کی
آٹھویں حدیث
______________
اسلام دین فطرت
_____
عَنْ أَبَی هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ، كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ ، هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ؟ " ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : { فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ }.
(صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْجَنَائِزُ | بَابٌ : إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ ؟، رقم الحدیث ١٣٥٩)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کیا کہ نبیﷺ نے فرمایا: ہر ایک بچّہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے ایک جانور ایک صحیح سالم جانور جنتا ہے کیا تم اس کا کوئی عضو پیدائشی طور پر کٹا ہوا دیکھتے ہو؟
پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آیت تلاوت کرتے : "اللہ کی پیدا کی ہوئی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا الله کی بنائی چیز نہ بدلنا یہی سیدھا دین ہے" ۔
_____________
اس حدیث کی جامعیت : یہ حدیث بھی بڑی جامع ہے اس کی معنویت بہت وسیع ہے اسی لیے علماء و محدثین نے اس کی بڑی ضخیم شرحیں لکھی ہیں، مفسرین نے اس حدیث سے قرآن کریم کی آیات کی تفسیریں کی ہیں اور فقہا و ائمہ نے اس حدیث سے مسائل شرعیہ مستنبط کیا ہے نیز صوفیاے کرام نے اسی حدیث سے فطرت و جبلت کی عادت و خصلت کو پہنچانا اور اس پر کلام کیا ہے نیز صحبت کا ہمارے اخلاق و اعمال حتی کہ ایمان و عقیدے پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کی طرف بھی یہ حدیث مشیر ہے الغرض یہ حدیث بے شمار معنویت کی حامل اور جامع ہے -
اب آئیے اولا....... ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس حدیث میں لفظ "فطرت" کتنا جامع ہے اور اس سے مراد کیا ہے؟
تو اس کے معنی کی تخصیص میں علماء کا اختلاف ہے؛ بعض نے کہا کہ فطرت بمعنی اسلام ہے، بعض نے کہا فطر بمعنی خلقت ہے اور بعض نے کہا فطرت بمعنی میثاق و عہد ہے اس کے علاوہ بھی کئی اقوال ہیں لیکن یہی تینوں قول مشہور ہیں لہٰذا ہم انھیں کی وضاحت کرتے ہیں:
❶ ــــ فطرت بمعنی "اسلام" : حدیث مذکورہ میں حضور - ﷺ - کا فرمان کہ "ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے" میں فطرت سے مراد دین اسلام ہے اور بقول امام نووی یہی قول سلف کے نزدیک مشہور و معروف ہے _
💫دلائل :
(١) __ اسی حدیث بالا سے متصلا حضرت ابو ہریرہ - رضي الله عنه - نے جو آیت تلاوت فرمائی ہے اس میں خود اللہ رب العزت نے فطرت کو نہ بدلنے کو "دین قیم" یعنی "اسلام" قرار دیا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ فطرت سے مراد اسلام ہے؛ یہی معنی دیگر تابعین - رضي الله عنهم اجمعین - نے بھی کیا؛ مثلاً حضرت سعید بن جبیر، حضرت عکرمہ، حضرت مجاہد، حضرت ضحاک وغیرہ - رضي الله عنهم - (هكذا في تفسير الطبري)
(٢) __ حضور - ﷺ - نے حدیث بالا میں فطرت کے مقابل باطل مذاہب مثلاً "یہود و نصاریٰ اور مجوسی" کا ذکر فرمایا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فطرت سے مراد "اسلام" ہی ہے - (قول اكثر من الشارحين)
(٣) __ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں حضور - ﷺ - نے وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے کہ انسان مذہب حنیف یعنی مذہب اسلام پر پیدا ہوتا ہے؛ وہ حدیث یہ ہے :
عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ الْمُجَاشِعِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ فِي خُطْبَتِهِ : " أَلَا إِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِي يَوْمِي هَذَا ؛ كُلُّ مَالٍ نَحَلْتُهُ عَبْدًا حَلَالٌ، وَإِنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ، وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ، وَحَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ، وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ يُشْرِكُوا بِي مَا لَمْ أُنْزِلْ بِهِ سُلْطَانًا -
(صحيح مسلم ،كِتَابٌ : الْجَنَّةُ وَصِفَةُ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا، بَابٌ : الصِّفَاتُ الَّتِي يُعْرَفُ بِهَا فِي الدُّنْيَا أَهْلُ الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ، الحديث ٦٣(٢٨٦٥))
ترجمہ :حضرت عیاض بن حمار - رضي الله عنه - سے روایت ہے، نبی کریم - ﷺ - نے خطبہ کے درمیان ارشاد فرمایا : "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے تمام بندوں کو اس حال میں پیدا کیا کہ وہ باطل سے دور رہنے والے تھے، بے شک ان کے پاس شیطان آیا اور ان کو دین سے پھیر دیا اور جو چیزیں میں نے ان پر حلال کی تھیں وہ اس نے ان پر حرام کر دیا اور ان کو میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیا حالاں کہ میں نے اس شرک پر کوئی دلیل نازل نہیں کی" ۔
❷ ـــ فطرت بمعنی "خلقت" : بعض شارحین کے نزدیک فطرت سے مراد خلقت ہے اور معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو توحید اور دین اسلام قبول کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور فطری طور پر انسان نہ اس دین سے منہ موڑ سکتا ہے اور نہ ہی اس کا انکار کر سکتا ہے کیوں کہ یہ دین ہر اعتبار سے عقل سلیم سے ہم آہنگ اور صحیح فہم کے عین مطابق ہے اور لوگوں میں سے جو گمراہ ہو گا وہ جنّوں اور انسانوں کے شیاطین کے بہکانے سے گمراہ ہوگا - اسی لیے مشہور قول ہے کہ "اسلام دین فطرت ہے اور اگر بچہ اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ فطرت ہی کے مطابق پروان چڑھے گا یعنی مسلمان ہی رہے گا" -
💫دلائل :
(١) __ فطرت بمعنی خلقت ہے یہ بھی حدیث بالا ہی سے ثابت ہے کہ حضور - ﷺ - نے ارشاد فرمایا "ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے ایک جانور ایک صحیح سالم جانور جنتا ہے کیا تم اس کا کوئی عضو پیدائشی طور پر کٹا ہوا دیکھتے ہو؟" دیکھیں! یہاں حضور - ﷺ - نے فطرت کو جانور کی خلقت سے تشبیہ دی؛ یعنی بچہ پیدائشی طور پر قبول اسلام کے لیے ایسا سادہ لوح اور صحیح و سالم ہوتا ہے جیسے جانور بے عیب تھا یہ اور بات ہے کہ انسان کی فطرت میں انحراف کی قوت اور مادہ موجود ہے جس کی وجہ سے وہ خارجی اسباب کی وجہ سے قبول حق کی خلقت و فطرت سے منحرف ہو جاتا ہے - (ملخصا فتح الباری بشرح صحيح البخاری، کتاب الجنائز، باب ٩٢، حدیث ١٣٨٥، ص ١٨٣، ج٤، مطبوعہ دار طیبہ)
(٢) __ حدیث بالا میں مذکورہ آیت کی تفسیر میں بے شمار مفسرین نے بھی فطرت بمعنی "خلقت" لیا ہے، ثبوت کے طور پر آج بھی کتب تفسیر میں ان مفسرین کے اقوال موجود ہیں مثلا تفسير خازن، تفسیر مدارک اور روح البیان وغیرہ کو دیکھ لیا جائے؛ ہم امام خازن کا جملہ نقل کرتے ہیں؛ آپ - رحمة الله عليه - تحریر فرماتے ہیں :
أن كل مولود في مبدأ الخلقة على الفطرة أي على الجبلة السليمة والطبع المتهيئ لقبول الدين، فلو ترك عليها لاستمرت على لزومها لأن هذا الدين موجود حسنه في العقول السليمة -
(تفسیر الخازن لباب التأويل في معاني التنزیل، تحت سورہ روم، آیت ٣٠، ج٥، ص ٧٢، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو دین اسلام قبول کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور فطری طور پر انسان نہ اس دین سے منہ موڑ سکتا ہے اور نہ ہی اس کا انکار کر سکتا ہے کیوں کہ یہ دین ہر اعتبار سے عقل سلیم سے ہم آہنگ اور صحیح فہم کے عین مطابق ہے -
(٣) __ فطرت کے اسی معنی کو کئی محدثین نے بھی اپنایا ہے؛ جیسا کہ محدث ابن حجر عسقلانی نے اس قول کی وضاحت فرمائی کہ فطرت بمعنی خلقت بھی لیا گیا ہے اور دلیل کے طور پر امام قرطبی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وإلى هذا مال القرطبي في " المفهم " فقال: المعنى أن الله خلق قلوب بني آدم مؤهلة لقبول الحق، كما خلق أعينهم وأسماعهم قابلة للمرئيات والمسموعات، فما دامت باقية على ذلك القبول وعلى تلك الأهلية أدركت الحق، ودين الإسلام هو الدين الحق.
(فتح الباری بشرح صحيح البخاری، کتاب الجنائز، باب ٩٢، حدیث ١٣٨٥، ص ١٨٣، ج٤، مطبوعہ دار طیبہ)
ترجمہ : فطرت بمعنی خلقت ہے اسی طرف امام قرطبی - رحمة الله عليه - کا بھی میلان ہے ان کی کتاب "مفہم" میں؛ انھوں نے فرمایا کہ فطرت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے آدم علیہ السلام کی اولاد کے دلوں کو حق قبول کرنے کا اہل بنا کر پیدا کیا ہے جس طرح اس نے اِن کے آنکھوں اور کانوں کو دیکھنے اور سننے کا اہل بنا کر پیدا کیا ہے؛ تو جو کوئی اس اہلیت کا استعمال کرے گا وہ حق کو پا لے گا اور حق دین اسلام ہی ہے -
❸ ـــ فطرت بمعنی "میثاق و عہد" : ہر بچہ فطرت یعنی اسی عہد پر پیدا کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سے ’’اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ‘‘ فرما کر لیا ہے، تو دنیا میں جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اسی اقرار پر پیدا ہوتا ہے اگر چہ بعد میں وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے لگ جائے؛ بعض شارحین یہی معنی لیتے ہیں فطرت سے یعنی جو "میثاق و عہد" لیا گیا تھا اسی پر ہر بچہ پیدا ہوتا ہے ۔
💫دلائل :
(١) __ پہلے تو اس میثاق کو فرمان الٰہی کی روشنی میں سمجھ لیں کہ اللہ رب العزت آدم علیہ السلام کی کل اولاد و ذریت کے متعلق ارشاد فرماتا ہے :
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْؕ-قَالُوْا بَلٰىۚۛ-شَهِدْنَاۚۛ-اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ(الأعراف؛ ۱۷۲)
ترجمہ : اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی۔
اسی عہد و میثاق کے متعلق کہا جاتا ہے کہ حضور - ﷺ - کے فرمان کا معنی یہی ہے کہ "ہر بندہ اس وعدے کا مقِر یعنی اقرار کرنے والا بن کر پیدا ہوتا ہے گویا مسلمان ہوتا ہے اور حق کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ہوتا ہے لیکن بعد میں اپنے والدین یا کسی اور بہکاوے کی وجہ سے وہ یہودی و نصارا یا بت پرست و مجوسی بن جاتا ہے" -
(٢) __ کئی مفسرین نے بھی فطرت کا معنی میثاق سے کیا ہے؛ مثلا امام خازن لکھتے ہیں :
قوله - ﷺ - : «ما من مولود يولد إلا على الفطرة» يعني على العهد الذي أخذ الله عليهم بقوله: ألست بربكم قالوا بلى فكل مولود في العالم على ذلك الإقرار -
(تفسیر الخازن لباب التأويل في معاني التنزیل، تحت سورہ روم، آیت ٣٠، ج٥، ص ٧١، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
ترجمہ : حضور - ﷺ - کے مذکور بال فرمان کا معنی یہ ہے ہر بچہ اسی وعدہ پر پیدا ہوتا ہے جو اللہ نے ان سے لیا ہے اپنے قول :"کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں" میں -
(٣) __ انھیں محدثین میں سے جنھوں نے کہا ہے کہ" فطرت بمعنی میثاق ہے" حضرت محدث جلیل شیخ الاسلام حماد بن سلمہ بصری - رحمة الله عليه - بھی ہیں؛ جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں لکھا ہے :
وروى أبو داود، عن حماد بن سلمة أنه قال: المراد أن ذلك حيث أخذ الله عليهم العهد حيث قال: { ألست بربكم قالوا بلى }
(فتح الباری بشرح صحيح البخاری، کتاب الجنائز، باب ٩٢، حدیث ١٣٨٥، ص ١٨٢_١٨٣، ج٤، مطبوعہ دار طیبہ)
ترجمہ : حضرت ابو داؤد سے مروی ہے وہ حماد بن سلمہ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ "فطرت سے مراد یہی ہے کہ وہ اس وعدہ پر پیدا ہوئے جو ان سے؛ اللہ نے لیا تھا (کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟)" -
الحاصل :_______ یوں تو فطرت کے اور بھی کئی معانی ہیں لیکن ان سب کی وضاحت اختصار کے دامن سے باہر ہے لہذا ہم مختصراً اسی پر قناعت کرتے ہیں یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے کہ حدیث میں وارد لفظ "فطرت" واقعی وسیع تر معانی و مفاہیم کا حامل ہے اور ان تفصیلات سے مقصود بھی یہی تھا کہ ہم پر واضح ہو جائے کہ حضور - ﷺ - کا ایک ایک لفظ کتنے وسیع معانی کا جامع ہوتا ہے؛ مگر ساتھ ہی یہ بھی خیال رہے کہ......... فطرت کے مذکورہ بالا مختلف معانی کو جداگانہ اور الگ الگ نہ سمجھا جائے بلکہ اس میں یوں تطبیق کی جا سکتی ہے کہ "فطرت کا معنی اسلام ہی ہے چاہے وہ حقیقی معنی پر ہو یعنی یہ کہ ہر بچہ مسلم پیدا ہوتا ہے، یا اس طور پر کہ ہر انسان کے لیے اسلام قبول کرنا آسان ہے ذرا بھی تفکر و تدبر سے کام لے تو یا یوں سمجھ لیں کہ کوئی بھی بچہ پیدائشی طور پر وہ اپنے رب سے منہ موڑ کر پیدا نہیں ہوتا" الغرض تمام معانی سے مقصود ایک ہی ہے کہ" مذہب اسلام انسان کے لیے کوئی اجنبی اور مستبعد دین نہیں ہے بلکہ فطری اور عقل و شعور میں آ جانے والے مذہب کا نام اسلام ہے" -
اہم نوٹ : ________ اس حدیث میں مذکور ایمان یا اسلام کو "فطری ایمان یا اسلام" کہتے ہیں جس کے بیان کا مقصود یہ ہے کہ ہر بندے کو اپنے مذہب کے بارے میں سوچنا چاہیے اور غیر مسلموں کو غور و فکر کر کے صحیح اور حق مذہب کی تلاش و جستجو کر کے اپنے فطری مذہب یعنی اسلام کی طرف پلٹ جانا چاہیے اور وہی مذہب قبول کرنا لینا چاہیے جو فطرت کا تقاضہ اور منشاء ہے نیز جسے قبول کرنا اور سمجھنا آسان ہے اور جس پر ہر انسان کی پیدائش ہوئی ہے؛ لیکن یاد رہے کہ......
لا اعتبار بالإيمان الفطري في أحكام الدنيا وإنما يعتبر الإيمان الشرعي المأمور به المكتسب بالإرادة والفعل.
(تفسیر الخازن لباب التأويل في معاني التنزیل، تحت سورہ روم، آیت ٣٠، ج٥، ص ٧١، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
ترجمہ : دنیوی احکام (یا اخروی نجات) میں فطری ایمان کا اعتبار نہیں بلکہ صرف شرعی ایمان معتبر ہے جو دل کے ارادے اور معرفت سے حاصل ہوتا ہے ۔
نکتہ : _______ مذکورہ بالا حدیث سنتے ہیں اکثر لوگ یہ سوچنے اور پوچھنے لگتے ہیں کہ "اسلام اگر فطری مذہب ہے تو لوگ غیر مسلم یا ملحد کیسے ہو جاتے ہیں؟" تو آئیے دیکھتے اس کا جواب؛
💫انسانی فطرت اور ماحول کا اثر :
اس خلجان کا جواب بھی حضور جامع الکلم - ﷺ - نے اپنے مختصر الفاظ والے جملے ہی میں دے دیا ہے کہ اسلام فطرت ہے لیکن اسی انسانی فطرت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اس پر ماحول کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ماحول کی وجہ سے انسانی فطرت بدل بھی سکتی ہے کہ قدرت نے فطرت انسانی کو انحراف کی قوت بخشی ہے؛ انسانی فطرت حیوانی فطرت کی طرح نہیں ہے کہ وہ اس سے انحراف ہی نہ کر سکے بلکہ رب تعالیٰ نے اسے اختیار بھی دے دیا ہے، اس وجہ سے وہ بسا اوقات دنیوی جاہ و جلال اور خواہشات کی پیروی میں مگن ہو کر حق و باطل کا شعور رکھتے ہوئے بھی باطل عقائد و نظریات کا پیروکار بن جاتا ہے تو یوں وہ رفتہ رفتہ بیرونی اثرات ماحول اور والدین وغیرھم کی تربیت سے فطرت (اسلام) سے دور ہو جاتا ہے اور اپنے والدین یا ماحول کا مذہب گلے سے لگا لیتا ہے۔ جس کی وضاحت زیر بحث حدیث میں بخوبی کی گئی ہے -
ماحول کا اثر انسان پر کس طرح مرتب ہوتا ہے اسے ایک مثال سے یوں سمجھ لیں کہ جس طرح چوہا، چھچھندر، سُوَر، کتا وغیرہ حرام جانور کھانا ہمارے یہاں مسلمان کے علاوہ غیر مسلموں کے لیے بھی گھناؤنا سمجھا جاتا ہے جسے کھانا بچے بھی قطعی گوارا نہیں کر سکتے؛ لیکن یہی خراک کسی ایسے ملک میں جہاں ان جانوروں کو کھانے کا رواج ہو بصد شوق بڑے بوڑھے، جوان بچے سب کھاتے ہیں انھیں قطعی گھِن نہیں آتی کیوں کہ وہاں کا یہی ماحول اور عام رواج ہے - سمجھ میں آیا کہ انسانی فطرت و عادت، خیالات و تصورات پر بھی ماحول کا گہرا اثر پڑتا ہے -
چناں چہ یہ اعتراض اور خلجان دفع ہو گیا کہ انسان اگر دین فطرت ہے تو غیر مسلم یا ملحد کیوں ہو جاتے ہیں؟ اللہ رب العزت قبول حق کی توفیق عطا فرمائے؛ ہم اتنے پر اس حدیث کی شرح کو ختم کرتے ہیں جنھیں جاننا ہو کہ ماحول اور صحبت کا اثر ایمان و عقیدہ پر کیسے پڑتا ہے ان کے لیے لازم ہے کہ اگلی حدیث کا مطالعہ ضرور کریں!
بنت مفتی عبد المالک مصباحی
٢٦ ؍ مارچ ١٢٠٢
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں