسط اول میں بھی اس پر بحث مرقوم ہوئی۔

قسط چہارم میں یہ بحث ہے کہ کوئی شخص کسی گمرا ہ،مرتدیا کافرجماعت کا مذہبی شعار اختیار کرلے تو کب اس کا شمار اس جماعت میں ہوگا، اور کب اس جماعت میں شمار نہیں ہوگا؟

کافرقوم سے وہ قوم مرادہے جوکلمہ خواں نہ ہو۔مرتدجماعت سے وہ جماعت مراد ہے،جو کلمہ خواں ہے،لیکن اس پرکفروارتداد کا حکم ہے۔

اس مضمون میں صرف مذہبی شعار پر بحث ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ گمراہ،مرتد اور کافرجما عتوں کے قومی شعار سے متعلق مستقل مضامین خاص عنوان کے ساتھ مرقوم ہوں گے۔


کسی گمرا ہ،مرتد یاکافرجماعت میں شمولیت کی صورتیں:

کسی جماعت کا فرد ہونا متعدد امورسے ثابت ہوگا:

(1)اس جماعت کے عقائد کو ماننا 
(2)اس جماعت کا فرد ہونے کا اقرار کرنا،یا اس میں شمولیت کی بات کہنا
 (3) اس جماعت کے مذہبی شعار کو اپنانا،اور اس جماعت کا فردہونے سے انکار نہ کرنا، یا انکار پر کوئی قرینہ نہ ہونا۔اگر اس جماعت میں شمولیت سے انکار یا انکار پر قرینہ ہوتو حکم بدل جائے گا۔


گمراہ یا مرتد جماعت کے مذہبی شعار کو اختیارکرنے کا حکم:

مذہبی شعار اور قومی شعار میں فرق ہے۔دونوں کا حکم الگ ہے۔

اس قسط میں صرف مذہبی شعار پر بحث ہے۔ان شا ء اللہ تعالیٰ قومی شعار پر مستقل مضامین آئیں گے۔

 کفارکے مذہبی شعار اختیار کرنے والے کا حکم یہ ہے کہ وہ کافر ہے،گر چہ وہ اسلام کے تمام احکام کا اقرار کرتا ہو،اور کفر کے تمام باطل اعتقادات کا انکار کرتا ہو۔

 اگر کوئی گمراہ یامرتدجماعت کے مذہبی شعار کو اپنایا،لیکن اس نے شعاربدمذہبیت سمجھ کر نہیں اپنایا،بلکہ اپنی تحقیق یا کسی کی تحریر وتقریرکے سبب اسے مغالطہ ہوگیا اور اس نے اس شعار کواختیار کرلیا تو گر چہ اس نے شعار بدمذہبیت کو اپنایا ہے، لیکن چوں کہ اس بدمذہب جماعت سے اس کاکوئی تعلق نہیں،اسے بدمذہب ہی سمجھتا ہے، اور ان بدمذہبوں کا جوحکم ہے،یعنی کفر یا ضلالت۔وہ ان بدمذہبوں کوحکم شرعی کے مطابق کافریاگمراہ سمجھتا ہے تو اس آدمی کو اس بدمذہب جماعت کا فرد نہیں سمجھا جائے گا،نہ ہی اسے سنیت سے خارج مانا جائے گا۔ 

ہاں، اس کے جرم کے اعتبارسے اس پر فسق وگناہ کا حکم ہوگا،او ر اس سے منع کیا جائے گا۔


(الف)شعار وہابیت کے ساتھ انکار وہابیت ہو تو حکم وہابیت نہیں:

اگر کوئی دیوبندیت اور وہابیت کا انکار کر تا ہے۔وہابیہ کو گمراہ وبددین اور دیوبندیوں کو مرتد جانتا ہے،لیکن بعض شعار اہل سنت کو غلط کہتا ہے تو سنیت سے خارج نہیں ہوگا،گرچہ شعار سنیت کا انکاروہابیہ ودیابنہ کا مذہبی شعارہے۔جب وہابیت ودیوبندیت سے صریح انکار کرتا ہے تو انکارکے سبب وہابیوں،دیوبندیوں میں اس کوشمار نہیں کیا جائے گا۔

فتاویٰ رضویہ سے ایک سوال اورجواب کا ضروری حصہ مندرجہ ذیل ہے۔

سوال:جو تعزیہ بنانے والے کو کافر اور اس کی اولاد کو حرامی اور قیام مولود کو بدعت سیۂ اور حاضری عرائس بزرگان کو فعل لغو سمجھتا ہے،وہ شخص کیسا ہے۔سنی حنفی ہے،یا نہیں؟

امام احمدرضا قادری نے جواب میں رقم فرمایا:”قیام مجلس مبارک کو بدعت سیۂ اور حاضری اعراس طیبہ کو لغو سمجھنا شعار وہابیہ ہے،اور وہابیہ سنی کیا، مسلمان بھی نہیں کہ اللہ ورسول کی علانیہ تو ہین کرتے ہیں اور اللہ عز وجل فرماتا ہے: قل ا باللّٰہ وآیاتہ ورسولہ کنتم تستہزؤن::لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم۔
ان سے فرمادو:کیا اللہ اور اس کے رسول سے ٹھٹھا کرتے تھے۔بہانے نہ بناؤ،تم کافر ہو چکے،اپنے ایمان کے بعد۔
 ہاں بالفرض اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ وہابیت و وہابیہ سے جدا ہو۔وہابیہ کو گمراہ و بددین،دیوبندیہ کو کفار مرتدین جانتا مانتا ہو،صرف قیام و عرس میں کلام رکھتا ہو تو محض اس وجہ پر اسے سنیت و حنفیت سے خارج نہ کہا جائے گا، مگر آج کل یہ فرض از قبیل فرض باطل ہے۔ 

آج وہ کون ہے کہ ان میں کلام کرے، اور ہو سنی:اللّٰھم،مگر بہ تقیہ کہ وہابیہ میں روافض سے کچھ کم نہیں“۔(فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:ص73-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح:قیام وعرس پر اعتراض کے سبب جوحکم ازروئے شرع عائد ہوتا ہے،وہ حکم نافذ ہو گا،لیکن اس کو وہابی نہیں سمجھا جائے گا،کیوں کہ وہ وہابیت ووہابیہ سے جدا ہے۔
وہابیوں کوگمراہ اور دیوبندیوں کوکافر مانتا ہے تو یہ اپنے دیوبندی اور وہابی ہونے کا انکار ہے۔انکار ہوجانے پر محض شعار کے سبب اس کو وہابی نہیں کہا جاسکتا۔

مذکورہ بالا فتویٰ میں بھی وہابیہ کی تقیہ بازی کا ذکر ہے اوریہ عیب جیسے روافض میں ہے، ویسے ہی وہابیہ میں ہے۔ وہابیہ بھی اپنے برے عقائد کوچھپاتے ہیں۔

شعار وہابیت اور انکار وہابیت سے متعلق ایک سوال وجواب مندرجہ ذیل ہے۔

مسئلہ: از قصبہ شیش گڑھ ڈاک خانہ خاص بریلی:
مسؤلہ سید محمد سجاد حسین صاحب - 29 محرم الحرام1337ھ

(۱)زید باوجود ادعائے صدیق الوارثی کے اسماعیل دہلوی کو حضرت مولانا مولوی محمد اسماعیل صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ لکھتا ہے۔

(۲)بکر اپنے آپ کو چشتی حیدری بتاتا ہے اور مندرجہ ذیل امور پر اعتقاد رکھتا ہے، یعنی مسلمان جو حضرات پیرانِ پیر جناب شیخ سید محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گیارہویں شریف مقرر کرکے ان کی رُوح پر فتوح کو ثواب پہنچاتے ہیں،اس کی بابت کہتا ہے کہ گیارہویں تاریخ مقرر کرنا مذموم ہے۔

ماہِ رجب کی بابت لکھتا ہے کہ اس ماہ کے نوافل،صلوٰۃ وصوم وعبادت کے متعلق بڑے بڑے ثوابوں کی بہت سی روایتیں ہیں، اُن میں صحیح کوئی بھی نہیں،اور یہ بات بالکل غلط اور بے سند ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم ماہِ رجب میں ہوا تھا۔

ماہِ شعبان میں حلوا پکانا یا تیرھویں کو عرفہ کرنا،عید کے دن کھانا تقسیم کرنا ممنوع ہے۔ ماہِ محرم میں کھچڑا یا شربت خاص کرکے پکانا،پلانا اور اماموں کے نام کی نیاز دلانا اور سبیل لگانا بہت بری بدعتیں ہیں۔ماہِ صفر میں کسی خاص ثواب یا برکت کا خیال رکھنا جہل ہے۔

سید احمد رائے بریلوی کو نیک،بزرگ، بلکہ ولی جانتا ہے،پس کیا فرماتے ہیں علمائے دین ایسے اشخاص کے حق میں کہ ان کا اصلی مذہب کیا ہے؟ اور امور مذکورہ بالا کی اصلیت مفصل طور سے تحریر فرمائی جائے۔

الجواب:(۱)صورت مذکورہ میں زید گمراہ بددین نجدی اسمٰعیلی ہے اور بحکم فقہائے کرام اس پر حکمِ کفر لازم،جس کی تفصیل کتاب الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات ابی الوھابیہ سے ظاہر:واللہ تعالیٰ اعلم۔

(۲)بکر ہو شیار وہابی معلوم ہوتا ہے۔گیارہویں شریف کو مذموم،شعبان کے حلوے،تیرہویں کے عرفے،عید کے کھانے کو مطلقًا بلا ممانعت شرعی ممنوع،محرم شریف کے کھچڑے، شربتِ ائمہ اطہار کی سبیل کو مطلقًا بدعتِ شنیعہ کہنا شعارِ وہابیہ ہے، اور وہابیہ گمراہ،بددین۔

احادیثِ اعمال رجب کو صحیح نہ کہنا بڑی چالاکی ہے۔اصطلاح محدثین کی صحت یہاں درکار نہیں۔ فضائلِ اعمال میں ضعاف بالاجماع مقبول ہیں۔رجب میں کشتی بنانے کا حکم نہ ہوا تھا، بلکہ رجب میں کشتی چلی اور اعداپر قہر اور محبوبوں پر '' وَحَمَلْنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوٰحٍ وَّ دُسُرٍ:: تَجْرِی بِاَعْیُنِنَا جَزَآءً لِّمَن کَانَ کُفِرَ '' کا فضل اسی مہینہ میں ظاہر ہوا۔ 

یہ عبداللہ بن عباس و غیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی حدیثوں سے ثابت ہے۔صفر و سرُمہ عاشورہ کی نسبت اس کا قول رَد نہ کیا جائے، اگرچہ ثانی میں اختلاف کثیر ہے۔

اگر صراط مستقیم کے کلماتِ باطلہ کو باطلہ، کفر یہ کو کفریہ،اسماعیل دہلوی کو گمراہ بددین جانتا ہے،وہابیت سے جدا ہے تو سید احمد کو صرف بزرگ جاننے سے وہابی نہ ہوگا،ورنہ وقدبینا الاٰیات لقوم یعقلون کما ھدا نا ربنا تبارک وتعالیٰ عما یصفون:واللہ تعالیٰ اعلم۔
(فتاویٰ رضویہ جلدیازدہم:ص72-رضا اکیڈمی ممبئ)

سوال:جب سید احمدرائے بریلوی بھی اسماعیل دہلوی کے عقیدہ پر تھا تووہ بھی گمراہ اور کافرفقہی ہوگا،پھر اس کو بزرگ ماننے والا وہابی کیوں نہیں ہوگا؟

جواب: اس نے اسماعیل دہلوی کے غلط عقائدونظریات کو تسلیم نہیں کیا اورانہی عقائدونظریات کوماننا دراصل وہابیت ہے تو اس نے وہابیت سے انکار کردیا۔اب اس پر حکم وہابیت عائدنہیں ہوگا۔
ہاں، کافر فقہی کو کافرفقہی نہ ماننے والا کافرفقہی ہوگا،اور گمراہ کو گمراہ نہ ماننے والا گمراہ ہوگا۔کوئی سنی کہلانے والا اسماعیل دہلوی کو گمراہ نہ مانے تو گمراہ ہوگا،لیکن وہ وہابی نہیں ہوگا،کیوں کہ وہ وہابیوں کے عقائدباطلہ کو نہیں مانتا۔
 
وہابیوں کے پیشوایعنی اسماعیل دہلوی کو اپنا پیشوا نہیں مانتا ہے۔گرچہ شعار وہابیت کو اختیارکیا،لیکن وہ وہابیت کا انکارکرتا ہے۔اپنے وہابی ہونے کا اقرارنہیں کرتا تووہ وہابی نہیں، گر چہ رائے بریلوی کوبزرگ سمجھنے کے سبب گمراہ ہے۔



(ب)شعار رفض کے ساتھ انکار رافضیت پرقرینہ ہو تو حکم رافضیت نہیں:

امام احمدرضاقادری نے رقم فرمایا:”شہادت نامے نثریانظم جو آج کل عوام میں رائج ہیں،اکثرروایات باطلہ وبے سروپا سے مملو،اور اکاذیب موضوعہ پرمشتمل ہیں، ایسے بیان کا پڑھنا سننا وہ شہادت ہو خواہ کچھ،اور مجلس میلاد مبارک میں ہو خواہ کہیں اور،مطلقًا حرام وناجائزہے،خصوصًاً جبکہ وہ بیان ایسی خرافات کومتضمن ہو جن سے عوام کے عقائد میں زلل آئے کہ پھر تو اور بھی زیادہ زہرقاتل ہے۔ایسے ہی وجوہ پر نظرفرماکر امام حجۃ الاسلامی محمد محمد غزالی قدس سرہ وغیرہ ائمہ کرام نے حکم فرمایا کہ شہادت نامہ پڑھناحرام ہے۔

علامہ ابن حجرمکی قدس سرہ الملکی صواعق محرقہ میں فرماتے ہیں:
(قال الغزالی وغیرہ یحرمہ علی الواعظ وغیرہ روایۃ مقتل الحسن والحسین وحکایاتہ)
پھرفرمایا:(ما ذکر من حرمۃ روایۃ قتل الحسین وما بعدہ لاینافی ماذکرتہ فی ھذا الکتاب-لان ھذا البیان الحق الذی یجب اعتقادہ من جلالۃ الصحابۃ وبرائتھم من کل نقص بخلاف ما یفعلہ الوعاظ الجھلۃ فانھم یأتون بالاخبار الکاذبۃ والموضوعۃ ونحوھا ولا یبیّنون المحامل والحق الذی یجب اعتقادہ-الخ)

یونہی جبکہ اس سے مقصود غم پروری وتصنع حزن ہوتو یہ نیت بھی شرعًا نامحمود،شرع مطہر نے غم میں صبروتسلیم اورغم موجود کو حتی المقدور دل سے دورکرنے کاحکم دیا ہے، نہ کہ غم معدوم بتکلف وزور لانا،نہ کہ بتصنع وزور بنانا،نہ کہ اسے باعث قربت و ثواب ٹھہرانا،یہ سب بدعات شنیعہ روافض ہیں جن سے سنی کو احتراز لازم“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد نہم:حصہ اول ص 62-رضا اکیڈمی ممبئ)


توضیح:منقولہ بالاعبارت میں امام احمدرضا قادری نے متعدد امور کو بدعات روافض میں شمار فرمایا۔وہ بدعات روافض، شعاررافضیت ہیں،لیکن ان شعار رفض کواختیار کرنے کے سبب امام موصوف نے ان سنیوں کو رافضی قرار نہیں دیا،کیوں کہ جو سنی ان امور کوانجام دیتے ہیں،وہ اپنے سنی ہونے کا اقرار کرتے ہیں اورشیعہ ہونے کا انکار کرتے ہیں۔

مشہور قانون ہے:(الصریح یفوق الدلالۃ)۔یہاں سنی ہونے کی صراحت موجود ہے اورشعار میں صراحت نہیں، بلکہ دلالت ہوتی ہے کہ جس مذہب کے شعار کو اختیار کیا ہے،اس مذہب کو اختیار کیا ہے۔

یہاں قرینہ بھی موجود ہے کہ ان سنی حضرات نے لاعلمی میں شعاررافضیت کواختیار کر لیا اور ان کا مقصود شعار رفض کو اختیار کرنا نہیں،بلکہ حضرت امام حسین شہیدکربلا وجملہ اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے اظہارمحبت مقصودہے،گرچہ شیعوں کودیکھ کر لاعلمی میں ان لوگوں نے غلط طریقہ اپنا لیا ہے،لیکن زندگی بھر مذہب اہل سنت وجماعت پران کا قائم رہنا اور ساری عبادات ومعمولات اور عقائدومسائل میں اہل سنت وجماعت کی پیروی کرنااورخاص اس امر میں بھی علم ومعرفت کے بعد مسئلہ کوماننا اور تسلیم کرنا قوی قرینہ ہے کہ یہ لوگ محض لاعلمی میں اس طریقے کو اختیارکرلیے۔

ان کا مقصود شیعوں کی پیروی نہیں،بلکہ حضرات اہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے اظہار محبت مقصود ہے،پس اہل سنت وجماعت سے وابستگی اوررافضیت سے انکار پرقرینہ ہونے کے سبب شعار کا حکم نافذ نہیں ہوگا،جیساکہ صریح انکار کی صورت میں شعار کا حکم نافذنہیں ہوتا ہے۔



(ج)بلا انکار وہابیت، شعاروہابیت اختیار کرنے پر حکم وہابیت:

(۱)امام احمدرضاقادری نے رقم فرمایا:”فاتحہ کو بدعت کہنا،زیارات مزارات طاہرہ کو قبرپرستی بتانا،نیاز حضو ر پرنور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نام کی پوجا کہنا،تعظیم آثار شریفہ حضورسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضور کی اطاعت نہ ماننا یہ سب شعاروہابیت ہیں، اور وہابیہ گمراہ،بددین،بلکہ کفار ومرتدین ہیں“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص 185-رضا اکیڈمی ممبئ)

(۲)امام احمد رضا قادری سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو یاغوث کہنا حرام کہتا ہے۔میلاد شریف کے قصائد خوانی کو ناجائز کہتا ہے۔ اولیاء اللہ کی فاتحہ خوانی جیسے گیارہویں شریف وغیرہ کوناجائز کہتا ہے۔

امام احمد رضا قادری نے جواب میں فرمایا:”ایسے اقوال کا قائل نہیں ہوتا،مگر وہابی۔ مسلمانوں کو اس کے وعظ میں جانا جائز نہیں“۔ 
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص 154-رضا اکیڈمی ممبئ)

(۳)امام احمد رضا قادری نے رقم فرمایا:”نیاز نذر کرنا جائز ہے، او ر اولیا سے طلب دعا مستحب ہے،اور یہاں ان مسائل میں کلام کرنے والے نہیں،مگر وہابی،اور وہابی مرتد ہیں اورمرتد کے پیچھے نماز باطل محض،جیسے گنگا پرشاد کے پیچھے:واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص 170-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح:مذکورہ بالاعبارتوں سے واضح ہوگیا کہ کسی بد مذہب کلمہ گوجماعت کے شعار کو اختیار کرنے پر اسی جماعت میں شمار ہوگا، جب کہ صریح انکار یا انکار پر قرینہ موجود نہ ہو۔


نسبت کے سبب حکم کی تبدیلی:

مسئلہ:زید کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ذاتِ پاک رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برابر پیدا کرسکتا ہے، مگر بموجب اپنے وعدہ کے پیدا نہیں کرے گا۔زید کا امامِ نماز ہونا محققین علماکے نزدیک درست ہے یا نہیں؟

الجواب:حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بہت فضائل جلیلہ وخصائص کریمہ ناقابل اشتراک ہیں، جیسے افضل الانبیاء خاتم النبیین،سید المرسلین،اول خلق اللہ،افضل خلق اللہ،اول شافع،اول مشفع،نبی الانبیا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔اگر اس وقت اس طرف قائل کا ذہن نہ گیا، محض عموم قدرت پیش نظر تھا، اُسے تفہیم کی جائے،اگر تابعِ حق وطالبِ حق ہوگا،ضرور سمجھ جائے گا،اور اپنی غلطی سے باز آئے گا۔

اور اگر باوصفِ تفیہم عناد و استکبار و لداد و اصرار کرے تو ضرور بدمذہب ہے۔اسے امام بنانا ہر گز جائز نہیں اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب،یہ بھی اس وقت ہے کہ قول مذکور بعلت وہابیت نہ ہو،ورنہ اب دیوبندیوں نے وہابیہ میں اسلام کا نام نہ رکھا جو ان کے مثل اللہ ورسول کی شدید واضح و ناقابل تاویل توہینیں کرتے ہیں،خود کافر ہیں،ورنہ اتنا ضرور ہے کہ ان توہینوں کے کرنے والوں کو کافر نہیں کہتے۔ یہ ان کے صدقے میں کافر ہوئے۔ علمائے حرمین شریفین دیوبندیوں کی نسبت تحریر فرماچکے کہ: من شک فی کفرہ فقد کفر۔ جو ان کے کفرشک کرے،خود کافر ہے۔والعیاذ باللہ تعالیٰ: واللہ تعالیٰ اعلم (فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم:ص 60-61-رضا اکیڈمی ممبئ)

توضیح:مذکورہ بالا فتویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اس نے ناسمجھی کے سبب وہ بات کہی تو گمراہ ہے۔اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوگی،اوراگروہ وہابی ہے تو عہدحاضرکے وہابی کافر ہیں اور کافر کے پیچھے نماز باطل۔

دیوبندیوں نے وہابی مذہب میں اسلام کا نام بھی باقی نہیں رکھا،کیوں کہ دیوبندیوں نے وہابی مذہب میں قبیح اضافہ کردیا ہے،لہٰذا اب وہ تمام غیر مقلدوہابیہ بھی کافر ہیں جو انکارختم نبوت کے عقیدہ اوردیگر باطل عقائد میں دیوبندیوں کے ساتھ ہیں اور مرتد دیوبندیو ں کو مرتد نہیں مانتے،یعنی غیر مقلدوہابیہ اپنے برادرحقیقی دیوبندی وہابیہ کی محبت میں مرتد ہو گئے۔

دیوبندیوں میں بھی سبھوں نے کفریات نہیں بکا تھا،وہ چند گروگھنٹال تھے،پھر ان کی محبت میں دیگر دیابنہ مرتدقرار پائے،کیوں کہ دیگر لوگ ان کو مومن اور اپنا پیشوا مانتے رہے۔

اہل سنت وجماعت کے یہاں شخصیت پرستی نہیں ہے۔ امام احمد رضا قادری کی باتیں ہم نے اس لیے تسلیم کی ہیں کہ انہوں نے دین کے صحیح مسائل بیان فرمائے ہیں۔

ذاتی طور پر ہمیں بریلی شہر میں رہنے والوں سے محبت اور قصبہ دیوبند میں رہنے والوں سے عداوت نہیں۔اہل دیوبند بھی تمام غلط امور سے توبہ کرلیں تووہ ہمارے بھائی ہیں۔ اگر اپنی لغزشوں پر قائم رہیں تووہ مرتد ہیں۔ہم شخصیت پرستی کے قائل نہیں۔



کفار کے مذہبی شعار پر شخصی کفر کا حکم:

 اگرکافرجماعت کامذہبی شعاراپنایا،جیسے زنار باندھنا تو محض اس مذہبی شعار اپنانے کے سبب اس پرکفر کا حکم عائد ہوگا۔ اس طرح مرتد جماعت کے مذہبی شعار اور کافر جماعت کے مذہبی شعار کے حکم میں فرق ہے۔کافر جماعت کے شعار پر حکم کفرہے اور گمراہ ومرتد جماعت کے شعار پر حکم ضلالت۔

امام احمدرضا قادری نے تحریر فرمایا:”جو مرتکب حرام ہے،مستحق عذاب جہنم ہے،اور جو مرتکب کفر فقہی ہے،جیسے دسہرے کی شرکت یاکافروں کی جے بولنا،اس پر تجدید اسلام لازم ہے،اور اوراپنی عورت سے تجدید نکاح کرے، اور جوقطعاً کافر ہوگیا،جیسے دسہرے میں بطور مذکور ہنود کے ساتھ ناقوس بجانے یامعبودان کفار پر پھول چڑھانے والا کافر مرتد ہوگیا، اس کی عورت نکاح سے نکل گئی۔اگر تائب ہو،اور اسلام لائے، جب بھی عورت کواختیار ہے۔ بعد عدت جس سے چاہے،نکاح کرلے،اوربے توبہ مرجائے تو اسے مسلمانوں کی طرح غسل وکفن دینا حرام،اس کے جنازے کی شرکت حرام،اسے مقابر مسلمین میں دفن کرنا حرام،اس پر نماز پڑھنا حرام،الیٰ غیر ذلک من الاحکام:واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ششم:ص149-150-رضا اکیڈمی ممبئ)



صرف ایک علامت اختیارکرنے کا حکم:

 اگرکسی گمراہ،مرتد یا کافر جماعت کے ایک شعاراورایک علامت کو اپنایا تو بھی تشبہ ہوجائے گا،اورشرعی حکم نافذہوگا۔فتاویٰ رضویہ (جلدنہم:جزدوم:ص148تا 151)میں اس سے متعلق ایک مفصل فتویٰ مرقوم ہے۔اس کا ایک اقتباس مندرجہ ذیل ہے۔

”جوبات کفار یا بدمذہبان اشرار یافساق فجار کا شعار ہو،بغیر کسی حاجت شرعیہ کے برغبت نفس اس کا اختیار مطلقاً ممنوع وناجائز وگناہ ہے،اگر چہ وہ ایک ہی چیز ہو کہ اس سے اس وجہ خاص میں ضرور ان سے تشبہ ہوگا۔اسی قدر منع کوکافی ہے،اگرچہ دیگر وجوہ سے تشبہ نہ ہو“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد نہم:جزدوم:ص 148-رضا اکیڈمی ممبئ)

طارق انورمصباحی

جاری کردہ:04:فروری 2021
٭٭٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے