اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اغیار کی نظروں میں

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اغیار کی نظروں میں

محمد سبطین رضا محشر مصباحی. 

تمام تعریفیں اس خالقِ ارض و سما کے لیے جس نے لفظِ کن سے اس عالم کی تخلیق فرمائی انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیا اور مرسلین کی مقدس جماعت کو اس فرشِ گیتی پر رونق افروز کیا پھر اولیاے کرام اور علماے عظام کو پیدا فرماکر ان کا نائب بنایا انھیں نائبین میں عبقری و عظیم شخصیت مجدد اعظم امامِ اہل سنت امام احمد رضا خاں قدس سرہ کی ذاتِ گرامی ہے آپ کی ولادتِ باسعادت بریلی شریف میں 10 شوال المکرم سنہ 1272 ھ بمطابق 14  جون سنہ 1856ء بروز شنبہ کو ہوئی آپ کا اسمِ مبارک " محمد" رکھا گیا اور تاریخی نام "المختار"سے جانے گئے آپ کے جد امجد حضرت مولانا محمد رضا علی خاں نے آپ کا نام "احمد رضا" تجویز فرمایا آپ نسبا پٹھان مسلکا حنفی مشربا قادری اور مولدا بریلوی ہیں _
تعلیم و تریبت : حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاںے رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیم کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ چار سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید کا ناظرہ ختم کیا ، چھ سال کی عمر میں ربیع الاول شریف کے موقع پر بہت بڑے مجمع کے سامنے آپ نے مسلسل پونے دوگھنٹے تقریر کیں آٹھ سال کی عمر میں آپ نے "ہدایتہ النحو" کی شرح عربی زبان میں تصنیف فرمائی جو کہ آپ کی پہلی تصنیف ہے دس سال کی عمر میں آپ نے درس نظامی کی مشہور کتاب " مسلم الثبوت " پر حاشیہ نگاری کیں چودہ سال کی عمر میں 14 شعبان سنہ 1386ھ میں فارغ التحصیل ہوئے _ 
اساتذۂ کرام : جمیع علوم عقلیہ و نقلیہ آپ نے اپنے والدِ  محترم رئیس المتکلمین حضرت علامہ مفتی نقی علی خاں علیہ الرحمہ سے حاصل کیں جب کہ عربی فارسی کی ابتدائی کتابیں آپ نے حضرت مرزا غلام قادر بیگ سے پڑھیں اس کے علاوہ مولانا عبد العلی رام پوری سے بھی پڑھے _
شرفِ بیعت و خلافت: امام الفضلا بدر الکملا سید السالکین زبدۃ العارفین حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی رحمتہ اللہ علیہ سے آپ کو شرفِ بیعت و خلافت حاصل تھا جس میں آپ اپنے والدِ ماجد کے ہمراہ سلسلۂ قادریہ میں بیعت ہوئے_
آپ کی شخصیت و ذہانت : حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی ذاتِ بابرکات ہمہ جہت ہمہ گیر ہے آپ پچپن ہی سے ذکی و ذہین اعلیٰ دماغ اور زبردست قوتِ حافظہ کے مالک تھے آپ نے دین متین کی احیا و تجدید میں اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ قربان کردیا آپ نے اپنی قلمی علمی طاقت سے دعوت الی اللہ اور ابلاغ حق کا زریں کارنامہ انجام دیا جس قلم کی سیاہی کا ہر قطرہ عمل کی تطہیر اور عشقِ نبی سے روشن و لبالب ہے جن کے ذکر و فکر کا مرکز بارگاہِ رسالت ہے جن کی دینی خدمات فکری تحقیقات کا محور گنبدِ خضری ہے آپ کی فنی بصیرت علمی جامعیت اور اصلاحِ فکر و عمل کا یہ عالم کہ آپ پر ہند و بیرون ہند یونیورسٹیوں میں کئی حیثیتوں سے تحقیقی کام ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں ان یونیورسٹیوں میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، بنارس ہندو یونیورسٹی ، کیلیفورنیا یونیورسٹی (لندن)، کولمبیا یونیورسٹی (نیویارک)، لیڈن یونیورسٹی ( ہالینڈ)، محمد بن سعود یونیورسٹی (ریاض سودیہ عربیہ)، الازہر یونیورسٹی (مصر)، اور بھی بہت سے نام قابلِ ذکر ہیں اس سے امام احمد رضا کی قدس سرہ کی شخصیت و ذہانت اور علمی فضیلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے _ ( امام احمد رضا خاں کی علمی و ادبی خدمات ، ص:12، 13 ،از ڈاکٹر غلام یحییٰ مصباحی )
 تالیف و تصنیف: حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کی تصانیف تقریبا پچاس سے زائد علوم و فنون پر مشتمل ہیں جن کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے جس پر آپ کو کامل درک تھا ، حضرت شیرِ بہار مولانا ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ نے 1990 ء میں" مختلف علوم و فنون "میں آپ کی تعداد 350 تصانیف کا ذکر کیا ہے ، آپ کے شہزادے حضرت علامہ و مولانا محمد حامد رضا خاں علیہ الرحمہ نے 400 سے زائد تعداد بتائی ہے ، لیکن حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے انتقال کے بعد شیرِ بہار حضرت علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ نے آپ کے تصانیف کا شمار کیا تو تعداد چھ سو سے زیادہ نکلی جس کا تفصیلی ذکر انہوں نے "حیاتِ اعلی حضرت" جلد دوم میں کیا ہے _( امام احمد رضا خاں کی علمی و ادبی خدمات ، ص : 13 ، از ڈاکٹر غلام یحییٰ مصباحی ) 
آپ کی دینی خدمات ، فقہی بصیرت ، قوتِ نظر ، قلمی علمی شوکت کے معترف اپنے تو ہے ہی ساتھ ساتھ غیروں نے بھی چوں چرا تسلیم کیا ہے اور مانا ہے کہ آپ نے اصلاحِ فکر و عمل اور پاکیزہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں زریں خدمات کارنامہ انجام دیا ہے _
جماعتِ اسلامی کے بانی ابوالاعلی مودودی : 
" مولانا احمد رضا خاں صاحب کے علم و فضل کا میرے دل میں بڑا احترام ہے فی الواقع وہ علوم دینی پر بڑی وسیع نظر رکھتے ہیں اور ان کی اس فضیلت کا ؛عتراف ان لوگوں کو بھی ہے جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں"_  ( مقالاتِ یوم رضا ، حصہ :2 ،ص: 40 ) 
مولوی محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت :
" اگر کسی کو محبت رسول علیہ التحیہ والثناء سیکھنی ہو تو مولانا بریلوی سے سیکھے"_ ( فاضل بریلوی اور ترک موالات ، ص : 10 از پروفیسر مسعود احمد ) 

مولوی شبیر احمد دیوبندی:
" مولانا احمد رضا خاں کو تکفیرِ کے جرم میں برا کہنا بہت ہی برا ہے کیوں کہ وہ بہت بڑے عالمِ دین اور بلند پایہ محقق تھے"_ ( رسالہ ہادی دیوبند ، ص: 20 ، ذی الحجہ سنہ 1369 ) 
مولوی شبلی نعمانی : 
" مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی جو اپنے عقائد میں سخت متشدد ہیں مگر اس کے باوجود مولانا صاحب کا علمی شجرہ اس قدر بلند درجہ کا ہے کہ اس دور کے تمام عالمِ دین اسی مولوی احمد رضا خاں صاحب کے سامنے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے"_ ( رسالہ الندوہ ، ص: ١٧ ) 

حکیم عبد الحیئ لکھنوی ندوی :
" فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر مولانا احمد رضا خاں کو جو عبور حاصل تھا اس کی نظیر شاید کہیں اور ملے اور اس دعویٰ  پر ان کا مجموعۂ فتاویٰ شاہد ہے"_ ( امام احمد رضا کی حاشیہ نگاری ، جلد 2، ص: 26 )
مولانا کوثر نیازی :
" وہ مولانا احمد رضا خاں بیک وقت  ایک عظیم ادیب بھی تھے اور خطیب بھی ، مناظر بھی تھے اور متکلم بھی ،محدث بھی تھے اور مفسر بھی ، فقیہ بھی تھے اور سیاست داں بھی"_ ( امام احمد رضا خاں کی علمی و ادبی خدمات ، ص:10 ،11 از ڈاکٹر غلام یحییٰ مصباحی ) 
مولانا ابوا الحسن ندوی : 
"حرمین شریفین کے زمانۂ قیام میں بعض رسائل بھی لکھے اور علماے حرمین نے جو سوالات کیے ان کے جواب بھی تحریر کیے متون فقہ اور اختلافی مسائل پر ان کہ ہمہ گیر معلومات ، سرعت تحریر ، اور ذہانت دیکھ کر سب حیران و ششدر رہ گئے"_( امام احمد رضا خاں اور عشقِ مصطفیٰ ،ص: 125 ، از ڈاکٹر غلام مصطفےٰ نجم القادری)
ان تمام شخصیات کے پیش کی گئی تحریرات و  بیانات سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ہمہ جہت ہر میدان میں درجۂ اتم پر تھے آپ کی علمی جامعیت اور فنی بصیرت کے سبھی قائل ہیں جس سے آج اہل سنت و جماعت روزشن و فروزاں ہے آپ کے تجدیدی علمی کارنامہ کی خوشبو  سے پورا عالمِ اسلام معطر ہے اور جس سے وابستگان حضرات اپنے لیے راہ ہدایت اور سامانِ ہدایت حاصل کررہے ہیں.

محمد سبطین رضا محشر مصباحی کشن گنج بہار ریسرچ اسکالر البرکات علی گڑھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے