ایمان کیا ہے؟ ‏

الأربعين لصاحبِ جوامع الکلم و الحکم 

(کوزے میں سمندر)
کی


ساتویں حدیث
______________

ایمان کیا ہے؟ 
 _______________

عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ : قَالَ (جِبْرِيلُ) : فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ. قَالَ - ﷺ - :
" أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، خَيْرِهِ وَشَرِّهِ ". (صحيح مسلم، كِتَابٌ : الْإِيمَانُ، بَابٌ : بَيَانُ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْإِحْسَانِ، الحديث ٨)
ترجمہ : (ایمان یہ ہے کہ) تم ایمان لاؤ اللہ پر، اور اس کے فرشتوں پر، اور اس کی کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر، اور آخرت کے دن پر اور یہ کہ تم ایمان لاؤ تقدیر کے اچھے اور برے پر - 

 _______________
 
وضاحت : یہ حدیث "حدیث جبریل" کا حصہ ہے، چوں کہ ہمیں اس باب میں اختصارا ایمانیات پر روشنی ڈالنی ہے اور حضور ﷺ کے جامع اقوال کو ذکر کرنا ہے اسی لیے ہم نے مکمل حدیث جبریل نقل نہیں کیا وجہ یہ رہی کہ یہ حدیث تفصیلی ہے اور اس کی تشریح بھی مفصل ہے حتیٰ کہ اس کی شرح میں کئی علماء نے باقاعدہ کتابیں لکھی ہیں جو کہ عربی اور اردو دونوں زبان میں موجود ہیں؛ لہٰذا ہم نے اختصار کے پیش نظر اس حدیث سے صرف "مَا الْإِيمَانُ ؟" کو لیا ہے - اب آئیے دیکھتے ہیں..... 
اس حدیث کی جامعیت :
یہ حدیث جس میں جبریل امین علیہ السلام کے سوالات اور حضور - ﷺ - کے جوابات ہیں؛ اور اخیر میں واضح کیا گیا ہے کہ حضرت جبریل سوالات کے ذریعے تمھیں دین سکھانے آئے تھے، اسی نسبت سے یہ حدیث "حدیث جبریل" کے نام سے مشہور و معروف ہے - اس حدیث کی جامعیت پر بے شمار شارحین محدثین کے اقوال ہیں جن میں سے تین یہ ہیں : 
❶ ــــ یہ حدیث ایمانیات اور اعمال، ظاہری باطنی علوم کا مرجع :
اس حدیث کی شرح میں قاضی عیاض - رحمة الله عليه - کا قول جسے بعد کے اکثر علماء نے نقل فرمایا جن میں سے امام نووی اور حافظ ابن حجر عسقلانی بھی ہیں؛ چناں چہ قاضی عیاض - رحمة الله عليه - اس حدیث کی شرح فرماتے ہیں :
ترجمہ : یہ حدیث تمام ظاہری وباطنی عبادات کا مجموعہ ہے،اس میں امورِ ایمان بھی ہیں اور ظاہری اعمال بھی، نیز یہ حدیث اخلاص کی تعلیم اور آفاتِ اعمال سے تحفظ جیسے امورپر بھی مشتمل ہے،تمام علومِ شریعت اسی حدیث کی طرف لوٹتے ہیں اور اسی حدیث سے پھوٹتے ہیں - 
(شرح مسلم للقاضی عیاض، کتاب الایمان، باب بیان الایمان و الاسلام و الإحسان.... الخ، ج١، ص٢٠٤_٢٠٥)
"وهذا الحديث قد اشتمل على شرح جميع وظائف العبادات الظاهرة والباطنة، من عقود الإيمان وأعمال الجوارح وإخلاص السرائر والتحفظ من آفات الأعمال، حتى إنَّ علومَ الشريعة كلَّها راجعةٌ إليه ومتشعِّبةٌ منه" - 
❷ ـــ یہ حدیث "اصل اسلام" :
 امام نووی - رحمة الله عليه - نے اسی حدیث کے بارے میں ارشاد فرمایا :
"واعلم أن هذا الحديث يجمع أنواعا من العلوم و المعارف والآداب و اللطائف، بل هو أصل الإسلام" - 
(صحيح مسلم بشرح النووی، کتاب الایمان، تعریف الاسلام و الایمان، ج١، ص١٦١، مطبوعہ المطبعة المصرية بالأزهر) 
ترجمہ : جان لو کہ یہ حدیث علوم و معارف اور آداب و لطائف کی بہت سی انواع پر مشتمل ہے، بلکہ یہ حدیث "اصلِ اسلام" ہے ۔
❸ ـــ یہ حدیث "أم السنہ" :
امام ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے :
"قال القرطبي: هذا الحديث يصلح أن يقال له: "أم السنة"، لما تضمنه من جمل علم السنة. 
وقال الطيبي: لهذه النكتة استفتح به البغوي كتابيه: " المصابيح " و " شرح السنة " اقتداء بالقرآن في افتتاحه بالفاتحة؛ لأنها تضمنت علوم القرآن إجمالا".
(فتح الباری بشرح صحيح البخاری، کتاب الایمان، باب ٣٧، حدیث ٥٠، ص ٢٢٦، مطبوعہ دار طیبہ) 
ترجمہ : امام قرطبی - رحمة الله عليه - فرماتے ہیں: ’’مناسب ہوگا کہ اس حدیث کو "اُم السنۃ" (یعنی سنت کی ماں) کا نام دیاجائے؛ کیوں کہ یہ حدیث تقریباً جملہ علومِ شریعت کو متضمن ہے۔‘‘ 
اور امام شرف الدین الطیبی - رحمة الله عليه - "شرح الطیبي علي مشکاة المصابیح" میں اس حدیث کے ضمن لکھتے ہیں :’’صاحب مصابیح امام بغوی کا اس حدیث سے اپنی کتاب کو شروع کرنے میں حکمت یہ ہے کہ قرآن کی اقتداء ہو جائے کہ اس کی شروعات سورہ فاتحہ (اُم القرآن) سے ہوئی جس میں علوم قرآن کا اجمالا ذکر ہے (لہٰذا ہم بھی حدیث جبریل (اُم السنہ) سے شروع کرتے ہیں جس میں کل احادیث رسول کا إجمالا ذکر ہے)۔‘‘
______اب دیکھتے ہیں کہ ان علماء نے اس حدیث کو کس بنا پر اس قدر جامع و مانع قرار دیا ہے؟
واقعی یہ حضور - ﷺ - کی جامع ترین احادیث میں سے ہے اور عقائد و اعمال، علوم ظاہری و باطنی کا مرجع و مخزن اور اصل الاسلام نیز ام السنہ ہے کہ حضور نے حضرت جبریل علیہ السلام کے ہر ہر سوال کا بڑا جامع جواب عطا فرمایا ہے کہ مختصر الفاظ ڈھیروں معانی سمیٹے ہوئے ہیں؛ مثال کے طور پر حدیث کا مذکورہ بالا حصہ لے لیں کہ "ایمان کیا ہے؟" اس کے جواب میں حضور - ﷺ - نے صرف ایک جملے میں ایمان مفصل بیان فرما دیا؛ اور ارشاد فرمایا : "تم ایمان لاؤ اللہ پر، اور اس کے فرشتوں پر، اور اس کی کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر، اور آخرت کے دن پر اور یہ کہ تم ایمان لاؤ تقدیر کے اچھے اور برے پر" -
💫 اس حدیث کی خوبصورت ترتیب : 
واضح رہے کہ حضور - ﷺ - کی اس حدیث میں ترتیب بیانِ فضیلت کے لیے نہیں ہے بلکہ محض ایمانیات کے شمار کے لیے یعنی یہاں واؤ ترتیبی نہیں بلکہ عاطفہ ہے - اور اس ترتیب میں حضور - ﷺ - نے قرآن سے موافقت کے طور پر بھی ارشاد فرمایا کہ آیت کریمہ ہے :
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫- (البقرة؛ ٢٨٥)
ترجمہ : رسول ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کے پاس سے اس پر اترا اور ایمان والے، سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو یہ کہتے ہوئے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے -
اور آیت و حدیث کے اس ترتیب کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقالی کا جملہ بڑا لطیف اور عام فہم ہے؛ آپ - رحمة الله عليه - لکھتے ہیں :
"وقدم الملائكة على الكتب والرسل نظرا للترتيب الواقع؛ لأنه سبحانه وتعالى أرسل الملك بالكتاب إلى الرسول وليس فيه متمسك لمن فضل الملك على الرسول". 
(فتح الباری بشرح صحيح البخاری، کتاب الایمان، باب ٣٧، حدیث ٥٠، ص ٢١٣، مطبوعہ دار طیبہ) 
ترجمہ : ملائکہ کو کُتُب اور رُسُل پر ترتیب واقع (وردو) کی وجہ سے مقدم کیا گیا ہے؛ اس طرح کہ اللہ - ﷻ - نے ملائکہ کو بھیجا کتابوں کے ساتھ رسولوں کی طرف (تو پہلے ملائکہ پھر کتب اور پھر رسُل کا عمل وجود میں آیا) ایسا نہیں ہے کہ ملائکہ کو رسولوں پر فضیلت کی وجہ سے مقدم رکھا گیا ہے -
بہر حال..... یہ بات تھی حضور - ﷺ - کے جملے کی خوبصورتی کی؛ اب دیکھتے ہیں.... 
💫اس حدیث کے معانی : مذکورہ بالا حدیث کو بغور پڑھا جائے تو کئی اعتقاد ثابت ہوتے ہیں اور کئی بات راجح ہوتی ہیں مثلاً ایمان کی تعریف میں اختلاف کہ ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے یا تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالارکان کے مجموعہ کا نام ہے؟ اسی طرح ایمان میں کمی و زیادتی ہوتی ہے یا نہیں؟ نیز اجمالی ایمان لانا کافی ہے یا تفصیلی؟ وغیرہ وغیرہ اومور ثابت ہوتے ہیں؛ ہم انھیں تینوں کو بالترتيب وضاحت کے ساتھ دیکھتے ہیں؛ اولا...... 
❶ ــــ اصل ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے یا تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالارکان کے مجموعہ کا نام ہے؟ : 
اس حدیث میں حضور - ﷺ - نے ایمان کی تعریف میں حقیقت ایمان بتاتے ہوئے اعمال کا کوئی ذکر نہیں فرمایا بلکہ صرف قلبی امور کو شمار فرمایا جس صاف ظاہر ہے کہ "اصل ایمان صرف تصدیق قلبی ہی کا نام ہے، اعمالِ بدن جزو ایمان نہیں" -
 یہ مسئلہ تو ہم احناف کے نزدیک تو واضح ہے لیکن اس میں دیگر فقہا ع محدثین کا اختلاف ہے اسی لیے مذکورہ بالا حدیث سے حاصل شدہ مسئلہ مزید دلائل سے ثابت کرتے ہیں؛ تفصیل میں جائے بغیر سر دست اس موضوع پر تین آیات، تین احادیث اور تین اسلاف کے تین اقوال ذکر کر دیتے ہیں -
 
💫قرآنی آیات :
❶ ــــ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىٕنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ (النحل؛ ١٠٨) 
ترجمہ : سوا اس کے جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا (اس کے لیے درناک عذاب نہیں ہے) -
یہاں اللہ رب العزت حالت اکراہ و اضطرار کا ذکر فرمایا کہ حالت اکراہ میں  اگر دل ایمان پر جما ہوا ہو تو کلمۂ کفر کا زبان پر جاری کرنا جائز ہے جب کہ آدمی کو اپنی جان یا کسی عُضْوْ کے تَلف ہونے کا (حقیقی) خوف ہو اور صورت میں وہ مؤمن ہی رہے گا (اس مسئلے کو کتب فقہ و تفسیر میں تفصیل سے پڑھ لیا جائے) لہذا ثابت ہوا کہ اصل ایمان صرف تصدیق قلبی ہی کا نام ہے -
❷ ـــ یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْۚۛ- (المائدہ؛ ٤١)
ترجمہ : اے رسول تمہیں غمگین نہ کریں وہ جو کفر پر دوڑتے ہیں کچھ وہ جواپنے منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور ان کے دل مسلمان نہیں -
اس آیت اور اس طرح کی بے شمار آیات میں اللہ رب العزت نے صراحتاً فرمایا کہ جب تک دل تصدیق نہ کرتا ہو اور مؤمن نہ ہو اس وقت تک اقرار باللسان اور عمل بالارکان کا کوئی فائدہ نہیں یعنی اصل ایمان تصدیق قلبی ہی کا نام ہے -
❸ ـــ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِكُمْؕ- (حجرات؛ ١٤)
ترجمہ : ابھی ایمان تمہارے دلوں میں کہاں داخل ہوا -
یہاں بھی اللہ رب العزت ایمان کی اصل جگہ اور مستقر دل پہ کو قرار دیا ہے -
💫احادیث :
 بے شمار احادیث اس امر پر دال ہے کہ ایمان تصدیق قلبی ہی نام ہے؛ ان میں سے ایک (❶ ــــ) تو مذکورہ بالا حدیث ہی اور اس کے علاوہ ہمارے چہل احادیث کی دوسری (❷ ـــ) حدیث جس میں ارشاد ہوا کہ " مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ النَّارَ" اس میں بھی حضور - ﷺ - نے صرف گواہی یعنی تصدیق کو اصل ایمان قرار دیا ہے (اگر چہ تبعا دیگر اعمال بھی شامل ہیں) مزید تفصیلات کے لیے اس حدیث کی شرح کی طرف رجوع کریں!
❸ ـــ تیسری حدیث  :
عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، وَهَذَا حَدِيثُ ابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، فَصَبَّحْنَا الْحُرَقَاتِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَأَدْرَكْتُ رَجُلًا، فَقَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَطَعَنْتُهُ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ، فَذَكَرْتُهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَقَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَقَتَلْتَهُ ؟ " قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا قَالَهَا خَوْفًا مِنَ السِّلَاحِ. قَالَ : " أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ أَقَالَهَا أَمْ لَا ؟ "
(صحيح مسلم، كِتَابٌ : الْإِيمَانُ، بَابٌ : تَحْرِيمُ قَتْلِ الْكَافِرِ بَعْدَ قَوْلِ الشَّهَادَةِ، الحديث ٩٦) 
 ترجمہ : حضرت اسامہ بن زید - رضي الله عنه - سے روایت ہے ( حدیث کے الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں) کہا :رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک چھوٹے لشکر میں (جنگ کے لیے ) بھیجا ، ہم نے صبح صبح قبیلہ جہینہ کی شاخ حرقات پر حملہ کیا ، میں ایک آدمی پر قابو پا لیا تو اس نے "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ" کہہ دیا لیکن میں نے اسے نیزہ دیا؛ مگر میرے دل میں یہ بات کھٹک رہی تھی اسی لیے میں اس کا ذکر حضور - ﷺ - سے کیا - حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا اس نے "کلمہ شہادت" پڑھا اس کے باوجود تم نے قتل کر دیا؟ انھوں نے روایت کی کہ میں نے کہا : یا رسول اللہ! وہ نے تلوار کے خوف سے کلمہ پڑھ دیا تھی، حضور - ﷺ - نے (تنبیہ کے طور پر) ارشاد فرمایا :
أفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ؟
’’تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھا؟‘‘ 
(نوٹ : اس حدیث کی تشریح احادیث کی شرحوں میں پڑھ لینا چاہیے -) 
     اس حدیث سے میں بھی حضور - ﷺ - نے ایمان کا خاص مستقر دل کو قرار دیا ہے؛ الغرض ان تین احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ اصل ایمان تصدیق قلبی کو کہتے ہیں -
💫تائید اسلاف : ایمان کی یہی تعریف بے شمار علماء نے کی ہے؛ ان میں سے تین یہ ہیں :
❶ ــــ امام اعظم ابو حنیفہ - رضي الله عنه - : ایمان کی اصل بتاتے ہوئے آپ نے فرمایا؛ 
والإيمان هو الإقرار والتصديق  - 
(متن الفقہ الاکبر) 
ترجمہ : ایمان یہ اقرار اور تصدیق کا نام ہے - 
(اقرار کے بارے میں بھی تفصیل ہے اسی کے پیش نظر یہ قول ہے ورنہ ایمان صرف تصدیق کا نام ہے) 
❷ ـــ علامہ نجم الدین نسفی - رحمة الله عليه - : ایمان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛ 
إنّ الإیمان في الشرع ھو التصدیق بما جاء به من عند اللّٰه تعالی، أي: تصدیق النبي بالقلب في جمیع ما علم بالضرورۃ مجیئه به من عند اللّٰہ تعالی۔ 
(شرح العقائد النسفیۃ، مبحث الإیمان، ص۱۲۰، مطبوعہ باب المدینہ کراچی) 
ترجمہ : بے شک ایمان شرع میں تصدیق کو کہتے ہیں جسے حضور - ﷺ - اللہ رب العزت کی طرف سے لے کر آئے، یعنی : نبی کریم - ﷺ - کی دل سے تصدیق کرنا ان تمام ضروریات دین کے ساتھ جو حضور - ﷺ - اللہ - ﷻ - کی طرف سے لے کر آئے - 
❸ ـــ کمال الدین ابن ہمام مع کمال الدین ابن ابی الشریف - رحمة الله عليهما - : کمال الدین ابن ہمام - رحمة الله عليه - کی مسایرہ کی شرح میں ان کے شاگرد رشید نے یوں لکھا ہے :
الإیمان (ھو التصدیق بالقلب فقط) (المسامرۃ شرح المسایرۃ، الکلام فيمتعلق الإیمان، ص۳۳۰، مطبعة السعادة بمصر)
ترجمہ : ایمان یہ صرف تصدیق قلبی کا نام ہے -
اب ان تفصیلات سے واضح ہو گیا کہ ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے اعمال جوارح اصل ایمان میں داخل نہیں! 

💫اہم نکتہ : 
مگر واضح رہے کہ......... "بعض اعمال جو قطعاً منافی ایمان ہوں ان کے مرتکب کو کافر کہا جائے گا" اسی کو مثال کے ساتھ امام محقق ابن الہمام - رحمة الله عليه - نے یوں تحریر فرمایا ہے :
وبالجملة فقد ضم الی التصدیق بالقلب فی تحقق الایمان امور الاخلال بالایمان اتفاقا کترک السجود للصنم وقتل نبی والاستخفاف بہ ومخالف مااجمع علیہ وانکارہ بعد العلم به - 
(ملتقطا المسایرہ معہ المسامرہ الخاتمۃ فی بحث الایمان، ص ٣٣٧، المکتبۃ التجاریۃ الکبری مصر)
ترجمہ : حاصل یہ کہ ایمان کے لئے تصدیق بالقلب کے ساتھ کچھ امور ایسے ہیں جو بالاتفاق ایمان میں خلل انداز ہوتے ہیں جن کا ترک ضروری ہے، مثلاً بت کو سجدہ ، نبی کاقتل اور اس کی توہین اور اجماع کی مخالفت اور اجماع کے علم پر اس کا انکار۔(ملتقطاً)


❷ ـــ ایمان میں کمی و زیادتی :
 مذکورہ بالا تمام تفصیلات سے اظہر من الشمس یہ واضح ہو گیا کہ ہمارے نزدیک اصل ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے جس میں اعمال کا دخل لہذا یہیں سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ایمان میں کمی بیشی اور زیادتی و نقصان نہیں ہوتا کہ تصدیق میں کمی متصور ہی نہیں ذرا بھی شک و تردد ہوگا تو بندہ سرے سے مؤمن ہی نہیں رہ جائے گا لہٰذا کمی کا تصور ہی نہیں ہے یعنی تمام مؤمنین ان امور کے اعتبار سے جن پر ایمان لانے سے کوئی مؤمن بنتا ہے برابر ہیں البتہ درجات یقین و تصدیق کے لحاظ سے ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے؛ اسی کو امام اعظم ابو حنیفہ - رحمة الله عليه - نے یوں بیان فرمایا ہے :
والإيمان هو الإقرار والتصديق وإيمان أهل السماء والأرض لا يزيد ولا ينقص من جهة المؤمن بها ويزيد وينقص من جهة اليقين والتصديق والمؤمنون مستوون في الإيمان والتوحيد متفاضلون في الأعمال.
 (متن الفقہ الاکبر؛ ص ٢٦_٢٧)
(اوپر اسی کا معنوی ترجمہ اور مفہوم ہے، اسی لیے لفظی ترجمہ سے صرف نظر کرتے ہیں)
ایمان کے تعلق سے یہ دونوں باتیں اہم تھیں جو کہ اس حدیث سے واضح ہو رہی تھی اس لیے انھیں ذکر کرنا مناسب سمجھا- 


بنت مفتی عبد المالک مصباحی 
٢٤ ؍ مارچ ١٢٠٢؁

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے