📚 « امجــــدی مضــــامین » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯️رمضان مواسات کا مہینہ ہے🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 امام بیہقی نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک طویل حدیث رمضان المبارک اور روزے کے فضائل میں روایت کی ہے۔ اس میں ہے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ مہینہ مواسات کا ہے اور اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے جو اس میں روزہ افطار کرائے اس کے گناہوں کے لیے مغفرت کا سبب ہے اور اس کی گردن (جہنم) کی آگ سے آزاد کرادی جائے گی اور افطار کرانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا روزہ رکھنے والے کو، بغیر اس کے کہ اس کے اجر میں سے کچھ کم ہو۔ (صحابہ کہتے ہیں) ہم نے عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! ہم میں کا ہر شخص وہ چیز نہیں پاتا جس سے روزہ افطار کرائے۔
حضور نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو (بھی) دے گا جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک خرما (کھجور) یا ایک گھونٹ پانی سے روزہ افطار کرائے اور جس نے روزہ دار کو بھرپیٹ کھانا کھلایا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے پلائے گا کہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے،یہ وہ مہینہ ہے کہ اس کا اول رحمت ہے اور اس کا اوسط مغفرت ہے اور اس کاآخر جہنم سے آزادی ہے۔ جو اس مہینے میں اپنے غلام پر تخفیف کرے یعنی کام میں کمی کرے اللہ اسے بخش دے گا اور جہنم سے آزاد فرمائے گا۔ (بہارِ شریعت: ۵/۹۳، فاروقیہ)
اس حدیث پاک میں جہاں روزے کے فضائل اور ماہ رمضان کی برکتوں کا ذکر ہے وہیں اس میں مسلمانوں کو اس بات کی بھی ترغیب دلائی گئی ہے کہ اس ماہ مبارک کو اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مواسات میں گزاریں۔ مواسات کے معنی ہیں، غم گساری، ہم دردی، جان و مال سے کسی کی مدد کرنا۔ یہ بڑا جامع لفظ ہے، امیر غریب سب کی بھلائی اور ہم دردی اس میں آگئی، کوئی غم گین ہو اس کی حاجت روائی کرے، پریشان و متفکر ہو تو اس کو دلاسہ دے، نیک مشوروں اور خوش کن کلمات سے اس کی پریشانی رفع کرے۔ افطار کرانا اور روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلانا یہ بھی ایسی نیکیاں ہیں جن کی حدیث میں ترغیب دلائی گئی ہے۔ اس میں امیر غریب دونوں برابر ہیں لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ کسی غریب کا روزہ افطار کرانا اور اچھی غذا سے بھرپور ضیافت کرنا ایک بڑی نیکی ہی نہیں غربا پروری اور غم گساری کی بھی مثال ہے اور مواسات ہی کا تقاضا ہے کہ غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کو تلاش کر کے اس ماہ مبارک میں اس کی کفالت کی جائے، ان کو احساس کمتری کے گڈھے سے نکالا جائے۔ ان کے چہروں سے افسردگی دور کی جائے اور اس کے لیے کچھ ضروری نہیں کہ زکوٰۃ فطرے ہی کی رقم استعمال کی جائے، رشتہ داری، پڑوس اور اسلامی بھائی چارہ کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی نجی رقموں سے جس قدر ہو سکے اس کی غم گساری کی جائے، زکوٰۃ فرض اور فطرہ تو واجب ہے ان کو ادا کرنا ہی ہے۔ زکوٰۃ اس وقت فرض ہے جب مالک نصاب کے مال پر سال پورا ہو اور فطرہ عید کے دن واجب ہوتا ہے، اگرچہ پیشگی ادا کرنا بھی صحیح ہے، اس لیے رمضان المبارک کو جو ماہ مواسات کہا گیا ہے، غالباً اس کا تقاضا یہی ہے کہ خاص اس مہینے میں غربا پروری اور اپنے بھائیوں کی غم گساری اپنے مالِ خاص سے کی جائے، ہاں جس کے پاس اتنا حوصلہ نہ ہو وہ زکوٰۃ اور فطرے پر ہی اکتفا کرے یہ بھی بسا غنیمت ہے۔
آج کل عام طور سے یہ دیکھا جاتا ہے لوگ بڑوں کو، مال داروں کو افطار کے لیے دعوت دیتے ہیں دبے کچلے غریب و محتاج افراد کو نظر انداز کر دیتے ہیں، جب کہ یہ زیادہ اس کے مستحق ہیں کہ ان کی افطاری سحری اور کھانے کا اہتمام کیا جائے تا کہ ان کے دل سے جو دعائیں نکلیں وہ اہل ثروت حضرات کے گناہوں کا کفارہ اور دفع بلیات کا ذریعہ بن جائیں، بعض اہل خیر حضرات اس خاص پہلو پر توجہ دیتے بھی ہیں ان کا یہ عمل دوسرے لوگوں کے لئے لائق تقلید ہے۔
(رمضان المبارک اور ہماری ذمے داریاں، از مولانا محمد عبدالمبین نعمانی قادری، 📚مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں)
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
پیشکش⬅️ اعلٰی حضرت ریسرچ سینٹر مالیگاؤں
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں