ایک دو تین کہنے سے کون سی طلاق واقع ہوتی ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید سے اسکی بیوی کا جھگڑا ہوا،، بسیار تکرار کے بعد زید نے کہا *ایک، دو،تین،* میں نے تم کوچھوڑ دیا،،
بعدہ گھر کے اندر سے آنگن میں آیا زید کی ماں نے کہا کیا ہوا؟ تب بھی زید نے اپنی ماں کے سامنے وہی بات کو دہرایا اور کہا امی میں نے اپنی بیوی ہندہ کو *ایک دو تین* چھوڑ دیا بعدہ ایک معتبر عالم نے زید سے فون پر بات کی اور پوچھا کہ سننے میں آیا ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کو طلاق دیا ہے تو اس نے اقرار کیا کہ ہاں ہم نے اپنی بیوی کو *سب طلاق دے دیا ہے،*
دریافت طلب امر یہ ہیکہ یہ طلاق واقع ہوئ یا نہیں اور اگر واقع ہوئ تو بائن ہے یا مغلظہ اور اب زید و ہندہ کے لئے کیا حکم ہے؟ 
برائے مہربانی تفصلا جواب عنایت فرمائیں 
محمد عدنان رضا بینی پٹی, ضلع مدھوبنی بہار


باسمہ تعالیٰ وتقدس 

الجواب بعون الملک العزیز الوھاب ۔

صورت مسئولہ "ایک دو تین میں نے تم کو چھوڑ دیا"میں لفظ "چھوڑ دیا "صریح ہے، اس وضاحت سے تین طلاقیں مغلظہ واقع ہوگئیں،بعد عدت بغیر حلالہ ہندہ زید کے لئے جائز نہیں، لقولہ تعالیٰ فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔(سورہ بقرہ 230)
کمافی التاتارخانیہ:"واذ قال لامرتہ:تو یکے، تو سہ او قال:ترا یکے، ترا سہ، فی الظہیریۃ ۔۔۔۔ینبغی اں یکون الجواب علی التفصیل ان کان فی حال مذاکرۃ الطلاق او فی حال الغضب یقع والا فلا یقع الا بالنیۃ "(الفتاوی التاتارخانیہ4/418)
اور بہار شریعت میں ہے:"کسی نے پوچھا تونے اپنی عورت کو طلاق دے دی اس نے کہا ہاں یا کیوں نہیں تو طلاق ہوگئی اگرچہ طلاق دینے کی نیت سے نہ کہا ہو"۔(ج،دوم ص 116 المکتبۃ المدینہ) 
اورفتاویٰ رضویہ میں ہے:وذالک لان اللفظ الاول صریح۔(ج 10ص 195 22جلد والی )۔
    
واللہ اعلم بالصواب ۔۔

از: محمد مناظر حسین مرکزی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے