اعلیٰ حضرت اور محدث صورتی کے گہرے روابط
از:محمدابوہریرہ رضوی مصباحی رام گڑھ (رکن:مجلس جھارکھنڈ )
اعلٰی حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی اور حضرت مولانا وصی احمد محدث صورتی علیہما الرحمہ ماضی قریب کے اجلہ علمامیں سے ہیں، یہ بتانےکی ضرورت نہیں کہ ان دونوں بزرگوں کے باہمی روابط اور پراخلاص تعلقات کی داستان رفاقت تقریباً نصف صدی کومحیط ہے، دونوں حضرات ایک دوسرے کا بے حد احترام کیا کرتے تھے۔ محدث سورتی اگرچہ عمر میں اعلیٰ حضرت سے بڑے تھے مگرپھر بھی آپ اعلیٰ حضرت کو ہرمعاملے میں فوقیت دیتے تھے اور ان کے علم وفضل کے ہر مقام پر معترف رہے.
اب اس عنوان کے تحت اعلیٰ حضرت سے ان کے گہرے روابط کے چند شواہد ملاحظ فرمائیں:
محدث سورتی کا یہ اعلٰی حضرت سے محبت ہی کا نتیجہ تھا کہ اپنے "مدرستہ الحدیث " کا سنگ بنیاد آپ کے ہاتھوں سے رکھوایا "تحریک مخالفت ندوہ" میں اعلیٰ حضرت کے دست و بازو بنے رہے اور اس سلسلے میں آپ کے مشورہ کو ہر مشورے پر مقدم رکھتے، غائبانہ میں جب کبھی اعلیٰ حضرت کا نام آجاتا تو فرط محبت سے گردن خم کر لیتے، تدریسی محفلوں میں آپ بار بار اعلیٰ حضرت کا تذکرہ فرماتے ۔ اسی طرح ایک دن آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے ذکر میں رطب اللسان تھے کہ حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ جو ان دنوں ایک طالب علم کی حیثیت سے درس گاہ میں موجود تھے، عرض گزار ہوئے، حضور گستاخی معاف! مجھے ایک بات اب تک سمجھ میں نہ آسکی، میں نے سنا تاکہ جو جس کا کھاتا ہے اسی کا گاتا ہے آپ کے تعلق سے مجھے علم تھا کی آپ کوشرف بیعت حضرت فضل الرحمن گنج مراد آبادی سے حاصل ہے لیکن کبھی ان کا تذکرہ میرے ان کانوں نے نہ سنا البتہ امام عشق و محبت اعلیٰ حضرت کا خطبہ آپ خوب والہانہ انداز میں پڑھتے ہیں"۔
شاگرد کے اس سوال پر محدث سورتی علیہ الرحمہ نے جو جواب دیا اسے عشق کی آنکھوں سے سے پڑ ھیے!
فرماتے ہیں :"جب میں نے پیر و مرشد سے بیعت کی تھی تو بایں
معنیٰ مسلمان تھا کہ میرا سارا خاندان مسلمان خاندان سمجھا جاتا تھا. مگر جب اعلیٰ حضرت سے ملنے لگا تو ایمان کی حلاوت مل گئی اب ایمان وہی نہیں بلکہ بعونہ تعالیٰ حقیقی ہے جس نےحقیقی ایمان بخشا اس کی یاد سے اپنے دل کو تسکین دیتا رہتا ہوں ".حضرت محدث اعظم ہند پھر عرض گزار ہوئے" حضور! علم حدیث میں کیا وہ آپ کے برابر ہیں؟ آپ نے فرمایا :ہرگزنہیں، پھر فرمایا:شہزادے صاحب! آپ کچھ سمجھےکہ ہرگز نہیں کا کیامطلب ہے؟ سنیے:اعلیٰ حضرت امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں میں سالہا سال اس فن میں تلمذ کروں تو بھی ان کا پاسنگ نہیں ٹھروں گا. (1)
محدث سورتی کو اعلیٰ حضرت سے کس حد تک لگاؤ تھا اس واقعہ سے قارئین بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ خلیفہء اعلیٰ حضرت، ملک العلما علا مظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:
حضور اعلیٰ حضرت پیلی بھیت میں مولانا وصی احمد صاحب محدث سورتی کے یہاں تشریف لے گئے دوران قیام ایک روز کسی صاحب کے یہاں دعوت تھی اور بوجہ نقاہت پالکی میں تشریف لے جانے کا اتفاق ہوا منجملہ اور متوسلین و معتقدین کے خود محدث سورتی صاحب ممدوح پاپیادہ پالکی کے پیچھے پیچھے ہو لیے چوں کہ کہاروں کی رفتار تیز تھی، آپ نے سعی فرمائی یہاں تک کہ دوڑ نا شروع کردیا اور اسی پر بس نہ کیابلکہ نعلین شریفین دربغلیں کرلیں شارع عام پر عام بلکہ تمام حضرات حیرت و استعجاب سے پالکی اور مولانا ممدوح کو دیکھ رہے تھے یکا یک کہاروں نے کاندھا بدلنے کے لیے پالکی روکی چوں کہ حضرت محدث سورتی صاحب تیز روی سے ہمراہ تھے لہذا رو میں پالکی کی کھڑکی کا سامنا ہوگیا، جس وقت اعلیٰ حضرت کی نظر حضرت محدث سورتی پر پڑی کہ وہ بر ہنہ پا پالکی کے ہمراہ ہیں۔ کہاروں کو حکم دیاپالکی یہیں رکھ دو اور فرمایا: مولانا یہ کیا غضب کررہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا : حضور تشریف رکھیں۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا: ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، محدث صاحب نے فرمایا: آپ بہت کمزور اور ابھی مکان دور ہے۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا: اچھا تو آپ یہیں سے واپس تشریف لے جایئے تب پالکی میں بیٹھوں گا ورنہ میں بھی پییدل چلوں گا بالآخر محدث صاحب کو واپس لوٹنا پڑا تب پالکی آگے بڑھی، چوں کہ حضرت محدث سورتی بھی وہاں مدعوتھے اعلیٰ حضرت کے پہنچ جانے کے بعد ان رئیس صاحب نے دوبارہ پالکی حضرت محدث صاحب کے لیے بھیجی۔ (2)
ایک مرتبہ چند مسائل کی تحقیق کے لیے حضور محدث سورتی علیہ الرحمہ پیلی بھیت سے بریلی تشریف لے گئے ، اتفاق سے جب آپ آستانہء رضویہ پر پہنچے تو اس وقت رات کے دو بج رہے تھے اعلیٰ حضرت اس وقت تحریری کام میں مشغول تھے۔ حضرت محدث سورتی نہایت ادب کے ساتھ اعلیٰ حضرت سے ملے، عام طور پراس وقت کھانا موجود ہونے کا بہت کم ہی تصور کیا جاسکتا ہے، لیکن اس آستانے کا حال ہی کچھ اور ہے۔ اعلیٰ حضرت نے خادم سے فرمایا کہ گھر پر خبر کر دو کہ پیلی بھیت سے محدث صاحب تشریف لائے ہیں ، تین آدمیوں کا کھانابھیج دیں جب کھانا پیش کیا گیا تو اعلیٰ حضرت بھی مہمان کے ساتھ دسترخوان پر رونق افروز ہو گئے ، کھانے میں نیبو اور پیاز بھی کچھ زیادہ مقدار میں دسترخوان پر موجودتھی - محدث سورتی نے مسکرا کر فرمایا کہ
اس وقت سیخ کے کباب ہوتے اور زیادہ لطف دیتے (محدث سورتی کباب بہت شوق سے کھاتے تھے) مہمان کی اس خواہش کو سنتے ہی اعلیٰ حضرت گھر میں تشریف لے گئے اور چند منٹ کے بعد جب باہر آئے تو ہاتھ میں ایک چٹنی کی پلیٹ تھی جس میں16 کباب سیخ کے موجود تھے۔ قاری احمد صاحب رقم طراز ہیں کہ کبابوں سے گرم گرم بھاپ نکل رہا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی تیار کیے گئے ہیں، جملہ مہمان، اعلیٰ حضرت کی اس کرامت کو دیکھ کر حیران رہ گئے ۔(3)
محدث سورتی جب التعليق المجلي شرح منية المصلی تحریرفرمارہے تھے تو ایک دن مسودہ آپ کی چوکی سے گم ہوگیا، آپ نے بہت تلاش کیا مگر نہ ملا ،اعلیٰ حضرت سے اس کی گم شدگی کے بارے میں فرمایا گیا، چناں چہ آپ نے جواب دیا، ضائع نہیں ہوا بلکہ احتیاط سے رکھا ہوا ہے نیز آپ نے محدث سورتی سے فرمایا کہ آپ کی مسجد میں جنوں کی ایک جماعت رہتی ہے ان میں ایک صاحب علوم اسلامیہ سے واقف ہیں اور آپ کے درس حدیث میں بھی شامل رہتے ہیں وہ دیکھنے کے لیے لے گئے تھے مگر واپس رکھنا بھول گئے ، آپ مسجد میں تلاش کیجیے، جب اس کی تلاشی ہوئی تو وہ مسودہ ایک اونچے طاق پر حفاظت سے رکھا ہواملا۔(4)
یہاں ٹھہر کر اعلٰی حضرت کا ایک مکتوب جو انہوں نےمحدث سورتی کے نام لکھا ملاحظہ کر لیں۔
بسم الله الرحمن الرحيم
نحمده ونصلی علی رسولہ الكريم.
بملا حظہ مولا نا الاسد الاسد الاشدالانسدالامجد الا وحد مولانا محمد وصی احمد صاحب محدث سورتی دامت برکاتہم۔
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
یہ فتوی لاہور سے آیا جسے دیکھ کر میری آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھا گیا اور دیر تک انالله وانا اليه راجعون پڑھتارہا، جواب لکھنا فرض تھامگر ابھی لا ہور نہ بھیجا بلکہ اس کی دونقلیں روانہ خدمت کرتا ہوں اول تا آخر حرف بہ حرف ملاحظہ فرمائیں اگر رائے سامی میں صحیح ہو اپنی تصديق مع مہر نیز دستخط مولوی عبد الاحد صاحب اگر تشریف رکھتے ہوں، دونوں نسخوں پر فوراً بیرنگ ارسال فرمائیں کہ پھر میں اسے مولوی نعیم الدین صاحب(صدرالافاضل) کے پاس بھیجوں اور ان کی بھی تصدیق کے بعد لاہور روانہ کروں، اگر رائے والا میں تصدیق فرمانا مناسب نہ ہوتو معا فوراً دونوں نسخے بیرنگ واپس فرمادیں پھر مرادآباد بھیجنا بھی ضروری نہ ہوگا، و السلام دیرنہ فرمائیں والسلام فقیراحمد رضا قادری عفی عنہ۔
28/ جمادی الاولی1330ھ یوم الجمعہ المبارک (5).
اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کے اس مکتوب سے چند باتیں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں، ایک تو یہ کہ اعلیٰ حضرت ماہر عقلیہ اورنقلیہ ہونےکے باوجود فتویٰ نویسی میں حد درجہ احتیاط فرماتےتھے اور کسی مختلف فیہ مسئلہ میں اپنے معاصر علمائے کرام کی تصدیق لے کر ہی استفتا ارسال فرماتے
تھے۔ دوسری بات یہ کہ اپنے ہم عصر علمائے کرام سے آپ کے اچھے روابط تھے بالخصوص حضرت محدث سورتی علیہ الرحمہ سے آپ کوبے پناه عقیدت ومحبت تھی۔
جب محدث سورتی کا وصال ہوا تو اعلیٰ حضرت نے اس آیت قرآنی سے ماده تاریخ وفات نکالا ’’يطاف عليهم بانية من فضة واكواب ‘‘ خدا کی شان دیکھیے کہ محدث سورتی کے وصال کے 6 سال بعد جب اعلیٰ حضرت کا انتقال ہوا تو آیت مذکورہ میں صرف واؤ کے اضافے سے اعلیٰ حضرت کا سن وفات 1340ھ نکل آیا۔
اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے ملک العلماعلامہ ظفر الدين بہاری علیہ الرحمہ یوں رقم طراز ہیں: فقیر قادری جب استازی محدث سورتی کے وصال شریف کے بعد بنظر تعزیت پیلی بھیت حاضر ہوا اس کے بعد اعلیٰ حضرت بریلی شریف کی قدم بوسی کے لیے حاضری دی، ایک دن حضور نے اثنائے تذکرہ فرمایا :"کہ میں نے حضرت محدث صاحب کی تاریخ وفات آیت کریمہ سے پائی جس سے ان کا مرتبہ بھی معلوم ہوتا ہے اور یہ آیت کریمہ حضور نے تلاوت فرمائی" يطاف عليهم بانية من فضة من واکواب"اسی وقت میں نے آیت کریمہ کے اعداد جوڑے تو1334ھ
نکلے، لیکن میرے دل میں ایک کھٹک تھی جس کو کہنے کی ہمت نہ ہوئی، لیکن اعلیٰ حضرت نے اس پر مطلع ہوکر فرمایا: کیا کچھ کہناچاہتے ہیں؟
اتنا اشارہ پا کر میں نے عرض کیا آیت کریمہ " ويطاف“ ہے اس پر تبسم فرمایا اور ارشاد ہوا کہ پوری آیت اس بندہء خدا کی تاریخ ہوگئی جس کا انتقال چھ(6) سال بعد میں ہوگا، اس وقت میراذہن حضور کی طرف نہ گیا لیکن جب حضور کا انتقال 1340ھ میں ہوا تو معا خیال آیا کہ اعلٰی حضرت نے اس دن کو اپنی ہی طرف اشارہ فرمایا تھامگر میں سمجھ نہ سکا۔(6)
محدث سورتی کی اعلیٰ حضرت سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ روح نکلنے سے چند منٹ پہلے حضرت محدث سورتی کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے "اسباب باندھو، پالکی منگاؤ، اور مجھ کو اعلیٰ حضرت کی خدمت میں لے چلو، جلدی کرو، ایسا نہ ہو کہ گاڑی چھوٹ جائے. (7)
دونوں خانوادوں کے درمیان اتنے گہرے روابط تھے کہ محدث سورتی کی نماز جنازہ میں جہاں خلق خدا کا ہجوم تھا وہیں اعلیٰ حضرت کے دونوں صاحبزادے جت الاسلام حضور حامد رضا خان اور مفتی اعظم
علیہما الرحمہ تشریف لے گئے تھے اور حضرت حجتہ الاسلام نے نماز جنازہ پڑھائی۔
*حوالہ جات*
(1) جام نور کا محدث اعظم نمبر:ایریل 2011ءص:59.
(2) حیات اعلی حضرت جلد اول، ص:295، امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف.
(3) حیات اعلیٰ حضرت جلدسوم،ص:295.
(4) حیات اعلیٰ حضرت ،جلد سوم ،ص:250.
(5) کلیات مکا تیب رضا، جلددوم،ص:132.از:ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی.
(6) حیات اعلیٰ حضرت جلد سوم،ص:283.
(7) تذکرہءمحدث سورتی،ص:178،رضا اکیڈمی.
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں