حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰه عنہ

📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰه عنہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰه عنہ رسول اللّٰهﷺ کے مشہور اصحاب میں سے تھے۔ ابتدائی طور پر ان کا تعلق زرتشتی مذہب سے تھا مگر حق کی تلاش ان کو اسلام کے دامن تک لے آئی۔ آپ کئی زبانیں جانتے تھے اور مختلف مذاہب کا علم رکھتے تھے۔ حضرت محمد ﷺ کے بارے میں مختلف مذاہب کی پیشین گوئیوں کی وجہ سے وہ اس انتظار میں تھے کہ نبی آخرزماں حضرت محمدﷺ کا ظہور ہو اور وہ حق کو اختیار کر سکیں۔

آپ کا نسب: نسبی تعلق اصفہان کے آب الملک کے خاندان سے تھا، مجوسی نام مابہ تھا، اسلام کے بعد سلمان رکھا گیا اور بارگاہِ نبوت سے سلمان الخیر لقب ملا، ابوعبداللّٰه، کنیت ہے۔
سلسلۂ نسب یہ ہے: مابہ ابن بوذخشان بن مورسلان بن یہوذان بن فیروز ابن سہرک۔

حالات: سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایران کے شہر اصفہان کے ایک گاؤں روزبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا تعلق زرتشتی مذہب سے تھا۔ مگر سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا دل سچ کی تلاش میں تھا۔ پہلے آپ نے عیسائیت اختیار کی اور حق کی تلاش جاری رکھی۔ ایک عیسائی راہب نے انہیں بتایا کہ ایک سچے نبی کی آمد قریب ہے جس کی پیشین گوئی پرانی مذہبی کتابوں میں موجود ہے۔ اس باعلم راہب نے اس نبی کا حلیہ اور ان کے ظہور کی ممکنہ جگہ یعنی مدینہ کے بارے میں بھی بتایا جو اس وقت یثرب کہلاتا تھا۔ یہ جاننے کے بعد سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ جانے کی کوشش شروع کر دی۔ مدینہ منورہ کے راستے میں ان کو ایک عرب بدوی گروہ نے دھوکے سے ایک یہودی کے ہاتھ غلام کے طور پر بیچ دیا۔ یہ یہودی مدینہ منورہ میں رہتا تھا چنانچہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ پہنچ گئے اور اس یہودی کے باغ میں سخت محنت پر مجبور ہو گئے۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے سنا کہ ایک نبوت کے دعویدار مکہ شہر سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے ہیں۔ سلمان فارسی رضی اللّٰه عنہ نے ان کی خصوصیات سے فوراً پہچان لیا کہ یہی اللّٰه کے سچے نبی ہیں۔ انہوں نے مہر نبوت بھی ملاحظہ کی۔ اس وقت انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ان کو غلامی سے آزادی دلانے کے لئے رسول اللہﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے کھجور کے درخت بوئے جس کا مقصد یہودی کی شرط پوری کرنا تھا۔

فضائل و مناقب: ان کے بارے میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو ضرور تلاش کر لیں گے۔
(صحیح البخاری حدیث:4897)
(یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ذات پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ امام صاحب کا تعلق اسی قوم سےتھا، اور آج تک اس قوم میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیت کا ظہور نہیں ہوا۔)

غزوہ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی میں حضرت سلمان سب سے زیادہ سرگرم تھے۔ اس پر مہاجرین نے کہا کہ "سلمان ہمارا ہے" انصار نے یہ سنا تو کہا "سلمان ہمارا ہے"۔ 
رسول اللہ ﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "سلمان منا اہل البیت" یعنی سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے، اس لئے سلمان کو مہاجرین یا انصار کے بجائے (بطورِ تکریماً) اہل بیت میں شمار کیا گيا۔
(مستدرک علی الصحیحین:6539/ معجم الکبیر: 6040)

زہد و تقویٰ: ان کا زہد و ورع اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ جس کے بعد رہبانیت کی حد شروع ہوجاتی ہے، اس کی ادنی مثال یہ ہے کہ عمر بھر گھر نہیں بنایا، جہاں کہیں دیوار یا درخت کا سایہ ملتا پڑے رہتے، ایک شخص نے اجازت چاہی کہ میں آپ کے لیے مکان بنادوں؟ فرمایا: مجھ کو اس کی حاجت نہیں، وہ پیہم اصرار کرتا رہا، یہ برابر انکار کرتے رہے، آخر میں اس نے کہا کہ آپ کی مرضی کے مطابق بناؤنگا، فرمایا: وہ کیسا؟ عرض کیا کہ اتنا مختصر کہ کھڑے ہوں تو سر چھت سے مل جائے اور اگر آرام کریں تو پیر دیواروں سے لگیں، فرمایا خیر اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ چنانچہ اس نے ایک جھونپڑی بنادی۔

مواخاۃ: حضورﷺ نے حضرت ابودرداء رضی اللّٰه عنہ سے مواخاۃ (بھائی چارہ ) قائم فرما دیا تھا، اور پھر ان میں ایسی محبت تھی کہ حقیقی بھائیوں میں بھی باید و شاید۔

وفات: حضرت علی رضی اللّٰه عنہ نے سلمان فارسی رضی اللّٰه عنہ کو 656ء میں مدائن کا گورنر مقرر کیا مگر وہاں جانے کے چند ہفتے بعد آپ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی وفات 10 رجب المرجب 33 ہجری میں ہوئی۔ آپ کا مزار مدائن میں ہے۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے