بدمذہبوں کو مولانا نہ کہیں

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

بدمذہبوں کو "مولانا"نہ کہیں

بعض لوگ بدمذہبوں اور گمرہوں,بلکہ مرتدین کو بھی مولانا لکھتے اور بولتے ہیں۔کل کوئی غلام احمد قادیانی کو بھی مولانا غلام احمد قادیانی لکھے اور بولے گا,اس لئے اس کا سد باب ضروری ہے۔

رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے فروغ سنیت کی نیت سے "زلزلہ"نامی کتاب تصنیف فرمائی۔غیروں کو سنیت کی جانب راغب کرنا مقصود تھا,اس لئے انہوں نے حکمت عملی کے طور پر بدمذہبوں کو"مولانا"لکھا,تاکہ ان کے وابستگان ٹھنڈے دل سے حقائق پر غور کریں اور بدمذہبیت سے تائب ہو کر سنیت کی طرف مائل ہو سکیں۔یہ علامہ موصوف کی ایک حکمت عملی تھی۔

ایک دیوبندی نے اس پر سوال کیا تو علامہ موصوف نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف"زیر و زبر"میں جواب دیا کہ مدارس اسلامیہ کے فارغین(عالمیت وفضیلت کی ڈگری پانے والوں)کو مولانا کہا جاتا ہے,اسی اعتبار سے ہم نے انہیں مولانا و مولوی لکھ دیا۔(زیر وزبر:ملخصا:ص273-مطبوعہ لاہور)

اس میں کوئی شک نہیں کہ"زیر و زبر"ایک مناظراتی تصنیف ہے۔بحث و مناظرہ میں عقائد و مسائل کے ساتھ الزامی جواب بھی دیئے جاتے ہیں۔مناظراتی مباحث سے استدلال اسی وقت کیا جا سکتا ہے,جب وہ تحقیقی مباحث ہوں۔الزامی جوابات سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔

حقیقت یہی ہے کہ مدارس اسلامیہ سے عالمیت و فضیلت کی ڈگری پانے والوں کو بطور تعظیم ہی"مولانا"کہا جاتا ہے۔
ڈگری کے حاملین کو مدارس کی اصطلاح میں بھی عالم اور فاضل کہا جاتا ہے۔مولانا کسی ڈگری کا نام نہیں۔

ایسی صورت میں بلا ضرورت و بغیرحاجت بدمذہبوں کو مولانا کہنا اور لکھنا درست نہیں۔اس سے پرہیز کرنا ہی مناسب ہے۔تاویلات کا سمندر بہت وسیع ہے۔اس سمندر سے ہلاکت کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔اصول شرع کے مطابق جو صحیح ہے,اسی پر عمل کریں۔

درحقیقت رد بدمذہباں ترک کرنے کے سبب یہ سب برائیاں جنم لے رہی ہیں۔لوگ ریشم کی طرح نرم ہوتے جا رہے ہیں۔سلام ,کلام اور میل جول شروع ہو چکا ہے۔شرعی احکام پر عمل کرنے میں لوگ شرم محسوس کرنے لگے۔اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو بدمذہںیت غالب ہو سکتی ہے۔

ایک زمانے میں دعوت اسلامی پر اعتراض ہوتا تھا کہ وہ لوگ بدمذہبوں کا رد نہیں کرتے۔جب دعوت اسلامی والوں نے رد کرنا شروع کر دیا تو معترضین خاموش پڑ گئے۔اب سب لوگ فضائل اعمال پر تحریر وتصنیف اور تقریر و خطابت کرنے لگے۔فضائل اعمال تبلیغی جماعت کی نصابی کتاب ہے۔لگتا ہے کہ محررین و مقررین نے تبلیغی نصاب سے خوب استفادہ کیا ہے۔

فضائل اعمال کے ساتھ ضمنی طور پر ہی سہی,فضائل عقائد بھی بیان کئے جائیں۔دو تین عشروں میں ماحول اس قدر بدل گیا ہے کہ کسی گہری سازش کے ذریعہ بھی ایسا ہونا مشکل تھا۔مذہب کا دائرہ سمٹتا جا رہا ہے۔حکمت عملی کا نام و نشان نہیں۔افسوس ہے ایسے محررین و مقررین پر جو اپنے مذہب کو سمٹتا دیکھ کر بھی خاموش پڑے ہیں۔

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:13:مئی 2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے