امام احمد رضا عشق کا پیکر محسوس
(خصوصی تحریر بموقع ولادت سیدی اعلی حضرت)
✍️ محمد ابوذر امجدی گھوسوی( Abuzar Amjadi Ghosi )
دارالعلوم فیض رضا ،حیدر آباد
دس شوال المکرم اس عاشق صادق کا یوم ولادت ہے جس نے دنیا کو عشق رسول ﷺ کے حقیقی معنی سے رو شناس کیا، عوام و خواص کے دلوں میں عشق رسولﷺ کے بیج بوئے۔ اور کتنے ہی گم گشتگان راہ کو ساحل ہدایت سے ہم کنار کیا۔ اور خود ہمہ وقت عشق رسول ﷺ میں مستغرق رہتے تھے۔
آپ تعظیم نبی ﷺ کے پیکر تھے۔ آپ کے دل میں اس قدر تعظیم و توقیر رسول ﷺ جاگزیں تھی کہ شان رسالت مآب میں ایسے الفاظ سننا بھی گوارا نہ فرماتے تھے جس میں بے ادبی و بے تکریمی کا ادنی شائبہ بھی ہو۔
اور جسے ” الحب فی اللہ والبغض فی اللہ “ کا سراپا پیکر دیکھنا ہو وہ اعلی حضرت کو دیکھ لے کہ آپ نے کسی سے بھی محبت کی تو صرف اللہ کے لئے اور کسی سے نفرت کی تو صرف اللہ کی رضا کے لیے۔آپ سنی مسلمانوں سے محبت فرماتے اور رسالت مآب کے گستاخوں سے سخت نفرت کا اظہار فرماتے۔ مومنین پر نرم تو باغیان اہل سنت و دین پر بہت ہی سخت تھے۔
*اعلی حضرت اور عشق رسول*
سیدنا اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ بادۂ حب رسول ﷺ سے کامل طور پر سرشار تھے۔ آپ بلا شبہ فانی فی رسول اللہ ﷺ تھے۔ آپ کی ذات اقدس عشق ” مصطفیٰ جان رحمت عالمﷺ“ سے عبارت تھی۔بعض لوگوں نے آپ کے کمال عشق و محبت رسول ﷺ کو بایں طور بیان کیا ہے۔"اگر عشق پیکر محسوس میں جلوہ گر ہو تو وہ امام احمد رضا کی صورت میں ہوگا ۔
آپ کی حیات مبارکہ کا ایک ایک گوشہ، آپ کے شب و روز کا ایک ایک لمحہ، آپ کے اقوال و افعال، آپ کی تقریر و تحریر غرض کہ آپ کی ایک ایک ادا عشق رسول ﷺ کے معیار پر کھری اترتی ہے۔آپ عشق مصطفی علیہ التحیۃ والثناء کو اپنی جان قرار دیتے تھے۔ اور اس کی فزونی و ترقی کی دعا فرماتے ہوئے کچھ یوں لکھتے ہیں۔
جان ہے عشق مصطفیٰ، روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا، ناز دوا اٹھائے کیوں
اعلی حضرت کے عشق رسول کا ان کے مخالفین بھی اعتراف کرتے تھے۔چنانچہ تھانوی کہتا ہے:۔ " میرے دل میں احمد رضا کا بے حد احترام ہے۔وہ ہمیں کافر کہتا ہے لیکن عشق رسول کی بنا پر کہتا ہے ۔کسی اور غرض سے تو نہیں کہتا"
اعلی حضرت نے اپنی ذات پر سب و شتم، طعن و تشنیع اور گونا گوں الزامات و اتہامات کے سنگ و خشت گورا کئے۔لیکن اپنے آقا و مولی ﷺ کی عزت و ناموس پر کسی حملہ کو گوارا نہ کیا۔پوری زندگی عظمت مصطفی کا پرچم لہرانے کے لیے جہاد بالقلم فرماتے رہے۔
آپ ہر اس شخص اور چیز سے محبت فرماتے جو محبوب خدا ﷺ کی محبوب ہو یا آپ سے منسوب ہو۔اور ہر اس شخص سے بغض و عداوت رکھتے جو بارگاہِ رسالت کا گستاخ ہو یا صحابہ کرام یا اہل بیت عظام سے بغض و عداوت رکھتا ہو۔
*اعلی حضرت اور تعظیم رسول ﷺ*
اعلی حضرت رضی المولی عنہ کے دل میں تعظیم و توقیر رسول ﷺ کی یہ شان تھی کہ "سیتا پور میں حضرت عظیم البرکت سیدنا شاہ اسماعیل میاں صاحب مارہروی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اعلی حضرت سے" سیزدہ درود شریف " نقل کرایا۔ اس درود میں حضور ﷺ کی صفت میں لفظ" حسین" اور لفظ" زاہد" بھی ہے۔ سرکار اعلی حضرت نے پورا درود نقل فرمایا لیکن یہ دو لفظ نقل نہیں کئے بلکہ آپ نے فرمایا کہ 'حسین' صیغۂ تصغیر ہے اور 'زاہد' اسے کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو۔حضور اقدس ﷺ کی شان میں ان الفاظ کا لکھنا مجھے اچھا نہیں معلوم ہوتا۔
اسی طرح حضور اقدس ﷺ سے نسبت و تعلق رکھنے والوں کا بھی کمال ادب و احترام فرماتے۔ اور ایسی کوئی بات روا نہ رکھتے جو ان کی بلند و بالا شان کے نا مناسب ہو۔ ایک فقہی بحث میں بعض حضرات نے یہ لکھ دیا” کما توھم بعض الصحابۃ“ (یعنی بعض صحابہ کو وہم ہوا) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حق میں یہ بات سرکار اعلی حضرت کو پسند نہ آئی ۔فرماتے ہیں:۔” ھذا اللفظ بعید عن الادب فلیجتنب“ یعنی یہ لفظ بعید از ادب ہے لہذا احتراز چاہیے ۔
کتب احادیث پر دوسری کتاب نہ رکھتے۔ اگر کسی حدیث کی ترجمانی فرما رہے ہیں اور درمیان میں کوئی شخص بات کاٹتا تو سخت کبیدہ خاطر اور ناراض ہوتے۔
ذکر میلاد مبارک میں ابتدا سے انتہا تک ادباً دو زانو رہا کرتے۔ یونہی وعظ فرماتے میں چار پانچ گھنٹے کامل دو زانو ہی منبر شریف پر رہتے۔
جب کوئی صاحب حج بیت اللہ کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو پہلا سوال یہی ہوتا کہ بارگاہ سرکار علیہ الصلاۃ والسلام میں حاضری دی؟ اگر اثبات میں جواب ملا، فورا ان کے قدم چوم لیتے۔اور اگر نفی میں جواب ملا، پھر مطلق تخاطب نہ فرماتے، نہ التفات فرماتے۔
سادات کرام سے آپ کو بے پناہ محبت تھی۔اور ان کے ساتھ غایت درجہ ادب و احترام اور عقیدت سے پیش آتے۔آپ کی ذات اس سلسلہ میں منفرد نظر آتی ہے۔ آل رسول کی شان میں قصیدۂ نور میں یوں عرض کرتے ہیں:۔
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
ایک صاحب نے سوال کیا: حضور! کوئی استاذ کسی سید زادہ کو مار سکتا ہے یا نہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا : قاضی جو حدود الہیہ قائم کرنے پر مجبور ہے۔ اس کے سامنے اگر کسی سید پر حد ثابت ہو تو باوجودیکہ اس پر حد لگانا فرض ہے اوروہ حد لگائے گا۔ لیکن اس کو حکم ہے کہ سزا دینے کی نیت نہ کرے بلکہ یہ نیت کرے کہ شہزادے کے پیر میں کیچڑ لگ گئی ہے اسے صاف کر رہا ہوں۔ تو قاضی جس پر سزا دینا فرض ہے اس کو تو یہ حکم ہے تا بمعلم چہ رسد؟(تو معلم کو کیا حق پہونچتا ہے)
*اعلی حضرت اور "الحب فی اللہ والبغض فی اللہ"*
سرکار اعلی حضرت اعدائے اسلام، مرتدوں، ملحدوں اور بے دینوں کے لئے بڑے سخت تھے۔اور آپ کی یہ شدت و غلظت ہرگز ہرگز نفسانیت، کسی ذاتی رنجش یا حسد کی بنیاد پر نہ تھی ۔ بلکہ صرف اور صرف” الحب فی اللہ والبغض فی اللہ “ کی مصداق، صحابہ کرام کے وصف” اشداء علی الکفار “ کا پرتو، غیرت دینی اور حضور ﷺ کے ساتھ آپ کے عشق صادق کا تقاضا تھی ۔اور اس کی ایک روشن دلیل یہ ہے کہ جب اعدائے دین اور گستاخ رسول ﷺ کا معاملہ ہوتا تو یہ باطل فگن، صف شکن، شیر محمدی قلم کی تلوار لے کر اشعار رجز پڑھتا ہوا میدان میں آ جاتا۔
وہ رضا کے نیزہ کی مار ہے کہ عدو کے سینے میں غار ہے
کسے چارہ جوئی کا وار ہے کہ یہ وار وار سے پار ہے
کلک رضا ہے خنجر خونخوار برق بار
اعدا سے کہہ دو خیر منائیں، نہ شر کریں
لیکن جب ان کی اپنی ذات کا معاملہ ہوتا تو حالت اس کے بر عکس نظر آتی۔ کوئی دشمن انہیں گالیاں دیتا ہے تو اعراض و در گزر سے کام لیتے۔ ان کا کوئی سنی بھائی ان کی شان میں نازیبا کلمات کہتا یا بے جا شکایت کرتا یا ان پر خفا و برہم ہوتا ہے تو وہ حلم و بردباری کا پیکر اور لطف و مدارات کے پھول برساتے نظر آتے۔ یہاں اس کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے ۔
سرکار اعلی حضرت کے نام گالیوں سے بھرا ہوا ایک خط آیا ۔حضرت ملک العلما نے چند سطریں پڑھ کر اس کو علیحدہ رکھ دیا۔اور اعلی حضرت سے عرض کیا کہ کسی وہابی نے شرارت کا ثبوت دیا ہے۔حاضرین میں سے ایک صاحب جو نئے نئے مرید ہوئے تھے اس خط کو اٹھا کر پڑھنے لگے۔ اتفاق کہ مرسل کا نام و پتہ لکھا ہوا تھا (واقعی یا فرضی) وہ ان کے اطراف کا تھا، اس لئے ان کو اور زیادہ رنج ہوا۔انہوں نے عرض کیا کہ اس خط میں بد تمیز نے نہایت ہی کمینہ پن ظاہر کیا ہے میری رائے یہ ہے کہ اس پر مقدمہ کیا جائے ۔اور ایسے لوگوں کو سزا دلوائی جائے تاکہ دوسروں کے لیے عبرت ہو۔
اعلی حضرت دس پندرہ خطوط اندر سے لائے اور کہا کہ انہیں پڑھئے ۔ان خطوط میں اعلی حضرت کی شاندار تعریف کی گئی تھی ۔جب وہ پڑھ چکے تو فرمایا: پہلے ان تعریف کرنے والوں کو انعام و اکرام اور جاگیر و عطیات سے مالا مال کر دیجئے پھر گالی دینے والوں کو سزا دلوانے کی فکر کیجئے گا۔ انہوں نے عرض کیا کہ جی تو یہی چاہتا ہے مگر اپنی وسعت سے باہر ہے۔تو فرمایا : جب آپ مخلص کو نفع نہیں پہونچا سکتے تو مخالف کو نقصان بھی نہ پہونچائیے۔
(تحریر کے اکثر مشمولات 'تمہید ایمان' سے اخذ کئے گئے ہیں )
اللہ تعالٰی ہمیں اس عاشق صادق کے مسلک حقہ پر مضبوطی سے قائم و دائم رکھے۔آمین ثم آمین یا رب العلمین
١٠ شوال المکرم ١٤٤٢
مطابق ٢٢ مئی ٢٠٢١
بروز شنبہ
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں