دوسری حدیث ‏کلمہ شہادت

دوسری حدیث
_______________

کلمہ شہادت
_______________

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ النَّارَ ". (صحيح مسلم، كِتَابٌ : الْإِيمَانُ، بَابٌ : مَنْ مَاتَ عَلَى التَّوْحِيدِ دَخَلَ الْجَنَّةَ، ج١، الحدیث ٢٩)
ترجمہ : حضرت عبادہ بن صامت - رضي الله عنه - نے کہا کہ میں نے رسول اللہ - ﷺ - کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ خدائے تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد - ﷺ - اللہ کے رسول ہیں تو اللہ - عَزَّوَجَلَّ - اس پر دوزخ کی آگ کو حرام فرما دیتا ہے -
_______________


تشریح و توضیح :
_________
اس حدیث کی جامعیت :
حدیث بالا کی جامعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علماے امت نے اس حدیث کو ایمانیات کا جامع اور مرجع و مخزن قرار دیا ہے، اسی لیے اس کی جامعیت پر بے شمار محدثین و متکلمین بلکہ صوفیاے کاملین نے بھی کلام کیا ہے لیکن ان سب میں مجھے شیخ محقق مدقق علامہ أبو عبد اللہ محمد بن يوسف السنوسي التلمساني ( ٨٣٢-٨٩٥ هــ) کا کلام دل کو بہت بھایا جو کہ ان کی متن "العقائد السنوسیه / ام البراهين" میں آج بھی موجود ہے؛ آپ - رحمة الله عليه - عقائد اہل سنت کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
و یجمع معاني هذه العقائد کلها قول "لا إله إلا الله محمد رسول الله" - (متن ام البراهين ص ٣٠) 
ترجمہ : اور یہ تمام مذکورہ عقائد جمع ہیں کلمہ "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" میں -
________اس کے بعد کلمہ طیبہ کے پہلے جز پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ "لا إله إلا الله" کے اقرار میں تمام معبودان باطل کا قلع قمع ہو گیا اور اللہ کو معبود مان کر اس کی تمام صفات کو مان لیا نیز اس کی الٰہیت کا تصدیق کر کے وی تمام باتیں مان لیا جو اس کے لیے واجب ہے، جو جائز ہے اور جو جو محال ہے وغیرہ وغیرہ -
 الغرض الٰہیات کی تمام تر تفصیلات اسی جامع کلمہ "لا إله إلا الله" میں موجود ہے -

پھر اسی کلمہ طیبہ کے دوسرے جز پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
اما قولنا "محمد رسول الله" - ﷺ - فیدخل فیه الإيمان بسائر الأنبياء و الملائكة - علیهم الصلاة و السلام - و الکتب السمٰویة، و الیوم الآخر لأنه علیه الصلاة والسلام جاء بتصدق جمیع ذالك کله - (ایضًا) 
ترجمہ : اب رہا ہمارا قول "محمد رسول اللہ" - ﷺ - تو اس میں تمام انبیاء کرام اور تمام فرشتوں علیہم السلام پر ایمان لانا داخل ہو گیا، اور تمام آسمانی کتاب اور آخرت کے دن پر ایمان لانا داخل ہو گیا، اس لیے کہ حضور - ﷺ - ان تمام کی تصدیق لے کر آئے -
________پھر اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ : انبیاء کرام کے لیے جو واجب ہے، جو جائز ہے اور جو محال ہے سب اسی میں داخل ہے نیز تمام ایمانیات کو ماننا اور حضور - ﷺ - کی ایک ایک حدیث کو ماننا اور انھیں کے مطابق ایمان رکھنا یہ تمام تفصیلات حضور صاحب جوامع الکلم - ﷺ - کی اسی ایک جامع حدیث سے ثابت ہے - ام سنوسی - رحمة الله عليه - نے ان سب کو اچھی جامع و مانع تفصیل کے ساتھ "ام البراهين" میں ذکر کیا ہے؛ یہاں بس اس طرف اشارہ کرنا مقصود تھا کہ یہ حدیث کتنی جامع ہے جو کہ _ الحمد للہ _ حاصل ہو گیا -

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ یہی ایک حدیث کس طرح قرآنی آیات کے لیے مفسر ثابت ہوئی؟ 
__________

یہ حدیث قرآنی آیات کی تفسیر :
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
 إِنَّ ٱللَّهَ لَا یَغۡفِرُ أَن یُشۡرَكَ بِهِۦ وَیَغۡفِرُ مَا دُونَ ذَ ٰ⁠لِكَ لِمَن یَشَاۤءُۚ (النساء ٤٨) 
 ترجمہ : بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے - (کنز الایمان) 
 اس آیت میں اللہ رب العزت نے واضح طور پر ارشاد فرما دیا کہ میرے جو بندے گنہ گار ہوں گے، سیاہ کار ہوں گے لیکن مشرک و منافق نہیں ہوں گے تو میں جن جن کو چاہوں گا بخش دوں گا چاہے کتنے ہی بڑے گنہ گار کیوں نہ ہو؛ اب اسی آیت کی تفسیر میں حضور - ﷺ - کی مذکورہ بالا حدیث کو دیکھیں کہ حضور - ﷺ - فرماتے ہیں : 
 مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ النَّارَ. 
 یعنی اللہ رب العزت نے جو آیت میں فرمایا ہے کہ میں جسے چاہوں گا بخش دوں گا اس میں کوئی ایک مسلمان نہیں بلکہ ہر وہ مؤمن جو خلوص دل سے ایمان لایا ہو، کلمہ طیبہ پڑھا ہو سب داخل ہیں؛ تمام مؤمنين پر وہ جہنم جو کافر کے مقدر ہے مثلاً :
 اِلَّا طَرِیْقَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ- (النساء ١٦٩) 
ترجمہ : مگر جہنم کا راستہ کہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے - (کنز الایمان) 
یعنی ہمیشگی والی آگ اور جہنم تمام مؤمنین پر حرام ہے اگر چہ عذاب کے لیے انھیں جہنم میں ڈالا جائے لیکن بالآخر انھیں اس آگ سے نکالا جائے گا کہ ان پر ہمیشگی والی آگ حرام ہے - 
الغرض______ اس جامع حدیث نے جو ان آیات کو سمجھنا آسان کو ہو گیا نیز اس سے وہ تمام شکوک و شبہات بھی دور ہو گئے کہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کافر ہیں یا کفر و ایمان کے بیچ ایک حالت میں ہیں یا گنہ گار مؤمنین بھی ہمیشگی والی آگ میں رہیں گے وغیرہ وغیرہ تمام باطل عقائد کا رد ہو گیا اور بہت سے عقائد اہل سنت ثابت ہوئے؛ جن میں سے تین یہ ہیں :
❶ ــــ گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے بندہ کافر نہیں ہو جاتا کہ اللہ نے شرک کے علاوہ جس کے لیے چاہے تمام گناہوں کو بخش دینے کا وعدہ فرمایا ہے - 
❷ ـــ گنہ گار مؤمنین کفار کے برابر نہیں کیوں کہ حضور - ﷺ - نے مؤمنین کے لیے ہمیشگی والی آگ کو حرام قرار دیا ہے - 
❸ ـــ گنہ گار مؤمنین جہنم میں جا سکتے ہیں لیکن عذاب پانے کے بعد انھیں جہنم سے نکالا جائے گا اور ہمیشگی والی جنت میں داخل کیا جائے - 
وغیرہ وغیرہ عقائد اہل سنت اس حدیث سے ثابت ہوئے اور قرآنی آیات کے معانی بہترین انداز میں ظاہر ہوئے -


فائدہ جلیلہ : اس حدیث کی تشریح میں چند باتیں یاد رکھنے کی ہیں:
❶ ــــ توحید و رسالت کی گواہی کے باوجود اگر کوئی ایسا قول یا فعل پایا گیا جو کفر کی نشانی ہو تو بحکم شریعت اس شخص کا اقرارِ شہادتین باطل ہو جائے گا اور وہ کافر ہو جائے گا - 
❷ ـــ یوں ہی شہادتین کے اقرار کے باوجود آیات و احادیث کے خلاف عقائد گڑھنے والا بھی کافر ہوگا-
 ❸ ـــ نیز یاد رہے کہ اس حدیث کو سن کر مخلص مؤمنین اسلام کے دیگر اوامر و نواہی سے رو گردانی نہیں کرتے بلکہ ایمان اس قدر مضبوط کر لیتے ہیں کہ اللہ اس کے رسول پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول - ﷺ - کے ہر ہر حکم کو ماننے کے لیے بھی اپنی گردن جھکا لیتے ہیں پھر ان کے لیے یہ خوش خبری ہے کہ جہنم کی آگ ان پر حرام ہے -

بنت مفتی عبد المالک مصباحی 
٤ ؍ مارچ ١٢٠٢؁ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے