اعلی حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ کی عالم گیر شہرت و مقبولیت کا سب سے اہم راز

اعلی حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ  کی عالم گیر شہرت و مقبولیت کا سب سے اہم راز۔________________
تحریر:محمد شفاء المصطفی شفا مصباحی باڑاوی۔
بموقع:یومِ ولادت اعلی حضرت علیہ الرحمہ۔__________________
    فقیہ فقید المثال ابو حنیفہ ہند اعلی حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز کی شخصیت و عبقریت اب تقریباً پوری دنیا میں متعارف  بلکہ مسلم ہو چکی ہے۔دن بدن ان کا آفتابِ اقبال مزید روشن و تابناک ہی ہوتا جا رہا ہے اور دلوں پر ان کی حکم رانی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔کیا بوڑھے، کیا جوان اور کیا بچے سب ہمہ وقت ان پر اپنی جانیں چھڑکنے کو تیار ہیں۔آخر ان میں ایسا کون سا وصف خاص ہے جس نے سبھوں کو ان کا گرویدہ و دلدادہ بنا دیا ہے۔ اگر اس کی وجہ یہ مان لیں کہ وہ علوم و معارف کے ایک بحر ناپیدا کنار تھے، تو یہ علت بھی علتِ جامعہ نہیں ہو سکتی؛ کیوں کہ یہ بات تو صرف خواص و اربابِ علم و دانش تک محدود ہے کہ وہ علوم و فنون کے ایک بحر زخار تھے، تو پھر عوام الناس اور چھوٹے چھوٹے بچے ان کے شیدائی کیوں نظر آتے ہیں؟ اگر ان کے تجدیدی کارنامے اور فرقہاے باطلہ سے قلمی جہاد کو اس کی وجہ بتاتے ہیں تو یہ بھی درست نہیں لگتا، کیوں کہ ان کے بہت سے عُشّاق اس حقیقت سے بھی بالکل نابلد و ناآشنا ہیں۔اگر یہ مان لیں کہ ان کا زہد و تقویٰ، تصوف و سلوک اور بے مثال عبادت و ریاضت، ان کی اس عالم گیر شہرت و مقبولیت کی وجہ ہے،تو یہ اور بھی بہت بعید معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ ان کی زندگی کا یہ پہلو اب تک کھل کر صحیح طور سے منظر عام پر آیا ہی نہیں، حالاں کہ وہ تصوف وسلوک، عبادت و ریاضت اور زہد و اتقا کے ان مشکل مقامات پر بھی ثابت قدم نظر آتے ہیں، جہاں اچھے اچھوں کے پاوں اکھڑ جاتے ہیں۔ اخیر عمر میں آپ مرض کے سبب چلنے سے معذور ہوگئے تھے۔ لہذا اس عذر شرعی کے سبب آپ سے جماعت و حاضریِ مسجد کا وجوب ساقط  تھا۔ مگر پھر بھی آپ اس حالت میں بھی چار آدمیوں کے سہارے سے مسجد جاکر با جماعت نماز ادا کرتے تھے۔اسی طرح اخیر عمر کے روزے آپ نے کوہِ بھوالی، نینی تال جاکر ادا کیے۔ فقہ و فتاوی میں آپ مرجعِ عام و خاص ہونے کی وجہ سے شرعاً اس بات  کے مجاز و مستحق تھے کہ سنت فجر کے علاوہ تمام سنن مؤکدہ بھی ترک کر سکتے تھے کہ شریعت طاہرہ نے ایسے مرجعِ فتاوی عالم و مفتی کو یہ رخصت دی ہے۔مگر واہ راے عابد مخلص و مرتاض! سنن مؤکدہ تو در کنار، تادم واپسیں آپ نہایت پابندی اور سختی کے ساتھ نوافل اور دیگر اوراد و وظائف بھی ادا کرتے رہے۔ یقینا ایسا پابندِ صوم و صلات اور گرویدۂ اعمال و اذکار چشم فلک نے بہت ہی کم دیکھا ہوگا۔ مگر پھر بھی اس حوالے سے آپ کی شخصیت اب تک صحیح طور پر متعارف نہ ہو سکی؛ یقیناً یہ بہت بڑا المیہ اور نہایت افسوس ناک امر ہے۔
   بہر کیف! بات یہ چل رہی ہے کہ آخر ان کا وہ طرۂ امتیاز کیا ہے جس کی بدولت وہ اکناف عالم میں اپنی عبقریت کا لوہا منوا رہے ہیں اور لوگوں کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔تواس حوالے سے  آپ ان کی کتابِ زندگی کے تمام ابواب کی ورق گردانی کرکے دیکھ لیں، سواے ایک باب کے کوئی بھی باب ایسا نہیں جو ان کی ہر شعبہ میں اس عالم گیر عقیدت و محبت کے لیے وجہ جامع کی حیثیت رکھتا ہو۔ اور وہ ایک باب جو وجہ جامع کی حیثیت رکھتا ہے وہ ان کے عشق رسالت مآب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا باب ہے۔ ان کی کتابِ زندگی کا سب سے جلی عنوان، ان کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اس لیے یہ باب علت جامعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ ان کی تمام تر جد و جہد اور سارے کارنامے سب کے سب محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم و تحفظ ناموسِ رسالت ہی کی مرہونِ منت ہیں۔ ان کی شاعری،  علوم و فنون میں ان کی مہارت کاملہ، تجدیدی و اصلاحی خدمات و کارنامے وغیرہ وغیرہ یہ سب اسی ذات بابرکات سے والہانہ عقیدت اور اسی ناموس کے تحفظ کی خاطر ہیں۔ اس لیے ہم آج ان کی تاریخِ ولادت کو " یوم تحفظ ناموسِ رسالت" کے نام سے منائیں گے، کیوں کہ انھوں نے اپنی حیات مستعار کو تحفظ ناموسِ رسالت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ تحفظ ناموسِ رسالت کی خاطر انھوں نے اپنی اور اپنے آبا و اجداد کی عزت و آبرو بھی داؤ پر لگا دیا مگر ناموسِ رسالت پر ذرہ برابر حرف نہ آنے دیا۔ تحفظ ناموس رسالت کا یہ انوکھا اور نرالا انداز تو دیکھیں کہ وہ کس طرح عاجزانہ لب و لہجہ میں اپنے آقا و مولا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے گستاخوں سے کفِّ لسان کی بھیک مانگ رہے ہیں اور تحفظ ناموس رسالت کی خاطر اپنی اور اپنے آبا و اجداد کی عزت و آبرو داؤ پر لگا کر خود کو سعادت مند تصور کر رہے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
  ” واللہ العظیم! وہ بندۂ خدا بخوشی راضی ہے اگر یہ دشنامی حضرات بھی اس بدلے پر راضی ہوں کہ وہ اللہ و رسول ( جل جلالہ و صلی و علیہ و سلم) کی جناب میں گستاخی سے باز آئیں اور یہ شرط لگالیں کہ روزانہ اس بندۂ خدا کو پچاس ہزار مغلظہ گالیاں سنائیں اور لکھ لکھ کر شائع فرمائیں۔ اگر اس قدر پر پیٹ نہ بھرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی گستاخی سے باز رہنا اس شرط پر مشروط رہے کہ اس بندۂ خدا کے ساتھ اس کے باپ دادا اکابر علما قدست اسرارہم کو بھی گالیاں دیں تو ایں ہم بر علم۔( یعنی یہ بھی منظور ہے۔)
  اے خوشا نصیب اُس کا کہ اس کی آبرو، اس کے آبا و اجداد کی آبرو، بدگویوں کی بد زبانی سے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی آبرو کے لیے سپر ہو جائے۔
 یہی وجہ ہے کہ بدگو حضرات اس بندہ خدا پر کیا کیا طوفان، بہتان اس کے ذاتی معاملات میں اٹھاتے ہیں، اخباروں اشتہاروں میں طرح طرح کی گڑھتوں سے کیا کیا خاکے اڑاتے ہیں مگر وہ اصلا قطعاً نہ اس طرف التفات کرتا نہ جواب دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جو وقت مجھے اس لیے عطا ہوا کہ بعونہ تعالیٰ عزت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حمایت کروں، حاشا کہ اسے اپنی ذاتی حمایت میں ضائع ہونے دوں۔ اچھا ہے جتنی دیر مجھے برا کہتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بدگوئی سے غافل رہتے ہیں۔
فإن أبي و والده و عرضي    لعرض محمد منكم وقاء.“
[ امام احمد رضا اور تصوف، از:علامہ محمد احمد مصباحی، ص: ۴۲، ۴۳، المجمع الاسلامی، مبارک پور۔]
   سطور بالا بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ یقینا ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی وابستگی بالکل بے مثال تھی۔ان کا ہر فعل عشق رسول اور تحفظ ناموسِ رسالت کی پاداش میں ہوتا۔یہی وجہ تھی کہ جس میدان میں بھی قدم رکھتے اس میں اپنا سکہ بٹھا دیتے۔ لہذا یہ کہنا بالکل بے جا نہ ہوگا کہ ان کی اس قدر عالم گیر شہرت و مقبولیت اور ہر میدان میں فتح و نصرت کا اصل راز، ان کا عشقِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہے۔ دلوں پر ان کی حکم رانی ان کے کارنامے اور فنی مہارتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ذات رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے حد درجہ والہانہ عقیدت و محبت کی وجہ سے ہے۔واقعی زمانے نے ایسا عاشقِ صادق اور فنا فی الرسول (صلی اللہ علیہ وسلم)  بہت ہی کم دیکھا ہوگا کہ جو اس قدر والہانہ عقیدت کے باوجود  ہر وقت عشق و وارفتگی میں اضافے کی دعا مانگتا ہو۔ ان کی یہ دعا بھی دیکھیں کہ  ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسی الفت و محبت  مطلوب و مقصود ہے انھوں نے اپنے رب تعالیٰ سے مانگ لی ہے۔ ذرا چشم عقیدت سے ان کا یہ شعر پڑھیں یقیناً دل کی دنیا جھوم اٹھے گی۔
 ایسا گما دے ان کی ولا میں خدا ہمیں
 ڈھونڈا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو۔
  رب تبارک و تعالیٰ اپنے محبوب کے اس عاشق صادق کی دعا کیسے رد کرتا۔ چناں چہ رب قدیر نے اس عاشقِ صادق کی یہ دعا  قبول فرما لی اور اس عاشق نے خود اس قبولیت کا عینی مشاہدہ کر لیا، اور ایسی وارفتگی طاری ہوئی کہ خود اپنی خبر  نہ رہی۔
اے ارے خدا کے بندو! کوئی میرے دل کو ڈھونڈو
 میرے پاس تھا ابھی تو ابھی کیا ہوا خدایا
             نہ کوئی گیا نہ آیا
ہمیں اے رضا تیرے دل کا پتہ چلا بہ مشکل
در روضہ کے مقابل وہ ہمیں نظر تو آیا
          یہ نہ پوچھ کیسا پایا
  محبت رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا اور ان کی ایک ایک سانس اسی محبت کے صدقے چلتی تھی، خود فرماتے ہیں۔
 جان ہےعشق مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا
 جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں
   اس عاشق صادق کا عشق صرف دنیوی زندگی تک محدود نہیں بلکہ یہ والہانہ عقیدت و محبت ان کے ساتھ ان کے قبر میں بھی گئی اور قبر کی تاریکیوں کے لیے ایک قندیل فروزاں ثابت ہوئی۔ خود فرماتے ہیں۔
لحد میں عشقِ رخ شہ کا داغ لے کے چلے
اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے۔
  اور صرف قبر تک نہیں بلکہ آپ اس آتشِ عشق کو آتشِ جہنم سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
 اے عشق ترے صدقے جلنے سے چھٹے سستے
 جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے۔
   صاحبو! وہ صرف عاشق ہی نہیں بلکہ عاشق ساز بھی تھے۔ ان کے مریدین و متعلقین اور خلفا و تلامذہ کی فہرست دیکھیں، ان میں ایک سے ایک محب رسول و عاشق مصطفیٰ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ملیں گے۔ دلوں کو نوِ عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور کرنا ہی ان کا اصل ہدف اور مشن تھا اور وہ اپنے اس مشن میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ آج بر صغیر ہند و پاک میں عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی جو دھومیں مچی ہیں، اس کا پورا سہرا امام اہل سنت علیہ الرحمہ کے سر سجتا ہے۔ دلوں میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قندیل فروزاں کرنے والی اس ذات کو دنیا کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔رہتی دنیا تک ان کے اس احسان عظیم کا چرچا ہوتا رہے گا اور ہمیشہ لوگوں کی زباں پر یہ ورد جاری رہے گا۔
 ڈال دی قلب میں عظمتِ مصطفیٰ
سیدی اعلیٰ حضرت پہ لاکھوں سلام۔
  یقیناً محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب کچھ ہے اور اسی سے ہماری تعمیر و ترقی اور عروج و ارتقا وابستہ ہے۔آج امت مسلمہ کے زوال و انحطاط کی سب سے بڑی وجہ ذات رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے دوری و مہجوری ہے۔جب تک ہمارے سینوں میں عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی قندیل فروزاں تھی اور حبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ فراواں سلامت تھا، دنیا کی سروری ہمارے قدموں کی ٹھوکر میں تھی اور ہم میر کارواں کہلاتے تھے، مگر جب سے ہم نے حب رسول کا نشیمن تاراج کر دیا ہے اور سرور مجتبیٰ کی عظمت خدا داد سے انحراف کی جسارت کی ہے، رب تبارک و تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں سے اپنا بخشا ہوا اعزاز چھین لیا ہے۔
  لہذا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پھر اپنے مرکز عقیدت کی طرف رخ کریں اور ان  کی ذاتِ مبارکہ سے ویسی ہی الفت و عقیدت  رکھیں جیسی میرے امام اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی تھی۔ یقین جانیں کہ اگر آپ نے بھی امام اہل سنت کی طرح تحفظ ناموسِ رسالت کی خاطر اپنی حیات مستعار کو وقف کر دیا تو ان شاءاللہ عزوجل کل لوگوں کے دلوں پر آپ کی بھی حکم رانی ہوگی اور دنیا ہمیشہ آپ  کو بھی زندہ و جاوید رکھے گی۔ تو آئیے آج اس یوم ولادت رضا و یوم تحفظ ناموسِ رسالت کے موقع پر ہم پختہ عہد اور تجدید وفا کریں کہ ہماری  پوری زندگی تحفظ ناموسِ رسالت کے لیے وقف ہے اور ہم اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی خاطر ہر وقت اپنی جان وارنے کو تیار ہیں۔ واقعی اگر ہمارے سینوں میں یہ جذبہ فراواں جاگزیں ہوگیا تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں ہلا نہیں سکتی اور بڑے سے بڑے سورمے ہمارے سامنے مات کھاتے نظر آئیں گے۔ اور ان شاءاللہ عزوجل ایک دن وہ بھی آئے گا کہ رب تبارک و تعالیٰ پھر سے ہمیں وہ اعزاز بخش دے گا۔ 
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں  اسمِ  محمد  سے  اجالا کر دے۔ 
( صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔)
 ع: یہ قصۂ لطیف ابھی ناتمام ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے