افکار رضا کی خشبو ئیں

افکار رضا کی خشبو ئیں
 
محمدقمرالزماں مصباحی مظفر پوری کے قلم سے

      اعلی حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ کی عبقری شخصیت جہان علم و فضل اوربزم علم و آگہی میں محتاج تعارف نہیں،آپ نے  ایک فقید المثال فقیہ، عبقری محقق ،عظیم سائنسداں، نابغہ عصر محدث، بلند پایہ مصنف اور 
مخلص قائد کی حیثیت سے پورے عالم اسلام کی سچی قیادت فرمائی۔ اللہ رب العزت نے اپنے دین متین کی حفاظت،شریعت و سنت کی اشاعت اور ملت بیضا کی حمایت کے لئے روز ازل میں ہی آپ کا انتخاب فرمالیا تھا۔مدارس سے لے کر خانقاہ تک اسلامی اقدار و روایات کاتحفظ  اور ایمانی سوزوگذازکاتقدس اسی مردقلندر کی طنطنہ قلم،طہارت فکر اور تجدیدی کارناموں کی رہین منت ہیں۔ چودہویں صدی ہجری میں احیائے دین، احقاق حق، ابطال باطل اور تحر یک عشق مصطفی کے فروغ میں آپ کا بہت بڑا کارنامہ رہا ہے۔ آپ نے حق کے چہرے سے غبار صاف کیا،فکروں کے جالے دور کئے،بیمار ذہنوں کا تعاقب کیا، آپ کی نسیم آگہی اور شمیم فکر سے گلشن دین و دانش میں تاز ہ بہارآئی،عقیدے کی بنجر زمین پر صالح اعتقاد کے غنچے چٹکنے لگے،  حسن سیرت کے پھول مسکرانے لگے اور وہ قافلے جو بدعقیدگی و بے راہ روی کے صحرا میں بھٹک رہے تھے اس کارخ گنبدخضری کی طرف پھیر دیا۔ مقام حیرت ہے کہ جو لوگ علم و ادب سے تہی دامن ہیں وہ اس آفتاب علم وفضل سے آنکھیں ملانے کی بے جا جسارت کر رہے ہیں اور معاشرے کی اصلاح اورایک پاکیزہ سماج کی تعمیر میں جن کا کوئی حصہ نہیں وہ اس ماہتاب ادراک و کمال کی چاندنی میں نقص جوئی کا بھیانک کردار ادا کررہے ہیں مگر اس دانائے راز کے نقش پاکی چمک ہمیں یہ احساس دلارہی ہے کہ:۔
       میں نور بن کے زمانے میں پھیل جاؤں گا 
       تم  آفتاب میں کیڑے نکالتے رہنا
 ہو ناتویہ تھا کہ ان کی خدمات دینیہ کو سراہتے، ان کے قلمی وعلمی فیضان کی خوشبووں سے اپنے ذہن وفکر کے منبرو محراب کو معطر کرتے، ان کی بارگاہ عبقری میں نیاز مندی کے پھول لٹاتے اور ان کی باوقار شخصیت کی تجلی سے قلب و نگاہ کی وادی کو چمکاتے۔
 کج فکری کی اس سے زیادہ بھیا نک کیا کوئی مثال مل سکتی ہے کہ عمل کی تطہیر اور عشق نبی کی تفسیر میں جس کی حیات کا ہر لمحہ مصروف ہو، جس کے قلم کی سیاہی کا ہر قطرہ تحر یک عشق رسالت کا پر جوش نمائندہ ہو، جس کے ذکروفکر کا مرکز نبی کی دہلیز ہو،جس کے محراب محبت کا قبلہ گنبدخضری ہو، جس کے دل پرشوق کی ہر دھڑ کن " چیزے نمی دانم اغثنی یا رسول اللہ" کی صدالگارہی ہو، جس نے بدعات کے تاج محل پر چھاپہ ماری کی ہو، قلم کی آوارگی پر پہرے بٹھائے ہوں، طاق حیات میں کعبہ محبت کو سجانے کا سلیقہ بخشا ہو، خرافات کی ظلمات میں قندیل ہدایت کی کرنیں بکھیری ہوں اور جس کی پوری زندگی باطل نظریات کی معرکہ آرائی میں سر گرم ہو،آج اس پر یہ الزام کہ وہ بدعتی فرقے کا بانی تھا یا للعجب۔
    تاریخ صداقت کا وہ آئینہ ہے جسے  الزام تراشیوں کاغبار دھندلا نہیں کرسکتا اعلی حضرت امام احمدرضا قادری رضی اللہ تعالی عنہ نے کسی نئے عقیدہ وفکر کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ قرآن وحدیث اوردین وشریعت کے احکامات کولوگوں تک پہونچایااوربزرگوں کے اقوال و افعال کو تازگی بخشی،مخالفین نے جس قدر آپ کے خلاف فضا ہموار کی، حقائق پر پردے ڈالے، الزام تراشیاں کیں اس کے تار و پود خود بخود بکھرتے چلے گئے۔ اب کون ہے جو ان کے فضل و کمال اور شان تحقیق سے آنکھیں موند لے، ان کی اصلاح سے نگاہیں چرالے، ان کےعلم کے اجالے کوقیدکر لے اور ان کی وارفتگی عشق سے انکار کردے ۔الحمدللہ! اب ان کے افکار کی خوشبو پھیلتی جارہی ہے،ان کی تحقیق کے نئے نئے باب واہورہے ہیں ،ان کے پاکیزہ خیالات کی کرنوں سے دلوں کے آفاق روشن ہورہے ہیں،پوری دنیا کی یونیورسٹیوں میں ان کی حیات وخدمات کے تعلق سے جدید گوشے سامنے آرہے ہیں ،ان کے علم کی جامعیت، فنی بصیرت،فکری طراوت اور تفقہ کے نور سے ایک عالم اکتساب فیض کر رہا ہے۔ آپ نے جس اخلاص و یقین اورعشق وعقیدت کے ساتھ اصلاح فکر وعمل کا چراغ جلایا تھا وہ چراغ آج بھی ہوا کی زد پر مسکرارہا ہے۔ ان کے اسی جذ بہ ایثار وقربانی کانتیجہ ہے کہ آج ہر زبان پراعلی حضرت،دل کی دھڑکن میں اعلی حضرت،شعور کی ہر انجمن میں اعلی حضرت، جامعات کے ہر شعبے میں اعلی حضرت،مضراب حیات کے ہر ساز میں انہیں کی محبتوں کا  نغمہ سنائی دے رہا ہے۔ زندگی کی ہر سانس میں ان کی یادوں کی خوشبورچی بسی ہےاورعلم و شعور کی ہر شاخ پر انہیں کا مرغ نواسنج ہے، ان سے محبت سنیت کی علامت ہےاور ان سے دوری ظلمت فکرکا اشاریہ ہے
10شوال المکرم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہُ کے جشن ولادت کے موقع سے ایک چشم کشا تحریر
محمد سلمان رضا غوثی دہلی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے