عورتوں کا مسجد کے اندر کسی بھی نفل نماز کے لیے آنا اور ان کی جماعت کا تفصیلی حکم

عورتوں کا مسجد کے اندر کسی بھی نفل نماز کے لیے آنا اور ان کی جماعت کا تفصیلی حکم
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

1- کیا عورتیں مسجد کے اندر کسی بھی نفل نماز مثلاً صلاۃ التسبیح وغیرہ کے لیے آ سکتی ہیں ؟
2- اور کیا عورت کسی نماز کی جماعت کروا سکتی ہے خواہ نفل ہو یا فرض، مسجد میں ہو یا گھر پر، ہر صورت کو واضح فرما دیں ؟ 
سائل : محمد قاسم شہر کریماں شریف
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
1- عورتیں مسجد میں مردوں کے ساتھ کسی بھی نماز کو ادا کرنے کے لیے نہیں آ سکتیں کیونکہ وہاں پر عورتوں کا مردوں کے ساتھ  کا اختلاط (ملاپ) ہوگا جو کہ ناجائز و گناہ  ہے، البتہ اگر درج ذیل شرائط کا سختی کے ساتھ لحاظ کر کے مسجد آئیں تو پھر ان کے لئے آنا جائز ہوگا لیکن پھر بھی عورتوں کے لئے افضل یہی ہوگا کہ وہ مسجد کے بجائے گھر پر ہی نماز ادا کریں، وہ شرائط درج ذیل ہیں :
1- مسجد میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا اِخْتِلاَط (ملاپ) نہ ہو. 
2- عورتوں کی نماز کے لئے علیحدہ باپردہ جگہ موجود ہو . 
3- عورتوں کی جگہ پر غیر مردوں کا گزر نہ ہو.
4- عورتیں باپردہ ہو کر جائیں.
5- شادی شدہ عورتیں اپنے شوہر سے اجازت لے کر جائیں. 
6- کنواری عورتیں اپنے والدین سے اجازت لے کر جائیں. 
7- عورتیں غیر مردوں پر اپنی زیب و زینت ظاہر نہ کریں. 
8- عورتوں پر کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور نہ عورتوں کی وجہ سے کسی اور پر فتنے کا اندیشہ ہو. 
9- ایسی خوشبو لگا کر نہ جائیں جو غیر مردوں تک پہنچے.
ٹوٹ:
چونکہ ان شرائط کا لحاظ رکھنا بہت مشکل ہے، اسی وجہ سے بعض علمائے کرام نے مطلقاً عورتوں کے مسجد میں جانے کو ناجائز قرار دیا ہے، لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ عورتیں کسی بھی قسم کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد نہ جائیں.
2- ایک عورت دیگر عورتوں کو کوئی بھی نماز نہیں پڑھا سکتی کیونکہ عورت کا امامت کروانا بہرصورت مکروہِ تحریمی اور ناجائز و گناہ ہے، خواہ وہ فرائض میں ہو یا نوافل میں، خواہ امام عورت پہلی صف کے درمیان کھڑی ہو کر امامت کروائے یا آگے بڑھ کر کروائے، خواہ مسجد میں کروائے یا گھر پر کروائے۔

چنانچہ علامہ برہان الدین علی بن ابوبکر مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"و يکره للنساء أن يصلين وحدهن الجماعة"
یعنی اور عورتوں کے لئے (مردوں کے بغیر) اکیلے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
(الهداية، جلد 1 صفحہ 125، مکتبہ رحمانیہ لاہور)

علامہ ابوبکر بن علی حداد رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : 
"(یکرہ للنساء ان یصلین وحدھن جماعۃ ) یعنی بغیر رجال، و سواء فی ذلک الفرائض و النوافل و التراویح‘‘
یعنی اکیلے عورتوں کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے یعنی مردوں کے بغیر اور یہ حکم فرائض، نوافل اور تراویح سب میں برابر ہے۔
(الجوھرۃ النیرۃ، جلد 1، صفحہ 162، مکتبہ رحمانیہ لاہور)

علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد المعروف ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"(یکرہ للنساء ان یصلین جماعۃ لانھن فی ذلک لا یخلون عن ارتکاب محرم ) ای مکروہ لان امامتھن اما ان تتقدم علی القوم او تقف وسطھن، و فی الاول زیادۃ الکشف و ھی مکروھۃ، و فی الثانی ترک الامام مقامہ و ھو مکروہ و الجماعۃ سنۃ و ترک ما ھو سنۃ اولی من ارتکاب مکروہ‘‘
یعنی اکیلی عورتوں کے لئے  جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے اس لئے کہ اس صورت میں عورتیں حرام (مکروہِ تحریمی) کے ارتکاب سے خالی نہ ہوں گی کیونکہ ان کی امام تمام عورتوں کے آگے ہوگی یا ان کے صف کے درمیان میں کھڑی ہو گی، پہلی میں تو بے پردگی کی زیادتی ہے اور یہ مکروہ ہے اور دوسری صورت میں امام کا اپنی جگہ کو چھوڑنا ہے اور یہ بھی مکروہ ہے اور جماعت سنت ہے اور مکروہ کا ارتکاب کرنے کے بجائے سنت کو چھوڑ دینا اولیٰ (بہتر) ہے۔
(فتح القدیر، جلد 1، صفحہ 362، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے :
"و یکرہ امامۃ المراۃ للنساء فی الصلوۃ کلھا من الفرائض و النوافل"
یعنی اور عورت کا دیگر عورتوں کی امامت کروانا فرائض اور نوافل تمام نمازوں میں مکروہ ہے۔
(فتاوی عالمگیری، جلد 1، صفحہ 75، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)

علامہ محمد بن علی المعروف علاءالدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
”یکرہ تحریما جماعة النساء و لو فی التراویح فی غیر صلوة جنازة،،
یعنی نمازِ جنازہ کے علاوہ عورتوں کی جماعت مکروہ تحریمی ہے اگرچہ نماز تراویح ہو۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار، جلد 2، صفحہ 365، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

اس کے تحت خاتم المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین شامی دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
”افاد ان الکرھة فی کل ما تشرع فیہ جماعة الرجال فرضا او نفلا"
یہ عبارت اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ ہر وہ جماعت جو مردوں کے لئے مشروع ہے وہ عورتوں کے لئے مکروہ ہے، خواہ نماز فرض ہو یا نفل۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار، جلد 2، صفحہ 365، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

امام فخر الدین عثمان بن علی زیلعی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
”اما قیام الامام وسط الصف و ھو مکروہ او تقدم الامام و ھو ایضاً مکروہ فی حقھن“
یعنی (عورت) امام کا صف کے درمیان کھڑا ہونا اور یہ مکروہ ہے یا (عورت) امام آگے کھڑا ہونا اور یہ بھی عورتوں کے حق میں مکروہ ہے۔
(تبیین الحقائق، باب الامامة، جلد 1، صفحہ 135، مطبوعہ ملتان)

علامہ شیخ احمد بن محمد اسماعیل طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"(و کرہ جماعۃ النساء) تحریم للزوم احد المحظورین، قیام الامام فی الصف الاول و ھو مکروہ، او تقدم الامام و ھو ایضاً مکروہ فی حقھن‘‘
یعنی عورتوں کی جماعت مکروہِ تحریمی ہے کیونکہ اس سے دو ممنو ع چیزوں میں سے ایک کے لازم ہونے کی وجہ سے، ایک امام (عورت) کا پہلی صف میں کھڑا ہونا اور یہ مکروہ ہے یا امام (عورت) کا آگے (امام کی جگہ پر) کھڑا ہونا اور یہ بھی عورتوں کے حق میں مکروہ ہے۔
(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، جلد 1، صفحہ 411، المکتبۃ الغوثیہ)

صدر الشریعة مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
”عورت کو مطلقاً امام ہونا مکروہ تحریمی ہے، فرائض ہوں یا نوافل۔“
(بہارِشریعت، امامت کا بیان، جلد 1، حصہ سوم، صفحہ 569، مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم 
کتبہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

کتبـــه✍️ ابواسید عبید رضا مدنی
03068209672

✅ تصدیق و تصحیح :
آپ نے عورتوں کی امامت کے حوالے سے اور صلوۃ التسبیح وغیرہ کی نماز کی ادائیگی کے لئے عورتوں کے مسجد میں آنے کے حوالے سے جو تفصیلی فتویٰ تحریر فرمایا ہے، بندہ ناچیز اس کی مکمل تائید و تصویب کرتا ہے اور بحمداللہ تعالیٰ یہ بہت تحقیقی فتویٰ ہے، اسی پر ہمارے  بزرگ علماء کے فتاویٰ ہیں اور اسی پر ہماری تحقیق ہے اور یہی ہماری رائے اور فتویٰ ہے، اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں، عمر میں، عمل میں مزید برکات فرمائے۔
مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے