-----------------------------------------------------------
🕯️فتاویٰ رضویہ کا علمی مقام🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی علیہ الرحمۃ والرضوان (۱۲۷۲ھ۔۱۳۴۰ھ)کی بلند پایہ ،قابل قدر اور ہمہ جہت شخصیت نہ صرف برصغیر ہند و پاک بلکہ پورے عالم اسلام میں کسی تعارف وتبصرے کی محتاج نہیں، آپ کی ذات بلا شبہہ برہان الٰہی ہے ،معجزۂ رسول ہے، وہبی علوم وفنون کا ایک ایسا بحر ذخار ہے جس کی گہرائی، وسعت اور گیرائی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ،حکمت و دانائی کا ایک بیش بہا خزانہ ہے جس کی قیمت نہیں لگائی جا سکتی، علم و مشاہدہ ،فقہ و تدبر کا ایسا عمیق سمندر ہے جس میں غوطہ لگانے والا ’’ہل من مزید ‘‘ کا نعرہ بلند کرتا دکھائی دیتا ہے اور ایسے نادر و نایاب موتی لے کر نکلتا ہے جس سے آنکھیں خیرہ ہوتیں، قلوب اذہان کو روشنی ملتی، اہل اسلام کے ایمان وایقان کو جلا ملتی اور عقائدو اعمال کی تزئین کاری ہوتی ہے۔اللہ عزوجل نے آپ کو حرارت ایمانی، استقامت علی الدین ، تصلب فی الدین اور عشق رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ایسا وافر و بیش بہا خزانہ عطا فرمایا بلا شبہہ جو تائید ربانی اور خالص عطائے الٰہی کا مظہر اتم ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہ نے تقریباً ۵۴ سال تک مسند افتا کو رونق بخشی، ایک ہزار سے زائد کتب و رسائل تحریر فرمائے، ۵۵ سے زیادہ علوم و فنون میں تبحر حاصل کیا، ان گنت تحقیقات علمیہ وادبیہ پیش کیے ،بے شمار فتاویٰ لکھے اور اس قدر باریک بینی اور دقت نظر سے لا ینحل مسائل کا تصفیہ فرمایا کہ اپنے وقت کا بڑے سے بڑا تنقید نگار بھی قلم ہاتھ میں لیے سوچتا رہ گیا، وقت کے مقتدر علما وفقہا نے جن چار شخصیات کے بارے میں متفقہ طور پر کہا کہ اللّٰه تعالیٰ نے ان کے قلم کو خطا سے محفوظ رکھا ہے امام احمد رضا کی ذات ان میں ایک ہے۔ آپ کے فتاویٰ کا خوب صورت مجموعہ ’’العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ‘‘ کے مبارک نام سے نہ صرف یہ کہ مشہور ہے بلکہ علماء و فقہاء و مفتیان کرام کے لیے ایک ضرورت ہے، ہر کوئی ان کی اہمیت وافادیت تسلیم کرتا ہے ۔
انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سید عبدالرحمٰن بخاری لکھتے ہیں :
’’لوگ احمد رضا کو اپنے عہد کا مجدد کہتے ہیں اور میں اسے آنے والے ہر دور کے لیے اپنے رسول صل اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معجزہ سمجھتا ہوں۔ لوگ اسے فاضل بریلوی پکارتے ہیں اور میں اسے آیت الٰہی دیکھتا ہوں۔ لوگ اسے فقیہ وعالم ٹھہراتے ہیں اور میں اسے فہم دین میں ’’حجت ‘‘گردانتا ہوں ‘‘
(سہ ماہی افکار رضاممبئی شمارہ اپریل تا جون ۲۰۰۰ء ص۵۸)
امام احمد رضا کی آفاقی ذات پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ حنیف خان رضوی بریلوی (مرتب جامع الاحادیث) رقم طراز ہیں :
’’امام احمد رضا بلا شبہہ اپنے دور میں پوری دنیا کے لیے مرجع فتاویٰ تھے ۔ آپ کے دارالافتا میں بر اعظم ایشیا،افریقہ،یورپ اور امریکہ سے استفتا آتے تھے اور ایک وقت میں پانچ پانچ سو جمع ہو جاتے تھے اور سب کے جواب اسی شرح وبسط کے ساتھ مجتہدانہ شان سے دیے جاتے ،لیکن امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقلید سے سر مو انحراف نہیں ہوتا بلکہ اپنے مسلک حنفی پر شدت سے کار بند رہتے، آپ کے فتاویٰ سے عوام و خواص، علما وصلحا اور مفتیان دین متین وقاضیان عدالت سبھی مستفید ہوتے تھے اور آج بھی ہو رہے ہیں ،آپ کی اس شان فقاہت اور تبحر علمی سے متاثر ہو کر ہی علمائے عرب وعجم نے بالاتفاق چودہویں صدی کا مجدد تسلیم کیا اور علمائے حرمین شریفین زادہما شرفاً و تعظیماً تو کثیر تعداد میں آپ کے سامنے زانوے ادب طے کرتے نظر آئے، آپ سے سندیں حاصل کیا‘‘ (مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص۷)
حافظ کتب حرم شریف مکہ حضرت علامہ سید اسماعیل خلیل مکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کی علمی تحقیقات اور فقہی جواہر پاروں کو دیکھ کر پکار اٹھے: (ترجمہ)’’میں اللہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگر امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان فتاویٰ کو دیکھتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور ان فتاویٰ کے مؤلف یعنی امام احمد رضا کو اپنے تلامذہ میں شامل کرلیتے‘‘ (الاجازۃ المتنیۃ لعلماء بکۃ والمدینۃص۲۲ص)
تاج العلما اولاد رسول حضرت محمد میاں مارہروی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’اعلیٰ حضرت کو میں علامہ ابن عابدین شامی پر فوقیت دیتا ہوں ،کیوں کہ جو جامعیت اعلیٰ حضرت کے ہاں ہے وہ ابن عابدین شامی کے ہاں نہیں ‘‘(امام احمد رضا کی فقہی بصیرت ص۶۴)
فتاویٰ رضویہ کے علمی مقام اور جامعیت، آپ کی شان فقاہت، علمیت ،اور محققانہ قدر و وقار کا آپ سے نظریاتی اختلاف رائے رکھنے والوں نے بھی اعتراف کیا۔
ماہ نامہ’’ معارف ‘‘اعظم گڑھ کا فتاویٰ رضویہ پر یہ تبصرہ پڑھئے اور عش عش کر اٹھئے، لکھتا ہے :
’’مولانا احمد رضا خان صاحب مرحوم اپنے وقت کے زبر دست عالم، مصنف اور فقیہ تھے، انہوں نے چھوٹے بڑے سینکڑوں فقہی مسائل سے متعلق رسالے لکھے ہیں، قرآن کا ایک سلیس ترجمہ بھی کیا ہے ۔ان علمی کارناموں کے ساتھ ساتھ ہزارہا فتووں کے جوابات بھی انہوں نے دیے ہیں ،ان کے بعض فتاوے کئی کئی صفحے کے ہیں، فقہ اور حدیث پر ان کی نطر بڑی وسیع ہے دو جلدیں اس سے پہلے شائع ہو چکی ہیں ِاب تیسری جلد دارالاشاعت مبارک پور اعظم گڑھ نے شائع کی ہے، اس جلد میں ۸۴۲ مسائل ہیں ابھی ان کے فتاوے کی آٹھ جلدیں اور باقی ہیں ان فتاویٰ میں بعض پیدا شدہ مسائل کے متعلق بھی فتوے ہیں جن کا جواب مولانا نے بڑی وسعت نظری سے دیا ہے، بہر حال مولانا کے مخصوص خیالات (مسئلہ تکفیر )سے قطع نظر ان کے فتاویٰ اس قابل ہیںکہ ان کا مطالعہ کیا جائے، ان سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے"
(معارف اعظم گڑھ فروری ۱۹۶۲ئ)
ہفت روزہ’’ شہاب‘‘ لاہور نے بھی برملا اس حقیقت کا اعتراف کیا، ملاحظہ ہو:
’’مولانا غلام علی صاحب نائب مولانا مودودی صاحب نے مولانا احمد رضا خان صاحب کی کتابیں لے کر مطالعہ فرمائیں تو فرمایا: حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان صاحب کے بارے میں اب تک ہم لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں ،ان کی بعض تصانیف اور فتاویٰ کے مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہونچا ہوں کہ جو علمی گہرائی میں نے ان کے یہاں پائی وہ بہت کم علماء میں پائی جاتی ہے اور عشق خدا ورسول تو ان کی سطر سطر سے پھوٹا پڑتا ہے ۔مجھے تو ان سے سوائے مسئلہ تکفیر کے کسی مسئلہ میں کوئی خاص اختلاف نہیں، جتنے بھی اختلاف ہیں وہ بہت معمولی ہیں، البتہ علمائے دیوبند کی تکفیر کے بارے میں انہوں نے تشدد برتا ہے ،یہ علاحدہ بات ہے کہ وہ ا س میں مخلص نظر آتے ہیں تا ہم ان کے نتیجے سے ہم متفق نہیں کہ ان کی عبارات کی کوئی قابل قبول تاویل نہیں۔ اگر چہ وہ عبارات قابل اعتراض ہیں مگر ان کی نیت پر شبہہ اور تکفیر پر اصرار زیادتی ہے۔
(ہفت روزہ شہاب لاہور ۲۵؍نومبر ۱۹۶۲ئ)
فتاویٰ رضویہ کی ایک بہت بڑی خصوصیت اور امتیاز یہ ہے کہ سولات کا جواب دینے میں سائل کی نفسیات کا بھر پور خیال ملحوظ رکھا گیا ہے، قدرتی طور پر امام احمد رضا کو احساس ہوجاتا تھا کہ مستفتی کی اپنی علمی قابلیت ولیاقت کس معیار کی ہے ،اس کا تعلق عوام سے ہے یا خواص سے؟ تفصیلی جواب کا طالب ہے یا اجمالاً نفس جواب کا متمنی ہے؟ دوسری بات یہ کہ آپ کا اسلوب تحقیق بہت بلند ہے، انداز تحریر بڑا دلکش ہے، در حقیقت فتاویٰ رضویہ دلائل و براہین ،شواہد و نظائر کا ایسا خوب صورت امتزاج ہے کہ قاری کے دل میں شک وشبہہ کی گنجائش یکسر ختم ہوجاتی ہے اور وہ مزید کسی دلیل کا متقاضی نہیں ہوتا، اگر غیر جانب دار ہے، عناد و عداوت سے پرے ہوکر ان کا مطالعہ کرتا ہے تو حق قبول کرنا اس کی مجبوری بن جاتی ہے ،اردو،عربی اور فارسی تین زبانوں میں موجود یہ فتاویٰ مسائل شرعیہ کا ایک عظیم شاہ کار ہیں ،علوم و فنون کا گراں قدر سرمایہ ہیں، تحقیقات و تنقیحات کا حسین گل دستہ ہیں ،محققانہ جلال، عالمانہ وفقیہانہ جمال کے آبدار موتیوں سے سجے دکھائی دیتے ہیںاور مجتہدانہ شان ٹپکتی ہے ۔ ؎
وادی رضا کی کوہِ ہمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھئے وہ علاقہ رضا کا ہے
اگلوں نے تو لکھا ہے بہت علم دین پر
جو کچھ ہے اس صدی میں وہ تنہا رضا کا ہے
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرسل📬 محمد ارشد رضا خان
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں