-----------------------------------------------------------
🕯️اُخروی حساب سے غفلت کے معاملے میں کفار کی روش اور مسلمانوں کا حال🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 فی زمانہ مسلمانوں میں بھی قیامت کے دن اپنے اعمال کے حساب سے غفلت بہت عام ہو چکی ہے اور آج انہیں بھی جب نصیحت کی جاتی ہے اورموت کی تکلیف، قبر کی تنگی، قیامت کی ہولناکی، حساب کی سختی اور جہنم کے دردناک عذاب سے ڈرایا جاتا ہے تو یہ عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی بجائے منہ پھیر کر گزر جاتے ہیں ، حالانکہ مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جو کافروں اور مشرکوں کا شیوہ ہو۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
’’اے انسان! تجھے اپنے کریم رب عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے کہ تو دروازے بند کرکے، پردے لٹکا کر اور لوگوں سے چھپ کر فسق و فجور اور گناہوں میں مبتلا ہوگیا! (تو لوگوں کے خبردار ہونے سے ڈرتا ہے حالانکہ تجھے پیدا کرنے والے سے تیرا کوئی حال چھپا ہوا نہیں ) جب تیرے اَعضا تیرے خلاف گواہی دیں گے (اور جو کچھ تو لوگوں سے چھپ کر کرتا رہا وہ سب ظاہر کر دیں گے) تو اس وقت تو کیا کرے گا۔
اے غافلوں کی جماعت ! تمہارے لئے مکمل خرابی ہے، اللّٰه تعالیٰ تمہارے پاس سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بھیجے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر روشن کتاب نازل فرمائے (جس میں ہر چیز کی تفصیل موجود ہے) اور تمہیں قیامت کے اوصاف کی خبر دے، پھر تمہاری غفلت سے بھی تمہیں آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمائے کہ:
’’ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ ( ۱) مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْهُ وَ هُمْ یَلْعَبُوْنَۙ( ۲) لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ ‘‘ ( انبیاء :۱-۳ )
ترجمہ : لوگوں کا حساب قریب آگیا اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ جب ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے کھیلتے ہوئے ہی سنتے ہیں ۔ ان کے دل کھیل میں پڑے ہوئے ہیں۔
پھر وہ ہمیں قیامت قریب ہونے کے بارے میں بتاتے ہوئے ارشاد فرمائے کہ: ’’ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ ‘‘ ( قمر :۱ )
ترجمہ: قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔
اور ارشاد فرمائے کہ: ’’ اِنَّهُمْ یَرَوْنَهٗ بَعِیْدًاۙ( ۶) وَّ نَرٰىهُ قَرِیْبًا ‘‘ ( معارج ۶،۷ )
ترجمہ: بیشک وہ اسے دور سمجھ رہے ہیں۔ اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔
اور ارشاد فرمائے کہ: ’’وَ مَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا ‘‘ ( احزاب :۶۳ )
ترجمہ: اور تم کیا جانو شاید قیامت قریب ہی ہو۔
اس کے بعد تمہاری سب سے اچھی حالت تو یہ ہونی چاہئے کہ تم اس قرآنِ عظیم کے دئیے درس پر عمل کرو، لیکن اس کے برعکس تمہارا حال یہ ہے کہ تم اس قرآن کے معانی میں غور و فکر نہیں کرتے اور روزِ قیامت کے بے شمار اَوصاف اور ناموں کو (عبرت کی نگاہ سے) نہیں دیکھتے اور اس دن کی مصیبتوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوشش نہیں کرتے۔ ہم اس غفلت سے اللّٰه تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں (اور دعا کرتے ہیں کہ) اللّٰه تعالیٰ اپنی وسیع رحمت سے اس غفلت کو دور فرمائے۔
(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الشطر الثانی من کتاب ذکر الموت فی احوال المیت۔ الخ، صفۃ یوم القیامۃ ودواہیہ واسامیہ ، ۵ / ۲۷۶)
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ ارشـد رضـا خـان رضـوی امجـدی، ممبر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 7620132158
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں